اپنی ٹانگ اڑانا بند کردیں
اس خوبی نے ہمارے سپرمینوں میں تازہ تازہ جنم نہیں لیا ہے۔۔۔
سقراط کہتا ہے ''اس کا احساس ہونا کہ میں نہیں جانتا اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان یہ غلط گمان رکھے کہ وہ جانتا ہے اگر ایک شخص غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اسے جہاز چلانا آتا ہے اور پھر وہ جہاز کا کپتان بن جائے تو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈو بے گا لیکن اگر اسے اس کا احساس ہو کہ اسے جہا ز چلانا نہیں آتا تو وہ ایک مسافر کے طور پر سفر کرے گا تو خود بھی محفوظ رہے گا اور دوسرے بھی بچے رہیں گے ۔''
ہم وہ مریض ہیں جنھیں اپنے مرض کا ہی علم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے طور پر اپنے مرض کا انکشاف کیے بیٹھا ہے او ر بضد ہے کہ وہ اپنے مرض کو جان چکا ہے اور دھڑا دھڑ غلط دوائی کھائے جا رہا ہے اس امید پر کہ وہ عنقریب اپنے مرض کا خاتمہ کر دے گا اس سے مرض کو تو کیا ختم ہونا تھا الٹا مریض حالت مرگ کے قریب آن پہنچا ہے اب وہ انتہائی مدد مانگتی اور ترس کھاتی آنکھوں سے باقیوں کو تک رہا ہے، مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ جن سے مدد کرنے کی التجا کر رہا ہے ان کا حال بھی اسی جیسا ہے اب تو بات دواؤں سے نکل کر دعاؤں تک جا پہنچی ہے۔
ہمیں بہت پہلے سقراط کی کہی بات کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ہم میں سے ہر شخص صرف و ہ کام کر ے جو وہ کرسکتا ہے اور جسے کرنے کی اس میں صلاحیت موجود ہے لیکن اگر آپ وہ کام کر یں گے جس کو کرنے کی صلاحیت آپ میں سرے ہی سے موجود نہیں ہے تو پھر نتیجہ یہ ہی نکلنا ہے، جو نکلا ہے ظاہر اگر ڈاکٹر اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر انجینئر کا کام کرنا شروع کردے اور انجینئر اکاؤنٹنٹ کا کام شروع کردے سرمایہ دار یا کاروباری شخص ملک کی باگ ڈور سنبھال لے یا زمیندار سیاست شروع کر دے اور عقل سے پیدل ٹی وی پر بیٹھ کر گھنٹوں خارجہ امور یا بین الاقوامی الجھے مسائل پر بے تکی بولنا شروع کر دیں تو پھر آدمی کے پاس اپنے سر کو پیٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچتا۔
اصل میں ہمارے ملک میں ہر شخص اس خوش فہمی کا مریض ہو چکا ہے کہ صرف اسے خدا نے سپرمین بنایا ہے اور اس میں ہر کام اور ہر بات کرنے کی صلاحیت اور خوبی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہیں اس سے زیادہ باصلاحیت عقل مند اور دانش مند آدمی ملک کو تو چھوڑو دنیا بھر میں ملنا مشکل ہی نہیں بالکل ناممکن ہے اور اس کے علاوہ باقی سب ناکارہ، جاہل، گنوار اور عقل سے پیدل ہیں اور اگر وہ نہ ہوتا تو نجانے ملک کا کیا حال ہوتا۔
