سعودیہ کا تحفظ ناگزیر

تازہ ترین مثال یو اے ای کے ڈاکٹر قرقاش کی ہے جو ہمارے جوانوں کو اس جنگ کے لیے بھجوانے سے انکار پر دھمکی دے رہے ہیں

عالمی برادری میں غالباً پاکستان واحد ملک ہے جو اس فریب کا شکار ہے کہ اگر ''ہیڈ آیا تو میں ہارا اور اگر ٹیل آئی تو تم جیتے'' جس کی تازہ ترین افسوسناک مثال یمن کا معاملہ ہے۔

مغرب کی ڈارلنگ کے طور پر ہم نے ہزارہا سویلین اور فوجی شہادتیں پیش کیں جب ہم نے افغانستان میں روسیوں کے خلاف جنگ میں آنکھیں بند کر کے چھلانگ لگا دی اور اس میں جو ہمارا مادی اور اقتصادی نقصان ہوا اس کے اعداد و شمار دماغ کو چکرا دینے والے ہیں اور جب جنگ ختم ہو گئی تو ہماری تمام قربانیاں اور نقصانات مغرب والوں نے فراموش کر دیے اور اب ہم ان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہیں جو کہ اب ہماری اپنی جنگ بن چکی ہے۔ اس میں ہمیں کیا کیا نقصانات ہو رہے ہیں ان کا ذکر طویل ہے بلکہ ہماری قربانیوں کے جواب میں الٹا ہمیں ہی دہشت گردی کا منبع قرار دینے کی کوشش کی گئی۔

اسے کہتے ہیں زخموں پر نمک چھڑکنا اور اس کے ساتھ ہی ہمیں ایک ناکام ریاست اور ایک دہشت گرد ریاست قرار دینے کی سازش بھی جاری ہے۔

ہماری زیادہ تر مشکلات ہمارے ان برخود غلط لیڈروں کی وجہ سے ہیں جو فیصلہ سازی کے وقت قومی مفاد کے بجائے صرف اپنے ذاتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں جس سے بطور قوم ہماری توقیر مٹی میں مل چکی ہے اور نوبت بہ ایں جا رسید کے کوئی بھی ہمیں خطرناک مضمرات کی دھمکیوں کی سان پر رکھ سکتا ہے۔

تازہ ترین مثال یو اے ای کے ڈاکٹر قرقاش کی ہے جو ہمارے جوانوں کو اس جنگ کے لیے بھجوانے سے انکار پر دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ وہاں جا کر اپنی جانیں قربان کریں حالانکہ اس قضیے سے ہمارا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ۔ بہرحال قرقاش نے اپنے غرور میں ایک ایسی بات کہہ دی جو پاکستان کے حق میں جاتی ہے یعنی یہ کہ ''پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی'' اس نے دراصل ہمارے احساس کمتری کو اجاگر کیا ہے کیونکہ زیادہ تر عرب ممالک پاکستانیوں کو دوسرے یا تیسرے درجے کا شہری تصور کرتے ہیں۔

چوہدری نثار علی نے پاکستانیوں کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں لیکن یہ بات زیادہ خوشی کن ہوتی اگر دفتر خارجہ اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری کرتا۔ اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجیے کہ آخر پاکستان کو کونسی ''بھاری قیمت'' ادا کرنا پڑے گی۔

یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ عربوں نے اپنا غصہ ان لاکھوں پاکستانیوں پر نکالنے کی کوشش کی ہے جو اپنی ہست و بود کے لیے عرب ممالک میں جان توڑ محنت و مشقت کر رہے ہیں۔ یو اے ای کے حکمرانوں سے میرا ذاتی طور پر بھی کچھ واسطہ رہا ہے جس کی بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ ہمارے تارکین وطن کے خلاف کوئی غیر انسانی فیصلہ نہیں کریں گے۔

بعدازاں وزیراعظم میاں نواز شریف نے ٹیلی ویژن پر ''ڈیمیج کنٹرول'' کی اپنی سی کوشش کی اور سعودی عرب کے دل و جان سے تحفظ کا ذکر کیا تاکہ عربوں کا وہ اضطراب دور ہو سکے جس کا انھوں نے اس قدر برملا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ ان کی مایوسی کی بنیاد دراصل پارلیمانی قرار داد کے مطالب کی غلط توجیہہ کی وجہ سے ہے۔


