کمال پسندی کی نشاۃ ثانیہ

ہم نے اپنی سوچ کا محور اپنی ذات کو بنا کر رکھا ہے ہم خود کو، زبان، نسل اور مذہب کی بنیاد پر مکمل کرناچاہتے ہیں،



ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل ہو، مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی انسان کا مکمل ہونا ناممکن ہے۔ لیکن کچھ اس قسم کے افراد بھی ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ خود کو ہر لحاظ سے مکمل سمجھتے ہیں اور اس بات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بھی بنا لیتے ہیں، خود کو پرفیکٹ رکھنے کی خواہش کوئی جرم نہیں ہے بلکہ اس کے لیے کوششیں قابل تحسین ہیں مگر اس سلسلے میں کی گئی، ریسرچ ثابت کرتی ہیں کہ اس عمل سے اس شخص کی ذات میں منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔

ایسے افراد جو کہ کمال پسندی میں مبتلا ہوتے ہیں ان پر نہ صرف نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے بلکہ ایسے افراد مختلف جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ کینیڈا کے ایک ماہر نفسیات نے تجویز پیش کی کہ کمال پسندی کو بھی ان خطرناک بیماریوں میں شامل کیا جائے جن میں سگریٹ نوشی اور موٹاپا شامل ہے۔

کینیڈا کی ہیلتھ یونیورسٹی کے پروفیسر گورڈن کہتے ہیں ''کہ ہم میں سے ہر پانچ سے دو افراد کمال پسندی کا شکار ہوتے ہیں۔'' زندگی کے کسی بھی ایک میدان میں شدت پسندی جائز ہے یعنی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے شدت پسند ہونا۔ لیکن اس شدت پسندی میں دیکھنا یہ ضروری ہے کہ اس کے محرکات کتنے منفی اور کتنے مثبت ہیں۔ مثال کے طور پر اگر یہ خواہش زندگی کے ہر میدان میں ہو یعنی بینک بیلنس میں، بچوں میں، اپنے آپ میں تو یہ چیز آپ کی زندگی خراب کر سکتی ہے۔

ان میں دوسری قسم ان افراد کی ہوتی ہے جو کہ اپنے اردگرد کے تمام افراد کو پرفیکٹ دیکھنا چاہتے ہیں اور تیسری قسم ان افراد کی ہوتی ہے جو کہ یہ سمجھتے ہیں ان کے اردگرد موجود تمام افراد ان کو پرفیکٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ریسرچ کی گئی جس میں دل کے امراض میں مبتلا افراد کو رکھا گیا۔ اس ریسریچ سے پتا چلا کہ اس مرض میں مبتلا افراد میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو کہ شدت پسندی کا شکار ہیں۔

شدت پسندی کے تناظر میں جب جارحانہ عمل میں طاقت کا استعمال دیکھا جاتا ہے تو یہ ریاستی دہشت گردی اور خونریزی کہلاتی ہے جیسے بیشتر افراد جائز قرار دیتے ہیں۔ لبرل اور بنیاد پرست تجزیہ نگار دونوں ہی اس قسم کی بربریت کو نہ صرف حق بجانب قرار دیتے ہیں بلکہ اس کی حمایت اکٹھی کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہم شدت پسندی کی اصطلاح میں جنگجوانہ طرز عمل کو ہی دیکھتے ہیں ، لیکن شدت پسندی کے عوامل میں ایسے صرف جنگجوانہ طرز فکر سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔

شدت پسندی زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہوتی ہے ، اگر ہم ایسے کمال پسندی قرار دیں تو یہ شدت پسندی سے جدا دکھائی دے گا۔ ہمارے یہاں اب بھی شدت پسندی کی اصطلاح میں یہی نظر آتا ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے ایسے نوجوانوں کی کھیپ تیار کرنا جن کا مقصد ، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کا سہارا لینا ہے۔

کچھ یہی صورتحال ہمیں حالیہ عرب ممالک میں نظر آ رہی ہے جو عوام کی جانب سے شدت سے بڑھتی بے چینی جسے عرف عام میں بغاوت کہتے ہیں سخت خوفزدہ نظر آ رہے ہیں۔ پاکستانی فوج پہلے بھی ان عوامی بغاوتوں کچلنے کے لیے استعمال ہو چکی ہے اور اب دوبارہ ان کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

اردن کے دارالحکومت عمان میں فلسطینیوں کی بغاوت کچلنے کے لیے شاہ حسین نے بریگیڈیر ( بعد میں 1970) جنرل ضیا الحق کی کمان میں پاکستانی فوج کو استعمال کیا تھا، سات ہزار سے زائد فلسطینی قتل کر دیے گئے۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم موشے دیان نے طنزیہ انداز میں کہا کہ 'شاہ حسین نے بیس دنوں میں اتنے فلسطینی مار دیے، جتنے اسرائیل نے بیس سالوں میں نہیں مارے'۔ فلسطینی اب بھی اس واقعے کو 'سیاہ ستمبر' کے نام سے مناتے ہیں۔

لیون ٹراٹسکی نے ایک بار کہا تھا کہ ''ہم انفرادی دہشت گردی کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کیونکہ انفرادی انتقام ہمیں تسکین نہیں پہنچاتا۔''