اس خوبی نے ہمارے سپرمینوں میں تازہ تازہ جنم نہیں لیا ہے اور نہ ہی یہ بہت قریب میں پیدا ہوئی ہیں اصل میں ہم اس مرض کے مریض پہلے ہی روز ہو گئے تھے اسی لیے ہمارے بزرگوں نے وہ وہ حیرت انگیز اور حیران کر دینے والے اقدامات اور قومی کارنامے سر انجام دیے کہ دنیا عش عش کر اٹھی اور آج تک ہم ان کے لیے داد تحسین وصول کرتے پھرتے ہیں لیکن ہمارے حال کے کرتا دھر تاؤں کے کارناموں اور فیصلوں نے تو ہمارے بزرگوں کو اتنا پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے کارنامے اور فیصلے اب صرف خوابوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں ملک اور قوم کے متعلق بات کرنے کے لیے تو کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا گیا ہے۔
باقی رہا موجودہ یمن کا بحران تو اس پر جو کچھ آج کل کیا جارہا ہے اس پر اگر میں کچھ کہنے کی جرأت کر لوں تو سب کے سب سیاست دان اور تجزیہ نگار اپنا اپنا شغل میلہ چھوڑ چھاڑ کر مجھے مارنے کے لیے دوڑ پڑیں گے اور مجھے اپنے جوتے ڈھونڈنا مشکل ہو جائیں گے ۔ اور اپنے آپ کو پہنچانا ناممکن ہو جائے گا اصل میں ہم بالکل سیدھے سادے معصوم واقع ہوئے ہیں ہم ہمیشہ اپنے علاوہ دوسروں کو قصور وار ٹہراتے آئے ہیں۔ اصل میں خرابی اور قصور دوسروں میں نہیں بلکہ ہم خود میں ہے ۔
ہماری ساری عمر بیت گئی لیکن ہم کچھ الفاظ کے حقیقی معنی اب تک نہیں سمجھ پائے ہم جان ہی نہیں پائے کہ نیکی کیا ہے، بدی کیا ہے اچھائی کیا ہے، برائی کیا ہے، سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے انصاف کیا ہے، ناانصافی کیا ہے، اختیار کیا ہے بے اختیار ی کیا ہے ، ایمانداری کیا ہے بے ایمانی کیا ہے۔ عقل و دانش کیا ہے جہالت کیا ہے وطن سے محبت کیا ہے نفرت کیا ہے ۔
غلامی کیا ہے آزادی کیا ہے زندگی کا اصل فلسفہ کیا ہے وحشت کیا ہے محبت کیا ہے بس ہم سب ان لفظوں کے معنی سمجھے بغیر سرپٹ بھاگے جارہے تھے ایک دوسرے کو روندتے کچلتے بس آگے نکل جانے کی دھن میں ۔ کبھی ہم نے ایک لمحے بھی سوچا ہی نہیں کہ آخر اس بے معنی بھاگم دوڑ کا نتیجہ کیا نکلے گا اب جب کہ ہم اپنا سب کچھ تباہ و برباد کر چکے تو اب چوراہے پر بیٹھے رو رہے ہیں ایک دوسرے کو کو س رہے ہیں کبھی سیاست دانوں کو کوسنے لگتے ہیں تو کبھی جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
کبھی بیوروکریسی کی ایسی کی تیسی کرنے لگ جاتے ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ آخر ان کا کیا قصور ہے ۔ وہ سب بھی تو اسی بیمار سو چ کی پیداوار ہیں وہ سب بھی تو مریض ہی ہیں جب ہم سب ہی مریض ہیں تو ہم ایک دوسرے کا علاج کیا کر سکتے ہیں، مریض سے صحت مندی آخر کیسے باہر آ سکتی ہے ۔
جیمز رسل نے کہا بے وقوف اور مردے اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے ورنہ زندوں کی دنیا میں تو تغیر و تبدل سے بھر پور ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس ہم ایک کام فوراً کرنا شروع کر دیں او ر وہ ہے سوچنے کا کام۔ فکر کرنے کا کام، عقل و دانش سے کام لینے کا کام۔ آئیں ہم سب اپنے اپنے ذہنوں کی بند کھڑکیاں کھول دیں اپنے ذہنوں کے جالوں کو صا ف کر دیں۔