پاکستان اپنے اسٹرٹیجک پارٹنرز کو ہر گز ترک نہیں کر سکتا باالخصوص اس صورت میں جب ان کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ ہو۔ وزیراعظم نے سعودی عرب کی یکجہتی اور استحکام کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے فوج بھجوانے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

اس سلسلے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری طرف سے پہلے ہی کوئی وعدہ نہیں کیا گیا تھا تو پھر ان کی اتنی برگشتگی کی آخر کیا وجہ ہے۔ وہاں پر چونکہ زیادہ تر حکومتیں مطلق العنان ہیں لہٰذا وہ یہ تصور نہیں کر سکتے کہ کسی حکمران کی بات پارلیمنٹ پس پشت ڈال سکتی ہے۔

گویا اس صورت حال میں یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس ابہام کو دور کرنے کی ذمے داری لے بلکہ ہمیں کوئی ایسی بات کرنی ہی نہیں چاہیے جس سے دوسرے بہت ساری توقعات وابستہ کر بیٹھیں کیونکہ اس کا نتیجہ پھر تلخی کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہاں پر ایک اور بھی افسوسناک بات ہے کہ بعض مشیران ''شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار'' کا کردار ادا کرتے ہوئے پانی کو اور زیادہ کیچڑ آلود کر دیتے ہیں ۔

ہم ایران کے ہمسائے ہیں اور ہماری یہ دوستیاں کسی دوسرے کی بنیاد پر نہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ایک سے تعلق کی خاطر دوسرے سے ختم کر لیں، ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرنی چاہیے کہ عرب حکمران ہماری پوزیشن کو سمجھیں اگر یہ باتیں صاف صاف لفظوں میں کہہ دی جائیں تو پھر کوئی ایسا مرحلہ نہیں آتا جس میں ہمیں پشیمان ہونا پڑے۔

ہم اس وقت جو مرضی کر لیں عرب اتحاد اس سے مطمئن نہیں ہو گا جب ہم یہ وعدے کر لیں کہ ہمیں قرقاش کی قسم کے تبصرے قبول نہیں ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی ذمے داری سے جان چھڑا رہے ہیں۔ پاکستان یقینی طور پر سعودی عرب کی خود مختاری اور علاقائی یکجہتی کے تحفظ کے لیے دل و جان سے تیار ہے۔

ہمیں سعودی عرب اپنی فوج بھیجنی چاہیے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ صرف سعودی مملکت کے اندر رہے گی۔ اس موقع پر ہمیں ایران اور چین کو بھی وضاحت کر دینی چاہیے کہ ہم یمن میں ملوث ہونے نہیں جا رہے ہمارے پاس ریزرو فوج کی بھی کافی تعداد ہے جسے بھجوا سکتے ہیں جس کا ہماری داخلی جنگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ان کو سعودی عرب کے دفاع اور حرمین الشریفین کی حفاظت کی ذمے داری سونپی جا سکتی ہے۔

سعودی عرب کے پاس ہتھیاروں کی کوئی کمی نہیں ہے وہاں ہم بڑی تیزی سے ایک میکنائزڈ بریگیڈ تیار کر سکتے ہیں جس کو بڑھا کر دو تین حتیٰ کہ چار بریگیڈوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو فضائی سروس کے ذریعے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچائے جا سکتے ہیں۔

اگر سعودی عرب کی طلب اس سے بھی زیادہ ہو تو ہم یمن کے ساتھ ان کی 12 سو کلومیٹر لمبی سرحد کی نگرانی بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ فوج سرحد کو عبور نہیں کرے گی تاآنکہ ''ہاٹ پرسوٹ'' کی ضرورت پیش نہ آئے جو کہ دراندازی کرنے والوں کے خلاف مجبوراً کرنا پڑتی ہے۔ ہماری فضائیہ بھی ان کی فضائی طاقت کو سپورٹ فراہم کر سکتی ہے جو کہ یمن کی جنگ میں ملوث ہونے سے بالکل مختلف بات ہو گی۔

ہمیں تمام تر خلوص اور تمام تر مدد کے جذبے کے باوجود یہ باتیں صاف صاف بتا دینی چاہئیں کہ ہماری بساط یہیں تک ہے اس سے زیادہ ہم سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔ البتہ جہاں تک سعودی مملکت اور مقامات مقدسہ کے تحفظ کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہماری فوج مملکت میں یقیناً جا سکتی ہے۔
Load Next Story