’’ٹارگٹس‘‘ پورے

امریکا اور یورپ کو بھی پیغام مل گیا کہ ڈرون حملوں کے خلاف عوامی غصہ سڑکوں پر آگیا ہے

Abbasather@express.com.pk

حاسد اور مخالف جو چاہیں کہتے رہیں، طے شدہ ٹارگٹس کے حوالے سے عمران خان کا امن مارچ کامیاب رہا ہے۔

اصل ٹارگٹ جنوبی وزیرستان کے اندر داخل ہونا نہیں تھا، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک فضا بنانا تھی، وہ توقعات سے بھی بڑھ کر بن گئی۔ فوج اور حکومت دونوں ہی نے ٹانک سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی اور امن مارچ کو جنوبی وزیرستان کی دہلیز کو چھو کر واپس آنا پڑا۔ امن مارچ کیلیے جو شہرت اور جو ملکی اور عالمی توجہ مطلوب تھی، وہ مل گئی۔ عوام کو پتہ چل گیا کہ عمران خان ڈرون حملوں کے خلاف اپنی مہم میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ ادھر امریکا اور یورپ کو بھی پیغام مل گیا کہ ڈرون حملوں کے خلاف عوامی غصہ سڑکوں پر آگیا ہے، آئندہ مزید پھیل کر سونامی بن سکتا ہے۔ مارچ جنوبی وزیرستان کے اندر چلا جاتا تو شہرت اور توجہ کے حجم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہونا تھا۔ یہی بات گزشتہ روز عمران خان نے اپنے بیان میں کہی۔ انھوں نے کہا کہ ان کا مشن پورا ہوگیا، اب سونامی اسلام آباد کا رخ کرے گا۔ اگر امن مارچ جنوبی وزیرستان کے اندر داخل ہو جاتا، تب بھی انھوں نے یہی بیان دینا تھا کیونکہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مارچ وزیرستان میں گیا یا اس کی دہلیز کو چھو کر واپس آگیا۔

ڈرون حملوں کے خلاف ماضی میں بھی بہت بڑے بڑے دھرنے اور مظاہرے ہوئے جو جماعت اسلامی اور جماعت ا لدعوۃ کرتی رہیں، لیکن عمران خان نے کامیاب حکمت عملی اپنائی اور اپنے مارچ کو عالمگیر توجہ کا مرکز بنانے میں خاص طور پر اس لیے کامیاب رہے کہ ایک تو انھوں نے مغرب کے میڈیا اور وہاں کی سماجی شخصیات کو اس مارچ میں شرکت کے لیے ''حاضر'' کر لیا تھا، دوسرا پہلو یہ کہ سفر کا رخ وزیرستان کی طرف تھا جو نہایت حساس علاقہ ہے۔ امریکی اداروں کی توجہ تو ہر صورت اس طرح مبذول ہونی ہی تھی۔ اور کچھ نہ مانیے، اتنا تو پھر بھی ماننا پڑیگا کہ عمران خان نے ''ایونٹ'' کو ''ایونٹ فل'' بنانے کیلیے سارے مصالحے جمع کر لیے تھے اور اسے ''یادگار'' بنانے کا پورا بندوبست کر رکھا تھا۔

ایک تبصرہ یہ بھی چھپا ہے کہ عمران خان نے اپنا گرتا ہوا سیاسی گراف پھر سے ٹھیک کر لیا ہے۔ اس تبصرے میں اشارہ اس سروے کی طرف ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ عمران خان کی مقبولیت کم ہوئی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو پیچھے ہٹا کر انھوں نے جو پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، وہ چھن چکی ہے۔ تبصرہ نگار کے مطابق اب عمران خان پھر مخالفوں کے لیے چیلنج بننے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اس تبصرہ نگار نے بین السطور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ڈرون حملوں پر مذمت کی آڑ میں عمران خان کوئی سیاسی کھیل کھیل رہے تھے جو وہ جیت گئے۔


پاکستان کی سیاست کو دیکھا جائے تو یہ بات حیران کن یا انوکھی نہیں۔ یہاں سیاسی ساکھ بنانے یا گرتی شہرت کو سنبھالا دینے کیلیے سیاستدان میلے کچیلے بچوں کو سرعام گود میں اٹھانے اور ان کے میلے چہرے چومنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن امن مارچ کے کیس میں اس بدظنی کی گنجائش اس لیے نہیں ہے کہ مارچ کا اعلان گرتی ساکھ والے سروے سے پہلے کیا جا چکا تھا۔ بہرحال ہر قسم کی گنجائش پیدا کرنے والے چاہیں تو اپنی بدظنی کے حق میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ عمران خان کو سروے کے نتائج کا پیشگی علم تھا یا انھیں اپنے ذرائع سے گرتی ساکھ کا علم بہت پہلے ہی ہو چکا تھا، فیصلہ انھوں نے اسی زمانے میں کیا۔

