کراچی پر قبضے کی سیاست
کراچی، جو آج دو کروڑ تک پہنچتی آبادی کا شہرہوچکا ہے۔مگر ان تمام سہولیات کے فقدان کا شکار ہے
کراچی، جو آج دو کروڑ تک پہنچتی آبادی کا شہرہوچکا ہے۔مگر ان تمام سہولیات کے فقدان کا شکار ہے، جو ایک جدید شہر کی ضرورت ہوتے ہیں۔بلکہ حکمرانوں کی نااہلی،بے بصیرتی اور تنگ نظری کے باعث مسائلستان بن چکا ہے۔یہ ایک صنعتی مرکز اور چوبیس گھنٹے جاگتی بندرگاہ رکھنے والا ایک ایسا میٹروپولیٹن شہرہے،جو قبائلی کلچر کی توسیعی شکل نظر آتا ہے۔
برٹش انڈیا کے آخری دنوں یہ چار لاکھ آبادی کا ایک مرکنٹائل شہر تھا۔ جس کی اربن معاشرت اس کی ہندو، مسیحی اور پارسی برادریوں کی وجہ سے تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کا وفاقی دارالحکومت قراردیے جانے کی وجہ سے ہندوستان سے مہاجرین کا ایک بڑا ریلہ اس شہر کی طرف امڈ آیا۔
جن میں اعلیٰ افسران سے کلرک تک ہر سطح کے سرکاری ملازمین اورمہاراشٹر اورگجرات سے کاروباری طبقات کے علاوہ پورے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اربن معاشرت سے جڑے چھوٹے کاروباری اور ہنرمند افراد نے بھی اس شہر کا رخ کیا۔ یہ کوئی سازش نہیں ، بلکہ اس فکری نرگسیت کا نتیجہ تھی، جس نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو مولانا ابوالکلام جیسی جید شخصیات کے مشوروں کو ماننے سے انکار پر مجبور کیا تھا۔
مہاجرین کی آمد کے بعد شہرکی آبادی ایک دم دس لاکھ تک جا پہنچی۔مہاراشٹراور گجرات سے آنے والوں نے صنعتکاری کا عمل شروع کیا، وہیںتنخواہ دار مڈل کلاس نے شہرکے اطراف میں نئی بستیاں بسا کر اس کے دامن کو وسیع کیا۔ابتدائی دہائیوں کے دوران ملک کی واحد بندرگاہ اور صنعتی مرکز ہونے کی وجہ سے ملک کے طول وعرض سے بھی عوام کا بہاؤ اس شہر کی جانب ہوگیا، جو ہر آنے والے کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا۔ لیکن شہرکی آبادی میں اچانک ڈھائی گنا اضافے نے بیشمارسیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دیا۔آبادی میں اضافے کی ہوشربا شرح یونہی بڑھتی تھی۔
چنانچہ وہ شہر جو کئی دہائیوں سے ایک پرسکون اور خاموش شہر ہواکرتا تھا، اچانک بے چینی اور انتشار میں مبتلا ہوگیا۔ حکمران اشرافیہ نے عوام کے جذبات و احساسات اور ان کو درپیش مسائل کو سمجھنے اوران کے حل کی حکمت عملی تیارکرنے کے بجائے عوام کو کچلنے کا راستہ اختیار کیا۔جس کے نتیجے میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان پہلے سے موجود خلیج مزید گہری ہوگئی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کے دوران جہاں بیشمار غیر منطقی فیصلے ہوئے، وہیں اس شہر کے حوالے سے بعض حکومتی اقدامات نے معاملات و مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔اس شہر کے مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کراچی میں آباد ہونے والے افراد کی اکثریت اس اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی، جنھیں معروف دانشور حمزہ علوی نے دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو انھوں نےSalaristکلاس کا نام دیا ہے ۔
جب کہ ہنر مند افرادی قوت کوCartisan Class کہا۔ اربن بنیاد رکھنے والے یہ طبقات جدید طرزحیات اور آزادی اظہار پر مبنی نظم حکمرانی کے خواہاں ہوتے ہیں۔جب کہ پاکستان جس خطے پرقائم ہواہے، وہاں قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری نظام کی جڑیں خاصی گہری رہی ہیں،بلکہ آج بھی ہے۔ یوں دومختلف معاشرتوں کے درمیان سماجی اور ثقافتی خلیج کا پیدا ہونا فطری ہے۔لیکن معاشی وابستگی اور سیاسی وسماجی تعاون کے نتیجے میں یہ خلیج وقت گذرنے کے ساتھ کم ہوتے ہوئے ختم ہوجاتی ہے۔ مگر پاکستان میں حکمرانوں کی کوتاہ بینی اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل کے باعث ایک طرف مقامی اور آنے والے باشندوں کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی۔جب کہ دوسری طرف شہر مسائل کے انبار تلے دبتا چلاگیا ۔
جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام اس وقت کے آمر ایوب خان نے کیا۔جنھیں بیوروکریٹ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اپنے اقتدار کو استحکام اورطول دینے کی خاطر حاضرسروس ملک کا وزیر دفاع مقرر کیا تھا۔ ایوب خان دیہی معاشرت سے تعلق رکھتے تھے۔جس کی وجہ سے وہ شہری معاشرت کی نزاکتوں سے قطعی نابلد تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ کراچی میں ہونے والے مظاہروں کو اربن معاشرت کا حصہ سمجھنے کے بجائے سازش گردانتے تھے۔اسی زمانے میں انھوں نے تین فیصلے کیے جن پر1958 کے مارشل لاء کے بعد انھوں نے کھل کر عمل کیا۔اول، وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کردیا جائے۔تاکہ نان گزیٹیڈ ملازمتوں میں اس کمیونٹی کی آمد رک جانے سے ان لوگوں کی سول بیوروکریسی پر سے گرفت کمزورپڑجائے۔ساتھ ہی انھوں نے ساڑھے تین سوکے قریب گزیٹیڈ افسران کو بھی فارغ کردیا۔
دوئم، شہر کی ہر پکی بستی کے اطراف کچی بستیاں بسائی جائیں، تاکہ جب کبھی ان بستیوں سے احتجاج اٹھے تو کچھی بستیوں کے لوگوں کو ان کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ اپنی اس پالیسی کا آغاز انھوں نے تربیلا ڈیم کے متاثرین کوکسی قریبی علاقے میں آباد کرنے کے بجائے کراچی منتقل کردیا۔اس کے بعد منظم منصوبے کے تحت یہ عمل آج تک جاری ہے۔
سوئم، سندھ کے مقامی باسیوں کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات استوار نہ ہونے دیے جائیں، بلکہ ان کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دی جائے۔1972ء میں جب سندھ اسمبلی نے سندھی کو سندھ کی صوبائی زبان بنانے کا بل منظور کیا تو ایک بار پھر فسادات کرائے گئے۔ اس مقصد کے لیے رئیس امروہوی کی 1948ء میں لکھی گئی نظم شایع کراکے سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان ایک ایسی آگ لگائی ، جو آج تک بھڑک رہی ہے۔
ہمارے دانشوروں نے کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ شہر جو کئی دہائیوں تک بائیں بازو کی سیاست کا مرکز و محور رہا تھا،1970 کے انتخابات میںاچانک مذہبی جماعتوں کی گود میں کیسے جاگرا؟ کسی بھی حلقے نے اس پہلو پر بھی غور نہیں کیا کہ 1980 کے عشرے میں سائیں جی ایم سید کی آشیر واد سے سید اختر رضوی مرحوم اور احمد الطاف مرحوم سمیت بائیں بازو کے کئی دانشوروں نے جس تنظیم کی فکری تربیت کی۔
اسے کن خفیہ قوتوں نے سندھی عوام سے دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا؟اس کے علاوہ 30 ستمبر کو حیدر آباد اور یکم اکتوبر1988کو کراچی میں جو قتل عام ہوا ،اس کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ تھا اور ان کے مقاصد کیا تھے؟ یہ معاملات آج بھی ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح تجزیہ نگاروں سمیت متوشش شہری اس زمانے کے ایسے کئی اعلیٰ عہدیداروں کے کردار کو فراموش کر بیٹھے ہیں، جنہوں نے سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان عدم اعتماد کا فائدہ ان قوتوں کو پہنچ رہا ہے، جو سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔
کوئی حکمرانوں سے یہ سوال نہیں کرتا کہ وہ72بڑی مچھلیاں کیا ہوئیں،جن کے خلاف 1992ء میں کارروائی کا اعلان کیا گیا تھا؟پھراچانک اس آپریشن کا رخ ایک جماعت کے خلاف کیوں موڑ دیا گیا؟اب پھر ملک کو دہشت گردی سے نجات کے نام پرکارروائیوں کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔
