اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا

اب سعودی عرب اور امریکا میں فرق تو ہونا ہی چاہیے۔۔۔

qakhs1@gmail.com

KARACHI:
پاکستان کی پارلیمنٹ میں جنگ یمن کے حوالے سے مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا اور اجلاس جس افراتفری اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا شکار ہوا، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بادی النظر واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ وزیر دفاع، سعودی حکومت کو کچھ یقین دہانیاں کروا کر آچکے تھے، اس لیے جب پارلیمنٹ کا ماحول دیکھا تو ان کا رنگ اڑ چکا تھا۔

اب سعودی عرب اور امریکا میں فرق تو ہونا ہی چاہیے، امریکا کی حمایت کے لیے کسی پارلیمنٹ یا کسی سیاسی جماعت سے مشورے کی ضرورت سابق صدر کو نہیں پڑی تھی اور ایک فون کال پر کہ پاکستان کو پتھروں کے دور میں نہیں پہنچانا تو افغانستان میں امریکا کی حمایت کرو۔

سعودی عرب زیادہ کیا کر سکتا ہے کہ پاکستانیوں کو ملازمت سے نکال دے گا، اس کے علاوہ سعودی عرب کر ہی کیا سکتا ہے، وہ پاکستان پر حملہ نہیں کر سکتا، تیل کی سپلائی بند کرنے کہ دھمکی نہیں دے سکتا، عرب لیگ میں پاکستان تو شامل ہی نہیں، پھر وہاں سے نکالنے کا بھی عمل نہیں کر سکتا، شریف خاندان کا کاروبار ضرور وہاں ہے، ممکن ہے کہ ان کے لیے کچھ مشکلات پیدا کرے، سعودی عرب پاکستان کی معیشت مضبوط بنانے کے لیے کھربوں، اربوں ریال کی سرمایہ کاری تو کر نہیں رہا، پاکستان کو قرضے دے رہا ہے تو سود پر واپس بھی لے رہا ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔ سعودی حکومت پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ کتنا بھی استعمال کر لے پاکستان اگر اپنی عسکری قوت کو نہ بھیجنا چاہیے تو اس سے پاکستان کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا، ہاں پاکستان کی ناراضگی ضرور سعودی عرب کو مشکلات میں گرفتار کر سکتی ہے۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ تقریباً ہر سیاسی جماعت کے سربراہ نے ایک بات مشترکہ کہی کہ اگر مکہ، مدینہ پر حملہ ہوا تو وہ سب سے پہلے آگے ہوں گے۔

عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے، یمن میں حوثی باغی مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں، داعش کی جانب سے مسلمانوں کے اہم مقامات و مزارات کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کا تقدس بھی تو دیکھنے کی ضرورت تھی، حضرت یونس علیہ السلام سمیت انبیا کے مزارات سیدہ زینب کے مزار کو داعش نے شہید کر دیا، اسی طرح تاریخی مقامات کو داعش اپنی جنگجویانہ فطرت کی بنا پر تباہ و برباد کر رہا ہے، کیا ان مقامات کا تحفظ کسی مسلمان پر فرض نہیں ہے، ویسے بھی ذرا تاریخ دیکھ لی جائے کہ جب مکہ پر حملے ہوئے تو دنیا بھر سے کتنے مسلمانوں نے مکہ کا تحفظ کیا تھا؟

یزید بن معاویہ نے اپنے عہد حکومت میں اللہ کے مقدس گھر کعبہ پر منجنیقوں سے پتھر برسائے جس سے کعبہ کی دیواریں منہدم ہو گئیں، روئی اور گندھک کے بڑے بڑے گولوں میں آگ لگا کر بیت اللہ میں پھینکے گئے، اس حرکت کی وجہ سے غلاف کعبہ میں آگ لگ گئی، کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ اور شکستہ ہو گئیں اور چھت گر گئی۔

یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کرائی۔ بنو امیہ کے عہد میں خانہ کعبہ پر دوبارہ حملہ کیا گیا، جس سے نہ صرف کعبہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ حدود حرم میں بھی قتل و غارت گری کی گئی۔ 72 ہجری میں جب حجاز مقدس میں عبداللہ بن زبیرؓ کی حکومت تھی، ایک لشکر حجاج بن یوسف کی قیادت میں مکہ میں حملہ آور ہوا، سنگ باری کی گئی جس سے کعبہ کی چھت گر گئی۔ عبد اللہ بن زبیرؓ اور ان کے ساتھی شہید ہوئے، ایک روایت کے مطابق عبد اللہ بن زبیرؓ کا سر کاٹ کر کعبہ کے پر نالے میں لٹکا دیا گیا اور لاش کو سولی پر لٹکا دیا۔ یہ شہادت کا واقعہ 73 ہجری میں پیش آیا۔

