گزر ہی جائے گی یہ رات پیارے

نبیل گبول ایم کیو ایم چھوڑ چکے ہیں، قومی اسمبلی سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں

لاہور میں دس روز گزار کر خوشگوار یادیں لیے واپس کراچی آیا، دو ایک روز سستانے میں گزر گئے، شہر کراچی میں ضمنی انتخاب کی گہما گہمی عروج پر ہے، لگ رہا ہے کہ جیسے پورے ملک کی سیاست یہیں ہو رہی ہے، دوسرے شہروں میں بھی بڑے چھوٹے سیاسی جلسوں کا موضوع کراچی کا حلقہ این اے 246 بنا ہوا ہے۔

جماعت اسلامی کا انتخابی جلسہ نائن زیرو سے ایک کلومیٹر دور شاہراہ پاکستان پر ہوا، امیر جماعت اسلامی سراج الحق شہر میں موجود رہے، انھوں نے ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے انتخابی حلقے کا دورہ کیا، لیاقت آباد، کریم آباد، عزیز آباد اور ملحقہ آبادیوں سے گزرتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچے جہاں انھوں نے پرزور خطاب کیا، چند روز قبل تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے بھی حلقہ این اے 246 کا دورہ کیا تھا، وہ بھی ایک ریلی کی شکل میں آئے تھے، انھیں مشہور زمانہ جناح گراؤنڈ بھی جانا تھا۔

جہاں 19 اپریل کو ان کا جلسہ ہو گا، عمران خان جناح گراؤنڈ پہنچے تو اعلان کیمطابق متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت نے ان کا استقبال کیا اور ان پر پھول برسائے، عمران خان کی اہلیہ ریحام خان نے بھی انھیں حسین آباد میں جوائن کر لیا تھا، ایم کیو ایم کی قیادت نے خان صاحب کو نائن زیرو میں آنے کی دعوت دی، جسے انھوں نے قبول نہیں کیا اور جناح گراؤنڈ چلے گئے۔

خان صاحب کو جناح گراؤنڈ چھوٹی لگی، لوگوں کو جلسہ گاہ سے نکلنے میں دشواری نظر آئی تو انھوں نے بھی اپنے انتخابی جلسے کو شاہراہ پاکستان منتقل کر دیا ہے۔ 2013ء کے الیکشن میں حلقہ این اے 246 کا جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کر دیا تھا۔ جب کہ تحریک انصاف نے اس حلقے سے اکتیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے اور متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار نبیل گبول ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔

نبیل گبول ایم کیو ایم چھوڑ چکے ہیں، قومی اسمبلی سے بھی مستعفی ہو چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ورکرز ٹھپے لگا کر بیلٹ بکس بھر رہے تھے جب کہ میں نے دیکھا کہ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹرز کی تعداد بارہ پندرہ افراد سے زیادہ نہیں تھی، بقول نبیل گبول انھوں نے متحدہ کی قیادت سے کہا کہ پولنگ بوتھ خالی پڑے ہیں، ووٹرز نہیں ہیں تو انھیں کہا گیا کہ ''آپ گھر جا کر سو جائیں، فکر نہ کریں آپ جیت جائیں گے۔''

اب سردار نبیل گبول عرصہ پانچ سال بعد اپنے آبائی علاقے لیاری میں پہنچ چکے ہیں جہاں ان کے چاہنے والوں نے ان کا استقبال کیا ہے، پھولوں کے ہاروں سے لدے پھندے نبیل گبول کہہ رہے تھے ''آصف زرداری ! لیاری سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی دہشت گرد ہیں، انھیں پارٹی سے فارغ کرو'' امید کامل ہے کہ دو ایک روز میں گبول صاحب اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر لیں گے۔