کمال پسندی میں کسی فرد کا اپنی قوم کو دوسری قوموں سے ممتاز کرنے کا ایک ایسا جذبہ بھی سامنے آتا ہے جو تاریخ انسانی میں بڑی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ جب کہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ قوم پرستی عالمی سیاست میں تبدیل ہو گئی ہے، ریاست یا قوم کی شناخت لوگوں کی شناخت کے ساتھ یکجا ہو گئی ہے یا کم از کم یہ ریاست کے پھیلاؤ کی خواہش کا تعین لسانی و جغرافیائی اصولوں سے مطابق ہوتا ہے، قوم پرستی کے دور میں، لیکن صرف قوم پرستی کے دور میں ہی یہ عمومی اصول تھا کہ ہر قوم کو ایک ریاست قائم کر لینی چاہیے۔

ان کی اپنی ریاست۔ اور اس ریاست میں اس قوم کے تمام اراکین شامل ہوں، قوم پرستی کے عہد سے قبل سیاسی فرمانبرداری کا تعین قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا تھا، چنانچہ تہذیبوں کا تعین قوموں کے اعتبار سے نہیں کیا گیا۔ قرون وسطیٰ کے دوران تہذیب کا تعین مذہبی حوالوں سے کیا گیا، عیسائیت یا اسلام سے وابستہ تمام قوموں کو ایک تہذیب کے طور پر شناخت کیا جاتا تھا، عیسائی یا مسلمان اور ان کی ثقافتی زبان۔ لاطینی ( یایونانی) یا عربی (فارسی) تھی۔

بعد ازاں نشاۃ ثانیہ اور مثالیت پسندی Classicism کے ادوار میں قدیم یونانی اور رومن تہذیبیں ایک عالمگیر اصول بن گئیں۔ اٹھارویں صدی کے اوآخر سے تعلیم اور عوامی زندگی کو قومیانے کا سلسلہ ریاستوں اور سیاسی وفاداریوں کے قومیانے کے عمل کے ساتھ متوازی طور پر جاری رہا۔ شاعروں اور دانشوروں نے ثقافتی قوم پرستی پر زور دیا انھوں نے مادری زبان کی ازسر نو تشکیل کی، اسے ادبی زبان کا درجہ دیا اور اپنے ماضی کی کھوج کی چنانچہ انھوں نے قومی ریاست کے سیاسی دعوؤں کے لیے بنیادیں تیار کر لیں اور جلد ہی ان لوگوں کی جانب سے یہ دعوے کیے جانے لگے جن میں انھوں نے قوم پرستی کا جوش پیدا کیا تھا۔

دراصل یہ تشخص کسی فرد واحد میں پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ذات مکمل کس طرح ہو گی اور اسی سوچ کی شدت پسندی کو لے کر وہ اپنی ذات کے ساتھ قوم پرستی کے رجحان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنی قوم کے نظریات کے تحت ایک ایسے خطے کو حاصل کرنے کے لیے شدت پسندی کے دوسرے رخ تشدد کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ شدت پسندی میں تشدد کی آمیزش کی وجہ سے قوموں کے درمیان تصادم پیدا ہوتا ہے اور ایک طاقت ورکسی کمزور کو اپنی کمال پسندی کے تصور کے تحت دبا دیتا ہے اور اس پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔

قوم پرستی کے جذبے کے ساتھ جب عقائد کا مواد غالب آ جاتا ہے تو اس کمال پسندی کو مکمل کرنے کے لیے اس کا رجحان دہشت گردی، جسے وہ حریت پسندی قرار دیتا ہے، کی جانب ہو جاتا ہے، فرد واحد سے لے کر قبیلے پھر قوم اور اس کے حصول کے لیے جبر و طاقت اور تشدد کا سہارا یہ سب انسانی دماغ کی جانب سے کمال پسندی کے بام عروج کی نشانیاں ہیں۔ا سی سوچ کے تحت وہ دوسری قوم کے کسی فرد، قبیلے یا قوم کی جانب سے اٹھنے والی آواز کو بغاوت قرار دیکر اسے دبانے کی کوشش کرتا ہے اور طاقت کا بے دریغ استعمال کر جاتا ہے۔ آج ہماری دنیا کا یہی المیہ ہے کہ ہم نے اپنی سوچ کا محور اپنی ذات کو بنا کر رکھا ہے، ہم خود کو، اپنی زبان، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر مکمل کرنا چاہتے ہیں، اپنی تکمیل کی آرزو میں خود اکیلے نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہمنوا بھی ملانا چاہتے ہیں اور اسی نظریے کو کسی نہ کسی صورت کسی دوسری قوم کو بہ لحاظ لسان، رنگ و نسل اور مذہب نافذ بھی کرنا چاہتے ہیں۔

ہماری منفی سوچوں اور افعال میں کسی کی کتنی تباہی پوشیدہ ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اسے مختلف نام دیکر ہم اپنے ذات کی تسکین کرتے ہیں اور تاریخ عالم ہمیں جابر، ظالم، فسطائی کے لقب سے یاد کرتی ہے اور ہم خود کو اس کمال پسندی کی آڑ میں حریت پسند، قوم پرست اور انقلابی رہنما قرار دیتے ہیں، دراصل یہ کمال پسندی کی نشاۃ ثانیہ ہے جس کے سحر میں ہم سب کھو گئے ہیں اور فکر و فلسفے سے لے کر تشدد تک ہر حربے کو استعمال کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں