عوام کا چکر…اور اُن کا یو ٹرن
کسی کو معلوم بھی ہے کہ ہمارے دکھ کیا ہے۔ ہم بھی خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔
کیوں ایسے وعدے کرتے ہو جو پورے نہیں کر سکتے ۔ کیوں ایسی دلیل دینے کی کوشش کرتے ہو جس کا ثبوت ہواؤں میں ہوتا ہے۔؟ بڑی بڑی باتیں کر لینے سے اگر خوشحالی آتی تو شاید یہ ملک اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک ہوتا۔ یہاں صرف باتیں ہی باتیں ہیں اور وہ بھی بے سر و پا۔ پالیسی سازی کے لیے دماغ نہیں صرف زبان چلتی ہے۔
دور دور تک عقل ندارد۔ بیانات صرف مخالفت میں اپنی کوئی حکمت عملی یا شعور پایا ہی نہیں جاتا۔ اسی لیے تو ہر بار انھیں ایک نیا یو ٹرن لینا پڑ جاتا ہے۔ یہ دلیل دیتے ہیں کہ سیاست میں کوئی حتمی دشمن اور حتمی دوست نہیں ہوتا۔
ایک محفل میں بیٹھے بڑے میاں کہنے لگے کہ کیوں دل کو جلاتے ہو ان کے یو ٹرن پر، یہاں پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ کبھی عوامی مفاد میں تو کبھی اپنے سر پر سہرا سجانے کے لیے۔ یہاں سب کچھ لمحوں میں بدل جاتا ہے۔
لمحوں میں حلیف سے حریف کا لقب ساتھ لگ جاتا ہے۔ کیا تمھیں یاد نہیں کہ پی پی اور ن لیگ میں کتنے شدید اختلاف تھے لیکن بعد میں دونوں بھائی بہن بن چکے۔ اور پھر ایک دوسرے کو بچانے کے لیے بھی برابر برابر کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ کیا یاد نہیں کہ عمران نے کیا کیا کہا۔ اور پھر تعریفیں بھی اُن کی ایسے کرنے لگے کہ ہم شرمانے لگے اس لیے دل کو چھوٹا مت کرو۔ اور بس اپنے کام سے کام رکھو۔
لیکن ہم جیسے لوگ کیسے کام سے کام رکھ سکتے ہیں جب ہمیں ہر وقت ایک سیاسی بیماری میں مبتلا کر دیا گیا ہو۔ ہر وقت سیاست اور بس سیاست۔ ان سیاست دانوں کو ہر وقت میڈیا کی ضرورت ہے اور شاید بہت حد میڈیا کو سیاست کی۔ ایک حلقے کا الیکشن یوں لگتا ہے جیسے زمین اپنی جگہ سے ہٹ کر آسمان بن جائے گا اور آسمان اپنی جگہ کو چھوڑ کر سمندر میں غرق ہو جائیگا ۔
کسی کو معلوم بھی ہے کہ ہمارے دکھ کیا ہے۔ ہم بھی خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ہمارے گھر میں پانی نہیں آتا اور کتنی بار ہم نے اس کی فکر کی۔ ہمارے بچوں کے پاس تعلیم کی بہتر سہولت نہیں لیکن کیا ہمارا روز کا موضوع گفتگو یہ ہو گا کہ آج اُس کی بیوی اُس کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ یہ بھی سیاست ہے۔
آئیے موٹے موٹے حساب پر بات کرتے ہیں۔ کراچی میں اس وقت 250 سے سے زیادہ بنیادی صحت کے مراکز ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ اُس میں سے اکثر دن میں دو گھنٹے بھی نہیں کھلتے۔ ڈھائی کروڑ کو چھونے والی اس آبادی میں بس تین بڑے سرکاری اسپتال ہیں جہاں ایمرجنسی کی صورت میں مریض کو لایا جاتا ہے۔
جہاں کی اکثر ایمرجنسی وارڈ میں کوئی بستر نہیں ملتا۔ یہاں کے ایک سب سے بڑے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی میں اس حد تک بدبو ہے کہ آپ 5 منٹ وہاں نہیں رک سکتے۔ لیکن ہم سب کو بس ایک بات کی فکر ہے کہ کریم آباد میں خالی پڑے کیمپ میں کتنی کرسیاں ہیں۔
یہاں سب کو جوڈیشل کمیشن پر بات کرنے کے لیے بہت وقت ہے لیکن معصوم بچوں کی زندگیوں کی کوئی پروا نہیں۔ جس الیکشن نے کمیشن کر کے انھیں حکومت دی اُس کی انھیں بال برابر فکر نہیں ہے۔ یہاں بے ہنگم اور غیر فطری سے اتحاد، صرف مفادات کے لیے قائم ہیں۔ یہ ہی خیبر پختونخوا جسے اب تک نیا ہو جانا چاہیے تھا وہاں سے اب کھڑے پانی کی وجہ سے بدبو آنے لگ گئی ہے۔ ہم میں سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ صحت کا انصاف کون سی چڑیا چُگ گئی۔
شاید ہمارے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہے کہ دنیا بھر کی غیر سرکاری تنظیمیں کہہ چکی ہیں کہ پاکستان میں پولیو کے وائرس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ خیبر پختونخوا میں اس مہم کا ٹھیک طور پر نہ چلنا ہے۔ لیکن کوئی پوچھے گا کہ بد انتظامی کا نام لے کر اُس کے چار اضلاع میں پولیو مہم کا سلسلہ کیوں روکا گیا ہے۔؟ اس کی ہر گز ہرگز وجہ دہشت گردی نہیں ہے۔ بلکہ صوبائی حکومت کے محکمہ صحت کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے مطابق اس کی وجہ انسداد پولیو مہم کی ناقص کارکردگی ہے۔ نہیں ہم نہیں پوچھیں گے۔ کیونکہ وہاں جاتے ہوئے شاید ہمارے پر جلنے لگ جاتے ہیں۔
کوئی پوچھے کہ یہ کیسا اتحاد قائم ہو رہا ہے۔ پشاور میں پیپلز پارٹی ، ANP اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت میں اتحاد ہو گیا۔ جو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کا مقابلہ کریگا۔ اور یہاں پر مد مقابل رہنے والی جماعتیں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی مردان میں ساتھ ہو نگی۔ ایک دوسر پر الزامات لگانے اور ایک دوسرے کا دوست کہلانے والوں کی اگر عوامی بھلائی کی داستان دیکھنی ہو تو اس وقت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کی سیاست کو دیکھا جائے اور تھوڑی دیر کے لیے NA 246 کو چھوڑ کر جوڑ توڑ کا اصل ذائقہ چکھا جائے۔ لیکن اس سے شاید مصالحہ نہیں ملے گا۔ اور نہ ہی ہمارے بے چین دل کو قرار آئے گا۔
یہاں سب عوامی بھلائی کے دعویداروں کو دوسروں کی بڑی فکر ہے لیکن اپنے گھر کے چراغ سے اگر آگ لگ رہی ہو تو کسی کو فکر نہیں۔ کوئی اپنا دامن دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لاہور سمیت پورے پنجاب میں گرمیاں شروع ہوتے ہی جہاں سورج اپنا عذاب ڈھا رہا ہے وہی دو سال مکمل ہونے والے اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں اور وہ جو مینار پاکستان میں کیمپ لگا کر حبیب جالب کو یاد کر رہے تھے اُن کے اندر شاید ایک بار پھر میکاولی کی روح آ چکی ہے۔ وہ تین مہینے، چھ مہینے اور دو سال کا نعرہ لگانے والے دیکھے تو سہی کے ہمارے گھروں کی چھتوں پر جب سورج اپنا قہر ڈال رہا ہوتا ہے تو ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے آپ کے لیے کیا کہہ رہے ہوتے ہیں۔
سعودیہ کے یقیناً آپ پر بہت احسانات ہونگے اور آپ کا دل اُن کے لیے نرم ضرور ہو گا۔ ایسی ہی نرمی تو ہمارے لیے بھی دیکھا دیجیے اور کتنے برس ہمیں چاہیے نام بدلنے کے لیے۔ یا پھر ایک اور یو ٹرن لے لیتے ہیں کہ جب اگلے پانچ برس بعد آئینگے تو آپ کو تین مہینے میں بجلی دے دینگے۔
یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ تمام لوگ سیاست اور حکومت ہم پر احسان کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ جتنے یو ٹرن لیے جاتے ہیں وہ سب کے سب عوامی مفاد میں ہمارے لیے ہوتے ہیں لیکن مجھے بتائیے کہ ہمارے دن کب پھرے ہیں۔ کسی پڑوسی کی دوستی اور کسی دوست کی دشمنی کا ہم پر کیا اثر ہوا ہے۔
آج اتنے برسوں بعد بھی جب دنیا مریخ پر اپنا گھر بنا رہی ہے ہمارے یہاں آدھا دن بجلی نہیں ہوتی۔ آج جب ہمارا دوست دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک ہے اور اس کا بجٹ اتنا ہے کہ وہ ہمارا بجٹ خسارہ پورا کر سکتا ہے تو پھر اُن کی زندگی شہانہ اور ہم عذاب میں کیوں ہیں۔ ہماری باتیں بڑی بڑی ہیں یہاں کوئی کہہ رہا ہے کہ اگر حکومت نہیں گئی تو ہم تحفظ کے لیے چلے جائینگے۔ میری دلی خواہش ہوتی کہ اگر وہ یہ کہتے کہ یہاں اگر حکومت صحت کی سہولت نہیں دیتی تو ہم میدان میں اُتر جائینگے۔
خیر یہاں سب کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ہماری فلاح۔ اور اگر کسی کو ہماری بھوک، ہماری کمزور صحت کا خیال نہیں ہے تو وہ بس عوام ہیں۔ جو یو ٹرن نہیں لیتے بس ایک ہی دائرے میں چکر پر چکر لگا رہے ہیں اور وہ بھی کئی نسلوں سے۔ مجھے تو چکر لگا لگا کر چکر آنے لگ گئے ہیں آپ چکر لگاتے رہے میں چائے پی کر آتا ہوں۔