امینہ دائود مفتی عربوں کی دشمن کیوں ہوئی
کہاوت مشہور ہے کہ عورت محبت میں اپنی جان خوشی خوشی قربان کر دیتی ہے
WASHINGTON:
کہاوت مشہور ہے کہ عورت محبت میں اپنی جان خوشی خوشی قربان کر دیتی ہے اور جب انتقام پر اتر آتی ہے تو پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ایسا ہی کچھ عمان کی ایک دوشیزہ کے ساتھ پیش آیا۔
وہ اپنے محبوب کو دل و جان سے زیادہ چاہتی تھی۔ اس کی خوشی کے لیے اس نے اپنا وطن چھوڑا، اپنی خواہشات کو دفن کیا اور اپنوں کی دشمنی مول لی لیکن جب اسے پتہ چلا کہ وہ جس کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے، وہ کسی اورکی یاد میں آہیں بھرتا ہے تو اس کا دل ٹوٹ گیا اور پھر وہیں سے اس کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ جاسوسی کی دنیا کی بے تاج مہارانی بن کر سیکڑوں عرب عورتوں کو بیوہ بنانے کا خواب سجانے لگی۔
یہ داستان ہے عمان کے پہاڑی علاقے میں پلنے والی ایک دوشیزہ امینہ داؤد مفتی کی۔ امینہ کی پیدائش 1939ء میں چرکیس قبیلے میں ہوئی۔ یہ قبیلہ روس کے قفقاز علاقے سے آ کر یہاں آباد ہوا تھا۔ امینہ اپنے قبیلے کی چنچل اور شوخ لڑکی تھی۔ قبیلے کا ہر نوجوان اس کو حاصل کرنے کا خواب دیکھتا تھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ابھی اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ نامعلوم اسباب کی وجہ سے اس کے والدین اپنی اس چاند سی بیٹی کو لے کر اردن چلے گئے اور وہیں بود و باش اختیار کر لی۔ یہاں آ کر امینہ کی قابلیت پروان چڑھنے لگی۔
وہ سیاسی اور معاشرتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگی۔ حسن بے مثال کے ساتھ عملی قابلیت نے امینہ کو ہر دل کی دھڑکن بنا دیا۔ لیکن اس بات کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس کے دل کی دھڑکن کوئی اور ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن فلسطین کا ایک خوبرو نوجوان تھا۔ امینہ اس کی سنجیدگی، ذہانت اور گٹھیلے بدن سے بہت متاثر تھی۔ لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ جس نوجوان کو وہ اپنے خوابوں کا شہزادہ سمجھتی ہے، اس شہزادے کے دل میں کوئی اور رانی بسی ہوئی ہے۔
جب اسے اس کا پتہ چلا تو بہت صدمہ پہنچا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔اس نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور اس دوران اپنے محبوب کو پانے کی خواہش کو سینے سے لگائے رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے محبوب کے دل میں جگہ بنائے، لہٰذا بارہویں پاس کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ چلی گئی۔1957ء میں اس نے ویانا یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں اس کی ملاقات آسٹریا کی ایک طالبہ ''شاذہ'' سے ہوئی۔ وہ اپنے کالج کے دوستوں میں جولی کے نام سے مشہور تھی، امینہ کی اس سے دوستی ہو گئی۔امینہ ویانا میں کئی سال تک رہی۔