اور عقل کو اپنا کا م کرنے دیں۔ ہر شخص جہاز کا کپتا ن بننے کے بجائے ایک مسافر کے طور پر سفر کرے۔ وہ خود بھی محفوظ رہے گا اور دوسرے بھی بچے رہیں گے۔ دوسروں کے کام کرنے کے بجائے صرف اپنا کام کریں اور دوسروں کے کام میں اپنی ٹانگ اڑانا بند کر دیں ۔
ہم وہ مریض ہیں جنھیں اپنے مرض کا ہی علم نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے طور پر اپنے مرض کا انکشاف کیے بیٹھا ہے او ر بضد ہے کہ وہ اپنے مرض کو جان چکا ہے اور دھڑا دھڑ غلط دوائی کھائے جا رہا ہے اس امید پر کہ وہ عنقریب اپنے مرض کا خاتمہ کر دے گا اس سے مرض کو تو کیا ختم ہونا تھا الٹا مریض حالت مرگ کے قریب آن پہنچا ہے اب وہ انتہائی مدد مانگتی اور ترس کھاتی آنکھوں سے باقیوں کو تک رہا ہے، مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ جن سے مدد کرنے کی التجا کر رہا ہے ان کا حال بھی اسی جیسا ہے اب تو بات دواؤں سے نکل کر دعاؤں تک جا پہنچی ہے۔
ہمیں بہت پہلے سقراط کی کہی بات کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ہم میں سے ہر شخص صرف و ہ کام کر ے جو وہ کرسکتا ہے اور جسے کرنے کی اس میں صلاحیت موجود ہے لیکن اگر آپ وہ کام کر یں گے جس کو کرنے کی صلاحیت آپ میں سرے ہی سے موجود نہیں ہے تو پھر نتیجہ یہ ہی نکلنا ہے، جو نکلا ہے ظاہر اگر ڈاکٹر اپنا کام چھوڑ چھاڑ کر انجینئر کا کام کرنا شروع کردے اور انجینئر اکاؤنٹنٹ کا کام شروع کردے سرمایہ دار یا کاروباری شخص ملک کی باگ ڈور سنبھال لے یا زمیندار سیاست شروع کر دے اور عقل سے پیدل ٹی وی پر بیٹھ کر گھنٹوں خارجہ امور یا بین الاقوامی الجھے مسائل پر بے تکی بولنا شروع کر دیں تو پھر آدمی کے پاس اپنے سر کو پیٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچتا۔
اصل میں ہمارے ملک میں ہر شخص اس خوش فہمی کا مریض ہو چکا ہے کہ صرف اسے خدا نے سپرمین بنایا ہے اور اس میں ہر کام اور ہر بات کرنے کی صلاحیت اور خوبی کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی ہیں اس سے زیادہ باصلاحیت عقل مند اور دانش مند آدمی ملک کو تو چھوڑو دنیا بھر میں ملنا مشکل ہی نہیں بالکل ناممکن ہے اور اس کے علاوہ باقی سب ناکارہ، جاہل، گنوار اور عقل سے پیدل ہیں اور اگر وہ نہ ہوتا تو نجانے ملک کا کیا حال ہوتا۔
اس خوبی نے ہمارے سپرمینوں میں تازہ تازہ جنم نہیں لیا ہے اور نہ ہی یہ بہت قریب میں پیدا ہوئی ہیں اصل میں ہم اس مرض کے مریض پہلے ہی روز ہو گئے تھے اسی لیے ہمارے بزرگوں نے وہ وہ حیرت انگیز اور حیران کر دینے والے اقدامات اور قومی کارنامے سر انجام دیے کہ دنیا عش عش کر اٹھی اور آج تک ہم ان کے لیے داد تحسین وصول کرتے پھرتے ہیں لیکن ہمارے حال کے کرتا دھر تاؤں کے کارناموں اور فیصلوں نے تو ہمارے بزرگوں کو اتنا پیچھے چھوڑ دیا ہے کہ ان کے کارنامے اور فیصلے اب صرف خوابوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں ملک اور قوم کے متعلق بات کرنے کے لیے تو کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا گیا ہے۔