مگر سپریم کورٹ میں تو چار جماعتوں کے عسکری ونگز کی رپورٹ جمع کرائی گئی تھی۔ ان جماعتوں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کیا جارہاہے؟ستمبر2013ء میں گورنر ہاؤس کراچی میں ملک بھر کے سینئر صحافیوں کی موجود گی میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے آپریشن پر نظر رکھنے کے لیے وسیع البنیاد مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ مگر یہ کمیٹی آج تک قائم نہیں ہوسکی۔آخر کیوں؟ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان پیدا کردہ دوریاںکس کے مفاد میں ہیں؟
دراصل کراچی سونے کی ایک ایسی چڑیا ہے، جس پر قبضے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف حیلے بہانے اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی اسے منی پاکستان کہا جاتا ہے، کبھی ملکی معیشت کی شہ رگ کہہ کر سندھ کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ملک کی مقتدر اشرافیہ دیگر مسائل پر ایک صفحے پر ہو یا نہ ہو لیکن کراچی پر قبضے اور اس کے وسائل پر تصرف کے لیے ایک Pageپرضرور آجاتی ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کسی بھی طورپر منی پاکستان نہیں، بلکہ سندھ کا حصہ اور اس کا دارالحکومت ہے۔ اس کے وسائل پرتصرف کاحق صرف اور صرف سندھ کے عوام کوحاصل ہے۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ مسئلہ بہت آسانی کے ساتھ حل ہوسکتا ہے۔
مگر کراچی کے وسائل پر قبضے اور اس کی سیاست کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنے کی خواہش اس شہر میں بد امنی کااصل سبب ہے۔سندھ کے مستقل باسیوں کو اب ان سازشوں کو سمجھنے کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے، جو ان کے شہراور صوبے کے خلاف کی جارہی ہیں۔اس لیے اگراب بھی ان کی آنکھیں نہ کھلیں اوران کے درمیان اختلاف برقرار رہے تو انھیں پچھتانا پڑے گا۔ایک بار پھر عرض ہے کہ موجودہ حکومت کی نیت کسی بھی طور کراچی میں امن کا قیام نہیں ہے، بلکہ اس شہر کے وسائل پر قبضے اور اس کی سیاست کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنا ہے۔
برٹش انڈیا کے آخری دنوں یہ چار لاکھ آبادی کا ایک مرکنٹائل شہر تھا۔ جس کی اربن معاشرت اس کی ہندو، مسیحی اور پارسی برادریوں کی وجہ سے تھی۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کا وفاقی دارالحکومت قراردیے جانے کی وجہ سے ہندوستان سے مہاجرین کا ایک بڑا ریلہ اس شہر کی طرف امڈ آیا۔
جن میں اعلیٰ افسران سے کلرک تک ہر سطح کے سرکاری ملازمین اورمہاراشٹر اورگجرات سے کاروباری طبقات کے علاوہ پورے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اربن معاشرت سے جڑے چھوٹے کاروباری اور ہنرمند افراد نے بھی اس شہر کا رخ کیا۔ یہ کوئی سازش نہیں ، بلکہ اس فکری نرگسیت کا نتیجہ تھی، جس نے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو مولانا ابوالکلام جیسی جید شخصیات کے مشوروں کو ماننے سے انکار پر مجبور کیا تھا۔
مہاجرین کی آمد کے بعد شہرکی آبادی ایک دم دس لاکھ تک جا پہنچی۔مہاراشٹراور گجرات سے آنے والوں نے صنعتکاری کا عمل شروع کیا، وہیںتنخواہ دار مڈل کلاس نے شہرکے اطراف میں نئی بستیاں بسا کر اس کے دامن کو وسیع کیا۔ابتدائی دہائیوں کے دوران ملک کی واحد بندرگاہ اور صنعتی مرکز ہونے کی وجہ سے ملک کے طول وعرض سے بھی عوام کا بہاؤ اس شہر کی جانب ہوگیا، جو ہر آنے والے کو اپنے دامن میں سمیٹتا رہا۔ لیکن شہرکی آبادی میں اچانک ڈھائی گنا اضافے نے بیشمارسیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کو جنم دیا۔آبادی میں اضافے کی ہوشربا شرح یونہی بڑھتی تھی۔
