پیپلز پارٹی کے لیے خوشگوار صورتحال
عام انتخابات سے قبل یہ خبریں عام تھیں کہ زرداری کی کوشش تھی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار برقرار رہے
ملک کی تاریخ میں پہلا موقعہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ تقریباً سات سالوں سے سندھ میں مسلسل حکومت کر رہی ہے۔ پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ میں پیپلز پارٹی نے 5 سال حکومت کی مگر بعد میں مارشل لا لگ گیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں سندھ میں دو بار پی پی نے حکومت بنائی مگر مدت پوری نہ ہو سکی جس کے بعد آصف علی زرداری کی صدارت میں سندھ پی پی نے نہ صرف اپنی مدت مکمل کی بلکہ سندھ میں بھٹو دور کے بعد قائم علی شاہ کو پہلی بار 5 سال تک مکمل بااختیار وزیر اعلیٰ بننے کا موقعہ ملا جنھیں وفاقی حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی مگر وزیر اعلیٰ کہا کرتے تھے کہ وہ مکمل بااختیار وزیر اعلیٰ ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس تھی اور مرحوم پیر پگاڑا بھی کہتے تھے کہ سندھ میں ایک نہیں بلکہ چار وزرائے اعلیٰ ہیں جب کہ زرداری صاحب کی ہمشیرہ فریال تالپور تو گزشتہ سات سالوں سے ہی سندھ میں اہم کردار ادا کر تی آ رہی ہیں۔ قائم علی شاہ کی خوش نصیبی کہ وہ اس عمر میں بھی سندھ کے وزیر اعلیٰ ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اب بھی نوجوانوں سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔
پی پی کی گزشتہ وفاقی اور سندھ حکومت کی کارکردگی اگر اچھی ہوتی تو ممکن تھا کہ وفاق میں آج بھی پی پی کی حکومت ہوتی جس کی خراب کارکردگی کا اعتراف سابق صدر زرداری نے حال ہی میں دوبارہ کیا ہے۔
عام انتخابات سے قبل یہ خبریں عام تھیں کہ زرداری کی کوشش تھی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار برقرار رہے اور یہی ہوا۔ پی پی نے حسب سابق اندرون سندھ اور متحدہ نے شہری علاقوں سے کامیابی حاصل کی اور سندھ سے اکثریت کے باوجود پی پی نے بعد میں متحدہ کو بھی شامل اقتدار کر لیا اور غیر اہم وزارتیں متحدہ کے حصے میں آئیں مگر پھر دونوں ماضی کی طرح ساتھ نہ چل سکے اور متحدہ حکومت سے الگ ہو گئی مگر بعد میں متحدہ پھر اقتدار میں شمولیت کے لیے تیار ہوئی مگر صولت مرزا کے بیان سے پیپلز پارٹی کو موقعہ مل گیا کہ وہ متحدہ کو حکومت میں شامل نہ کرے۔
سندھ میں پی پی کی مضبوط حکومت بظاہر تو نظر آ رہی ہے اور گورنر راج کی باتیں بھی سننے میں آتی رہتی ہیں مگر پی پی کے رہنماؤں کے قریب گورنر راج کا کوئی امکان نہیں ہے۔ پی پی کے رہنما اپوزیشن لیڈر ہیں اور اپوزیشن میں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ بڑی اپوزیشن جماعتیں ہیں اور متحدہ اس وقت اپوزیشن میں پی پی کے قریب اور پی ٹی آئی سے دور ہے۔
شیخ رشید نے کوشش کی تھی کہ متحدہ کو پی ٹی آئی کے قریب ل اکر اپوزیشن لیڈر تبدیل کرایا جائے کیونکہ موجودہ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کو پی ٹی آئی فرینڈلی اپوزیشن لیڈر قرار دیتی ہے اور عمران خان نے اسمبلیوں میں واپس آ کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا حقیقی کردار ادا کرنے کا ایک بار پھر اعلان کیا ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی کہا ہے کہ ان کے وزیر اعظم نواز شریف سے اچھے تعلقات تو ہیں مگر وزیر اعظم ہر معاملے میں ان سے مشورہ نہیں کرتے۔ گزشتہ دھرنوں میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی پیش پیش تھیں اور باقی تمام جماعتیں جمہوریت بچانے کی دعویدار بن کر حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں اور حکومت لڑکھڑاتی ہوئی بھی نظر آ رہی تھی مگر دھرنے والوں کو اپنے سرپرستوں کی کھلی حمایت نہ مل سکی کیونکہ دھرنا دینے والے مطلوبہ تعداد میں نہ آ سکے اور بڑے بڑے غیر حقیقی بلند و بانگ دعوے کرنے والے حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