کراچی میں وہی فضا برقرار ہے، رینجرز اور پولیس کے چھاپے جاری ہیں، دہشت گردوں سے مقابلے ہو رہے ہیں اور وہ پسپا ہوتے ہوئے راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور مارے جانے والے دہشت گردوں کی لاشیں چھوڑ جاتے ہیں کافی حد تک دہشت گردوں کا صفایا ہو چکا ہے جو اکا دکا رہ گئے ہیں وہ وارداتیں کر جاتے ہیں، رینجرز نے شہر بھر کے رستے، گلیوں میں لگے لوہے کے بیریئرز ہٹوا دیے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو آمد و رفت میں خاصی سہولت مل گئی ہے مگر خوف کے سائے اب بھی شہر میں منڈلاتے محسوس ہوتے ہیں۔ خیر وہ دن نہیں رہے تو یہ دن بھی گزر جائیں گے۔ اپنا ایک شعر لکھتا چلوں:


محبت کے دیے بجھنے نہ پائیں
گزر ہی جائے گی یہ رات پیارے

خدا کرے اب کوئی 12 مئی اس شہر کراچی کی قسمت میں نہ لکھی ہو، وہ خونی 12 مئی جب رات میں ہی خون آلود دن کے انتظامات کر لیے گئے تھے اور سورج خون کی لالی لیے طلوع ہوا تھا۔ میرے گھر سے دو فرلانگ دور بلوچ کالونی پل (شارع فیصل) کے نیچے دس بارہ لاشیں پڑی تھیں۔ بڑی شاہراہوں کا ذکر ہی کیا چھوٹے چھوٹے محلوں کی سڑکیں بھی واٹر ٹینکر کھڑے کر کے بند کر دی گئی تھیں۔ بڑی سڑکیں ایک رات میں یوں کھودی گئیں کہ عقل حیران رہ گئی تھی۔

اس شہر نے بڑا خون بہایا ہے، بڑی قربانیاں دی ہیں، اس شہر میں اب بہت سے نئے قبرستان بن گئے ہیں کہ پرانے قبرستان مکمل بھر چکے ہیں یہ شہر شروع سے ہی حکومت مخالف شہر رہا ہے، اسے حزب اختلاف کا شہر کہا جاتا تھا، ذرا یاد کریں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابلے میں اس شہر نے کھل کر قائد اعظم کی بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا اور ہر گھر، ہر فلیٹ کے دروازے اور کھڑکی پر مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین نظر آتی تھی اس شہر کا سیاسی فیصلہ پورے ملک پر اثر انداز ہوتا تھا۔

آغوش مادر یہ شہر بہادروں، جی داروں کا شہر ہے، اتنے خون خرابے کے باوجود اس شہر کے رستے، گلیاں رواں دواں ہیں، اس شہر کے لوگ محاذ چھوڑ کر بھاگے نہیں!!

کل رات جماعت اسلامی کی ریلی تھی، متحدہ قومی موومنٹ نے بھی ریلی کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ مگر کسی نا خوشگوار واقعے سے بچنے کے پیش نظر متحدہ نے پانچ منٹ پہلے اپنی ریلی منسوخ کر دی، اچھا کیا ریلی منسوخ کرنیوالو! جیتے رہو۔

پورے پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی نظریں این اے 246 کے ضمنی انتخاب پر مرکوز ہوکر رہ گئی ہیں۔ اس انتخاب کا نتیجہ خواہ کچھ بھی نکلے مگر یہ نتیجہ بہت ''پر معنی'' ہو گا۔

بہت اچھا ہے کہ ضمنی الیکشن میں شریک خصوصاً تین جماعتیں جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ اور تحریک انصاف ہوش سے کام لے رہی ہیں، در اصل کراچی اس وقت ''اور عالم'' میں ہے، اچھا ہے کہ سیاسی جماعتیں ہوش میں رہیں جوش میں نہ آئیں، جوش کا وقت گزر چکا ہے۔ آیندہ دس روز شہر کراچی کڑی آزمائشوں سے گزرے گا۔ آج جماعت اسلامی کا جلسہ ہے اگلی اتوار 19 اپریل کو تحریک انصاف کا جلسہ ہو گا۔ اس بیچ متحدہ قومی موومنٹ کا جلسہ بھی ہو گا۔ پھر 23 اپریل کا دن انتخاب کا ہو گا۔ ''ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا''۔
Load Next Story