چنانچہ وہ شہر جو کئی دہائیوں سے ایک پرسکون اور خاموش شہر ہواکرتا تھا، اچانک بے چینی اور انتشار میں مبتلا ہوگیا۔ حکمران اشرافیہ نے عوام کے جذبات و احساسات اور ان کو درپیش مسائل کو سمجھنے اوران کے حل کی حکمت عملی تیارکرنے کے بجائے عوام کو کچلنے کا راستہ اختیار کیا۔جس کے نتیجے میں عوام اور حکمرانوں کے درمیان پہلے سے موجود خلیج مزید گہری ہوگئی۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دس برسوں کے دوران جہاں بیشمار غیر منطقی فیصلے ہوئے، وہیں اس شہر کے حوالے سے بعض حکومتی اقدامات نے معاملات و مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔اس شہر کے مسائل کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ کراچی میں آباد ہونے والے افراد کی اکثریت اس اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی، جنھیں معروف دانشور حمزہ علوی نے دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو انھوں نےSalaristکلاس کا نام دیا ہے ۔
جب کہ ہنر مند افرادی قوت کوCartisan Class کہا۔ اربن بنیاد رکھنے والے یہ طبقات جدید طرزحیات اور آزادی اظہار پر مبنی نظم حکمرانی کے خواہاں ہوتے ہیں۔جب کہ پاکستان جس خطے پرقائم ہواہے، وہاں قبائلی، جاگیردارانہ اور برادری نظام کی جڑیں خاصی گہری رہی ہیں،بلکہ آج بھی ہے۔ یوں دومختلف معاشرتوں کے درمیان سماجی اور ثقافتی خلیج کا پیدا ہونا فطری ہے۔لیکن معاشی وابستگی اور سیاسی وسماجی تعاون کے نتیجے میں یہ خلیج وقت گذرنے کے ساتھ کم ہوتے ہوئے ختم ہوجاتی ہے۔ مگر پاکستان میں حکمرانوں کی کوتاہ بینی اور غیر ذمے دارانہ طرز عمل کے باعث ایک طرف مقامی اور آنے والے باشندوں کے درمیان خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی۔جب کہ دوسری طرف شہر مسائل کے انبار تلے دبتا چلاگیا ۔
جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام اس وقت کے آمر ایوب خان نے کیا۔جنھیں بیوروکریٹ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اپنے اقتدار کو استحکام اورطول دینے کی خاطر حاضرسروس ملک کا وزیر دفاع مقرر کیا تھا۔ ایوب خان دیہی معاشرت سے تعلق رکھتے تھے۔جس کی وجہ سے وہ شہری معاشرت کی نزاکتوں سے قطعی نابلد تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ کراچی میں ہونے والے مظاہروں کو اربن معاشرت کا حصہ سمجھنے کے بجائے سازش گردانتے تھے۔اسی زمانے میں انھوں نے تین فیصلے کیے جن پر1958 کے مارشل لاء کے بعد انھوں نے کھل کر عمل کیا۔اول، وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے منتقل کردیا جائے۔تاکہ نان گزیٹیڈ ملازمتوں میں اس کمیونٹی کی آمد رک جانے سے ان لوگوں کی سول بیوروکریسی پر سے گرفت کمزورپڑجائے۔ساتھ ہی انھوں نے ساڑھے تین سوکے قریب گزیٹیڈ افسران کو بھی فارغ کردیا۔
دوئم، شہر کی ہر پکی بستی کے اطراف کچی بستیاں بسائی جائیں، تاکہ جب کبھی ان بستیوں سے احتجاج اٹھے تو کچھی بستیوں کے لوگوں کو ان کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ اپنی اس پالیسی کا آغاز انھوں نے تربیلا ڈیم کے متاثرین کوکسی قریبی علاقے میں آباد کرنے کے بجائے کراچی منتقل کردیا۔اس کے بعد منظم منصوبے کے تحت یہ عمل آج تک جاری ہے۔
سوئم، سندھ کے مقامی باسیوں کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی تعلقات استوار نہ ہونے دیے جائیں، بلکہ ان کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دی جائے۔1972ء میں جب سندھ اسمبلی نے سندھی کو سندھ کی صوبائی زبان بنانے کا بل منظور کیا تو ایک بار پھر فسادات کرائے گئے۔ اس مقصد کے لیے رئیس امروہوی کی 1948ء میں لکھی گئی نظم شایع کراکے سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان ایک ایسی آگ لگائی ، جو آج تک بھڑک رہی ہے۔