علامہ صاحب بیماری کی آڑ میں کینیڈا لوٹ گئے اور خان صاحب نے دھرنے کی ناکامی کے بعد شادی کر کے اپنی شامیں گزارنے کا انتظام کر لیا اور اب وہ کنٹینر کی بجائے اپنے گھر میں وقت گزار رہے ہیں اور (ن) لیگ کی مدد سے اسمبلیوں میں بھی آ چکے ہیں اور اب عمران خان سندھ کو وقت دینے کا اعلان کر چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور متحدہ کا سندھ سے تعلق حقیقی ہے کیونکہ سندھ کے ان مستقل باسیوں کو سندھ ہی میں رہنا ہے مگر دونوں حقائق جاننے کے باوجود دلی طور پر ایک دوسرے سے ملنے کو تیار نہیں ہیں۔
پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی اکثریت ثابت کرتی رہی ہے اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں رہی ہے مگر متحدہ سندھ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں رہی اور نہ آ سکتی ہے اور وہ پی پی کے ساتھ مجبوری میں شریک اقتدار رہی ہے اور نظرانداز کیے جانے پر اقتدار چھوڑتی ہے پھر دوبارہ شامل اقتدار ہو کر ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنتی ہے مگر اس بار پی پی کو متحدہ کی ضرورت نہیں تھی اور پی پی کی اکثریت متحدہ کو شریک اقتدار کرنے کی شدید مخالف ہے اور اب تو متحدہ اقتدار میں شریک ہونے سے رہ گئی ہے اور اب تو وزیر اعلیٰ نے صاف کہہ دیا ہے کہ پہلے متحدہ اپنی پوزیشن کلیئر کرائے پھر دیکھیں گے۔
متحدہ اپنی یہ پوزیشن کیسے کلیئر کرائے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ پی پی نے متحدہ کو حکومت سے دور کر کے اپنی پارٹی، مقتدر حلقوں، وفاقی حکومت اور قوم پرستوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنالی ہے اور متحدہ تنہا رہ گئی ہے۔ متحدہ کی ضرورت اب کسی کو نہیں۔ آصف علی زرداری متحدہ سے کام نکال کر اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرا چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں سیاسی صورتحال اس لیے خوشگوار ہے کہ وزیر اعظم کو قومی اسمبلی میں اپنی واضح اکثریت کے باوجود پیپلزپارٹی کی ضرورت ہے اسی لیے اقتدار میں آتے ہی اپوزیشن لیڈر کا عہدہ فوری طور پر پی پی کو دے دیا گیا تھا اور اب وزیر اعظم دیکھتے رہ گئے اور سینیٹ میں اپنی اکثریت ثابت کر کے پی پی نے رضا ربانی کو کامیاب کرا لیا اور اب حکومت سینیٹ میں پی پی کی حمایت کے بغیر کوئی بل پاس نہیں کرا سکتی۔
متحدہ کی سیاست سندھ کے شہری حلقوں میں واضح ہے اور وہ وفاقی اور سندھ حکومت سے اپنے تعلقات بگاڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اور آج کل مشکل حالات سے دوچار ہے۔ عمران خان اب سندھ پر توجہ دینے کا اعلان کر چکے ہیں اور وہ پی پی کے شریک چیئرمین سے زیادہ متحدہ کے خلاف ہیں۔ اندرون سندھ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی کو اتنا نقصان نہیں پہنچائے گی جتنا وہ شہری علاقوں میں متحدہ کو پہنچا سکتی ہے۔
اب سندھ میں گورنر راج کا خطرہ ٹل چکا ہے اور وزیر اعظم کو سندھ حکومت کی حمایت کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ ان کی عمران خان سے نہیں بنے گی اس لیے وہ عمران خان کو آصف علی زرداری پر کبھی ترجیح نہیں دیں گے اور سندھ حکومت کے ساتھ کے پی کے مقابلے میں اچھے تعلقات رکھنا چاہیں گے۔
پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے اتنی خلاف نہیں جتنی وہ (ن) لیگ اور الطاف حسین کے خلاف ہے۔ متحدہ اور پی ٹی آئی کی بڑھتی ہوئی موجودہ کشیدگی میں (ن) لیگ بعض موقعوں پر متحدہ پر ہاتھ رکھ رہی ہے جیسے قومی اسمبلی میں وزیر دفاع کی تقریر پر متحدہ نے ان کی مکمل حمایت کی جس پر (ن) لیگی بھی خوش ہوئے مگر پی پی نے متحدہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا۔ جے یو آئی اور اے این پی پہلے ہی پی پی کے بھی ساتھ چل رہے ہیں اور ایسی اچھی موافق صورتحال پی پی کو کبھی میسر نہیں آئی۔