اس میں مزے کی بات یہ ہے کہ مارچ بظاہر حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا لیکن ان دونوں کی طرف سے تو خاموشی ہے لیکن برہمی کا اظہار مسلم لیگ ن اور جے یو آئی(فضل الرحمن گروپ) کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ شاید اس لیے ناراض ہے کہ ڈرون حملوں پر حکومت کی مذمت اس کا میدان تھا جس پر عمران خان نے قبضہ کر لیا، بہرحال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عمران خان ن لیگ کے حریف ہیں، اس لیے ن لیگ ان کی ہر بات پر تنقید کرنے لگتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ وہ بھی ڈرون حملوں اور امریکا کے خلاف تحریک کے چیمپئن ہونے کے دعویدار تھے۔ گذشتہ سال ڈیڑھ سال کے بیانات دیکھے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مولانا، عمران خان کے بارے میں ن لیگ سے بھی زیادہ تلخ نوا ہیں۔ ملکی سطح کے سیاسی میدان میں عمران خان جے یو آئی کے نہیں مسلم لیگ ن کے حریف ہیں۔

جے یو آئی کے زیادہ تر انتخابی حلقے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ حصوں تک محدود ہیں۔ ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان تو انکے آبائی حلقوں میں شامل ہیں، اس لیے مولانا کے لہجے کی اتنی زیادہ تلخی سمجھ میں آتی ہے۔ مولانا، عمران خان کو یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ جبکہ عمران خان، مولانا کو زرداری کا ساتھی قرار دیتے ہیں حالانکہ نہ تو عمران خان یہود و نصاریٰ کے ایجنٹ رہے ہیں اور نہ ہی مولانا، زرداری کے ساتھی ہیں۔ (کچھ عرصہ پہلے تک تھے، اب نہیں ہیں) ایک دو اخباروں میںایک دور دراز کی قیاس آرائی چھپی ہے کہ عمران خان ڈیرہ اسماعیل خان سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اور امن مارچ کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اپنے انتخابی حلقے میں نمبر بنائے جائیں۔ اگر یہ قیاس آرائی یا اطلاع درست ہے تو مولانا کی ناراضی کو بلاجواز نہیں کہا جا سکتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کفر و اسلام کی جنگ ہے نہ امریکا یا زرداری کا ساتھی ہونے کا تنازعہ، یہ محض پارلیمنٹ کی ایک سیٹ پر لڑائی کا ''اصولی'' معاملہ ہے جسے دو پختون بچوں کی ''اصولی جنگ'' بھی کہا جا سکتا ہے۔

امریکا کو پیغام مل گیا، عوام نے جو تاثر قبول کرنا تھا وہ بھی کر لیا۔ توقع کرنی چاہیے کہ اب امریکی ڈرون حملے بند ہو جائیں گے، یعنی عمران خان ایک اور معرکہ مار لیں گے۔ مارچ کے نتائج پر زیادہ فکر مند ہونے کی اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ ڈرون حملے بند نہ ہوئے تب بھی کچھ نہیں ہو گا۔ ڈرون حملوں کا معاملہ ''فکس'' ہے اور یہ فکسیشن امریکا اور اس کے پاکستانی معتمد ''حلقوں'' کے درمیان ہوئی تھی۔

عمران خان کے امن مارچ سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی لیکن اس حقیقت کو ویسے کا ویسا چھوڑ کر وہ شمالی وزیرستان کے اندر مارچ کرنے سے بھی گریز نہیں کرینگے۔ ڈرون حملے رکوانے کیلیے دبائو قائم رکھنا ضروری ہے اور وہ بھی اس فریق پر جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ امریکا پر دبائو ڈالنے کا کوئی طریقہ عمران خان کے پاس ہے نہ نواز شریف کے پاس۔ ایک طریقہ القاعدہ کے پاس تھا، وہ اس نے آزما کے دیکھ لیا لیکن اس سے امریکا اور شیر ہو گیا اور ہمارا اتنا نقصان کر دیا جتنا پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ کیا عمران خان اور ڈرون حملوں کے دوسرے مخالفین صحیح جگہ پر صحیح دبائو ڈالنے کے آپشن پر غور کریں گے؟ شاید نہیں... اس لیے کہ اس سے تو میڈیا میں زیادہ کوریج ملے گی نہ ''خیرسگالی'' کی فضا قائم رہے گی اور خسارے کا سودا ہمارے قائدین کبھی نہیں کرتے۔
Load Next Story