ہمارے دانشوروں نے کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ شہر جو کئی دہائیوں تک بائیں بازو کی سیاست کا مرکز و محور رہا تھا،1970 کے انتخابات میںاچانک مذہبی جماعتوں کی گود میں کیسے جاگرا؟ کسی بھی حلقے نے اس پہلو پر بھی غور نہیں کیا کہ 1980 کے عشرے میں سائیں جی ایم سید کی آشیر واد سے سید اختر رضوی مرحوم اور احمد الطاف مرحوم سمیت بائیں بازو کے کئی دانشوروں نے جس تنظیم کی فکری تربیت کی۔
اسے کن خفیہ قوتوں نے سندھی عوام سے دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا؟اس کے علاوہ 30 ستمبر کو حیدر آباد اور یکم اکتوبر1988کو کراچی میں جو قتل عام ہوا ،اس کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ تھا اور ان کے مقاصد کیا تھے؟ یہ معاملات آج بھی ایک معمہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح تجزیہ نگاروں سمیت متوشش شہری اس زمانے کے ایسے کئی اعلیٰ عہدیداروں کے کردار کو فراموش کر بیٹھے ہیں، جنہوں نے سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بونے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان عدم اعتماد کا فائدہ ان قوتوں کو پہنچ رہا ہے، جو سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنے کے خواہشمند ہیں۔
کوئی حکمرانوں سے یہ سوال نہیں کرتا کہ وہ72بڑی مچھلیاں کیا ہوئیں،جن کے خلاف 1992ء میں کارروائی کا اعلان کیا گیا تھا؟پھراچانک اس آپریشن کا رخ ایک جماعت کے خلاف کیوں موڑ دیا گیا؟اب پھر ملک کو دہشت گردی سے نجات کے نام پرکارروائیوں کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔
مگر سپریم کورٹ میں تو چار جماعتوں کے عسکری ونگز کی رپورٹ جمع کرائی گئی تھی۔ ان جماعتوں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کیا جارہاہے؟ستمبر2013ء میں گورنر ہاؤس کراچی میں ملک بھر کے سینئر صحافیوں کی موجود گی میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے آپریشن پر نظر رکھنے کے لیے وسیع البنیاد مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ مگر یہ کمیٹی آج تک قائم نہیں ہوسکی۔آخر کیوں؟ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سندھ کے مستقل باسیوں کے درمیان پیدا کردہ دوریاںکس کے مفاد میں ہیں؟
دراصل کراچی سونے کی ایک ایسی چڑیا ہے، جس پر قبضے کے لیے مختلف اوقات میں مختلف حیلے بہانے اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔ کبھی اسے منی پاکستان کہا جاتا ہے، کبھی ملکی معیشت کی شہ رگ کہہ کر سندھ کے بنیادی حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ملک کی مقتدر اشرافیہ دیگر مسائل پر ایک صفحے پر ہو یا نہ ہو لیکن کراچی پر قبضے اور اس کے وسائل پر تصرف کے لیے ایک Pageپرضرور آجاتی ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کراچی کسی بھی طورپر منی پاکستان نہیں، بلکہ سندھ کا حصہ اور اس کا دارالحکومت ہے۔ اس کے وسائل پرتصرف کاحق صرف اور صرف سندھ کے عوام کوحاصل ہے۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ مسئلہ بہت آسانی کے ساتھ حل ہوسکتا ہے۔
مگر کراچی کے وسائل پر قبضے اور اس کی سیاست کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنے کی خواہش اس شہر میں بد امنی کااصل سبب ہے۔سندھ کے مستقل باسیوں کو اب ان سازشوں کو سمجھنے کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے، جو ان کے شہراور صوبے کے خلاف کی جارہی ہیں۔اس لیے اگراب بھی ان کی آنکھیں نہ کھلیں اوران کے درمیان اختلاف برقرار رہے تو انھیں پچھتانا پڑے گا۔ایک بار پھر عرض ہے کہ موجودہ حکومت کی نیت کسی بھی طور کراچی میں امن کا قیام نہیں ہے، بلکہ اس شہر کے وسائل پر قبضے اور اس کی سیاست کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنا ہے۔