باقی رہا موجودہ یمن کا بحران تو اس پر جو کچھ آج کل کیا جارہا ہے اس پر اگر میں کچھ کہنے کی جرأت کر لوں تو سب کے سب سیاست دان اور تجزیہ نگار اپنا اپنا شغل میلہ چھوڑ چھاڑ کر مجھے مارنے کے لیے دوڑ پڑیں گے اور مجھے اپنے جوتے ڈھونڈنا مشکل ہو جائیں گے ۔ اور اپنے آپ کو پہنچانا ناممکن ہو جائے گا اصل میں ہم بالکل سیدھے سادے معصوم واقع ہوئے ہیں ہم ہمیشہ اپنے علاوہ دوسروں کو قصور وار ٹہراتے آئے ہیں۔ اصل میں خرابی اور قصور دوسروں میں نہیں بلکہ ہم خود میں ہے ۔
ہماری ساری عمر بیت گئی لیکن ہم کچھ الفاظ کے حقیقی معنی اب تک نہیں سمجھ پائے ہم جان ہی نہیں پائے کہ نیکی کیا ہے، بدی کیا ہے اچھائی کیا ہے، برائی کیا ہے، سچ کیا ہے، جھوٹ کیا ہے انصاف کیا ہے، ناانصافی کیا ہے، اختیار کیا ہے بے اختیار ی کیا ہے ، ایمانداری کیا ہے بے ایمانی کیا ہے۔ عقل و دانش کیا ہے جہالت کیا ہے وطن سے محبت کیا ہے نفرت کیا ہے ۔
غلامی کیا ہے آزادی کیا ہے زندگی کا اصل فلسفہ کیا ہے وحشت کیا ہے محبت کیا ہے بس ہم سب ان لفظوں کے معنی سمجھے بغیر سرپٹ بھاگے جارہے تھے ایک دوسرے کو روندتے کچلتے بس آگے نکل جانے کی دھن میں ۔ کبھی ہم نے ایک لمحے بھی سوچا ہی نہیں کہ آخر اس بے معنی بھاگم دوڑ کا نتیجہ کیا نکلے گا اب جب کہ ہم اپنا سب کچھ تباہ و برباد کر چکے تو اب چوراہے پر بیٹھے رو رہے ہیں ایک دوسرے کو کو س رہے ہیں کبھی سیاست دانوں کو کوسنے لگتے ہیں تو کبھی جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
کبھی بیوروکریسی کی ایسی کی تیسی کرنے لگ جاتے ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ آخر ان کا کیا قصور ہے ۔ وہ سب بھی تو اسی بیمار سو چ کی پیداوار ہیں وہ سب بھی تو مریض ہی ہیں جب ہم سب ہی مریض ہیں تو ہم ایک دوسرے کا علاج کیا کر سکتے ہیں، مریض سے صحت مندی آخر کیسے باہر آ سکتی ہے ۔
جیمز رسل نے کہا بے وقوف اور مردے اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے ورنہ زندوں کی دنیا میں تو تغیر و تبدل سے بھر پور ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس ہم ایک کام فوراً کرنا شروع کر دیں او ر وہ ہے سوچنے کا کام۔ فکر کرنے کا کام، عقل و دانش سے کام لینے کا کام۔ آئیں ہم سب اپنے اپنے ذہنوں کی بند کھڑکیاں کھول دیں اپنے ذہنوں کے جالوں کو صا ف کر دیں۔
اور عقل کو اپنا کا م کرنے دیں۔ ہر شخص جہاز کا کپتا ن بننے کے بجائے ایک مسافر کے طور پر سفر کرے۔ وہ خود بھی محفوظ رہے گا اور دوسرے بھی بچے رہیں گے۔ دوسروں کے کام کرنے کے بجائے صرف اپنا کام کریں اور دوسروں کے کام میں اپنی ٹانگ اڑانا بند کر دیں ۔