تاریخ اسلام میں ایک ایسے فرقے کا ذکر ملتا ہے جو ابن الحنفیہ کو نعوذ باللہ رسول مانتا تھا، اس فرقے کے لوگ صبح و شام دو وقت کی نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن کے روزے رکھتے تھے، انھوں نے اپنا قبلہ کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرار دے رکھا تھا، اس فرقہ کو قرامطہ کہا جاتا ہے، ایک زمانے میں ان کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ حاجیوں کے ساتھ مارپیٹ کر کے ان کا سامان لوٹ لیتے تھے۔


انھوں نے کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں زمزم کے کنویں میں ڈال دیں اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا، اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو گرز مار کر توڑ ڈالا اور یمن لے گیا، جہاں اس کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ وہ یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آیندہ حج مکہ میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا، بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا، یہ وقعہ 318 ہجری کا ہے، جب کہ بنو عباس کی خلافت کا زمانہ تھا اور مقتدر باللہ خلیفہ تھا، اسی کے ساتھ مصر میں فاطمی سلطنت کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔

یہ سب اس وقت ہوا جب پوری دنیا میں مسلمانوں کی طاقت کا لوہا مانا جاتا تھا، مسلمان ساری دنیا میں طاقتور قوم سمجھے جاتے تھے اور ان کے نام سے قیصران کانپ اٹھتے تھے، ٹھیک اسی وقت مکہ و مدینہ کے تقدس کی حرمت کو پامال کیا گیا اور برادر کشی کی ایسی تاریخ رقم کی آج تک مسلمان اپنی اس ذلت کو بھلائے نہیں بھول سکتے۔

کلمہ اسلام پڑھنے والوں نے ہی ایسی حرکات کا ارتکاب کیا جس کے تصور سے کافر افرنگ بھی کانپ اٹھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح یمن کے بادشاہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کرنا چاہا تو ابابیلوں نے حفاظت کی، تو آج بھی ابابیل ہی حفاظت کریں گی۔ ہاتھیوں کی عظیم فوج کو نازک سی چڑیوں نے اپنی چونچ میں کنکریوں سے ہاتھی والی فوجیوں کو مار گرایا۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ سورۃ الفیل میں موجود ہے۔

لیکن اس کے بعد جب دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ ہوا اور اسلام کے نام لیواؤں نے اسلام کے نام پر حجاز مقدس میں بربریت کی تاریخ رقم کی تو کسی بھی مسلم حکومت یا کروڑوں مسلمانوں نے اس واقعے پر جابر حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔ کس قدر اتفاق کی بات ہے کہ خانہ کعبہ پر ہاتھی کی فوج لے کر حملہ آور ہونے والے ابرہہ کا تعلق بھی یمن سے تھا اور قرامطہ کا تعلق بھی یمن سے تھا، دونوں خانہ کعبہ کی حرمت اور اس کے تقدس سے حسد کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ کعبہ کا تقدس ختم ہو جائے۔

بیس سال تک حجر اسود یمن میں رہا لیکن کسی بھی مسلم ملک نے حجر اسود کو واپس لانے کے لیے کوئی عمل نہیں کیا۔ اب دوبارہ یمن میں ایک حوثی باغیوں کی بغاوت نے سر اٹھایا ہے، داعش بھی حجاز مقدس تک رسائی چاہتا ہے اور اس کے ارادے بھی وہی ہیں کہ جس طرح مقدس اسلامی استعاروں کی بے حرمتی کی اسلام کے نام پر حجاز مقدس میں اپنا مذموم ارادہ کامیاب کرے۔ شاید آج کے مسلم ممالک بمع پاکستان کسی نورالدین زنگی کا انتظار کر رہے ہیں کہ انھیں بھی کوئی بشارت ملے اور وہ پھر جا کر کعبہ کے اردگرد سیسہ پلائی دیوار بنا دیں، تو معذرت کے ساتھ ترقی یافتہ مغربی تہذیب کے دلداہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی، یہود و نصاریٰ کی خواہشات کے تابع ہو گئے ہیں اور بہت قلیل تعداد اہل ایمان کے درجے پر فائز نظر آتی ہے۔

داعش نے اسلام کا جو تشخص دنیا کے سامنے رکھا ہے اس پر کسی بھی مسلم ملک کی جانب سے عملی ردعمل نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ حوثی باغیوں کی پیش قدمی اگر سعودی سرزمین پر ہوئی تو کوئی بھی مسلم ملک انھیں روکنے کے لیے زبانی جمع خرچ سے زیادہ آگے نہیں بڑھے گا۔ ابھی تو سعودی حکومت کسی نہ کسی طرح اس جنگ کے اخراجات برداشت کر لے گی، جب سعودی حکومت ہی نہ رہے تو کون سا ایسا اسلامی ملک ہے جو آگے بڑھ کر 62 اسلامی ممالک کی کمان اپنے ہاتھ میں سنبھالے گا۔ عرب اسرائیل جنگ میں صرف چند دنوں میں عرب افواج کی شکست ہمیں اشارہ دے رہی ہے کہ بغاوت کے عظیم طوفان کو آگے بڑھنے سے پہلے روکنا ضروری ہے۔ آج بھی غیب سے اہل ایمان کے لیے یہ صدا گونج رہی ہے کہ؎

اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے۔

اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔
Load Next Story