اس دوران اس نے خود کو تعلیم میں مصروف رکھا لیکن وہ اپنے فلسطینی دوست کو ایک پل کے لیے بھی نہیں بھلا پائی۔ وہ اس سے ملنے کے لیے اگست 1961ء میں واپس عمان آئی، لیکن یہاں آ کر اسے شدید دلی جھٹکا لگا۔ جس فلسطینی نوجوان سے ملنے کے لیے وہ لمبا سفر کر کے یہاں آئی تھی اس کے بارے میں پتہ چلا کہ اس نے ایک بھوری آنکھوں والی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ یہ خبر سن کر وہ اندر سے ٹوٹ گئی۔ وہ لاکھ جتن کے باوجود اس نوجوان کو دل سے نکال نہیں پا رہی تھی، لہٰذا خود کو مصروف رکھنے کے لیے وہ عمان سے پھر آسٹریا چلی گئی اور وہاں بچوں کا ایک پلے ورکشاپ جوائن کر لیا۔
اس ورکشاپ میں اس کی ملاقات ایک یہودی لڑکی '' سارہ بیراد'' سے ہوئی اور یہ دونوں ایک ساتھ رہنے لگیں۔ امینہ ایک دن سارہ کے گھر جاتی ہے۔ وہاں سارہ سے سات سال بڑا بھائی موشیہ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے۔موشیہ ایک خوبرو اور نرم گفتار اور فوج میں کپتان رینک کا پائلٹ تھا۔ دھیرے دھیرے دونوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا ہے اور پھر یہ ملاقات محبت میں بدل جاتی ہے۔ پانچ برس تک محبت پروان چڑھتی رہی۔
اس دوران موشیہ نے میڈیکل سائنس آف سائیکلو جی میںپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے میں امینہ کی بہت مدد کی۔ وہ اس ڈگری کو لے کر ستمبر 1966ء میں واپس اردن آ جاتی ہے۔اسی دوران اس نے مقامی اخبار میں ایک اشتہار دیکھا۔ اس میں جسمانی طور پر معذور افراد کے ایک اسپتال کو کرائے پر دینے کی بات تھی۔ یہ اسپتال وزارت صحت کے ماتحت تھا۔ وہ اگلے دن وزارت میں جا کر اس اسپتال کو کرائے پر لے لیتی ہے۔ لیکن ابھی کچھ ماہ ہی گزر تے ہیں کہ اسپتال میں مالی بد عنوانی منکشف ہونے کی وجہ سے اس معاہدے کو رد کر دیا جاتا ہے۔ وزارت کے اس رویے سے امینہ کو بہت تکلیف پہنچتی ہے۔
ایک طرف اپنے پہلے دوست سے ملی بے وفائی، اوپر سے وزارت کی طرف سے مالی بد عنوانی کے الزام نے عربوں کے تعلق سے اس کے دل میں نفرت بھر دی۔ وہ اسی حالت میں واپس جون 1967ء میں آسٹریا چلی جاتی ہے اور اپنے یہودی دوست ماشیہ سے شادی کر لیتی ہے اور اپنا نام بدل کر' آنی موشیہ بیراد 'رکھ لیتی ہے۔ وہ اپنے یہودی شوہرکے ساتھ خاموشی سے ایک فلیٹ میں رہنے لگتی ہے لیکن یہ خوف اسے مستقل ستا رہا تھا کہ یہودی سے شادی کرنے کی وجہ سے عرب اسے قتل کر دیں گے۔
لہٰذا وہ ہر ایک نظروں سے بچ کرگمنامی کی زندگی گزارنے لگتی ہے۔1972ء میں گرمی کی ایک صبح آسٹریا کے ایک اخبار میں ایک اشتہار چھپا۔ یہ اشتہار گویا کہ آنی (امینہ) کے لیے سونے کا سجا سجایا طبق تھا۔ اسرائیل کو اپنی ڈیفنس آرمی میں ایک یوروپین یہودی رضاکارکی ضرورت تھی۔ آنی نے اپنے شوہر کو راضی کیا اور جنوری 1972 ء میں بذریعہ طیارہ اسرائیل کے لیے روانہ ہو گئی۔ اسرائیل میں اس کا زبردست استقبال ہوا۔ ان دونوں میاں بیوی کو ریشون (Rishon Lezion) گیسٹ ہاؤس کے عالیشان کمرے میں ٹھہرایا گیا۔ وہیں اس کی ملاقات اسرائیل کے اعلیٰ عہدیداروں سے کرائی گئی۔ ان عہدیداروں نے اس سے اس کے وطن، خاندان، شادی اور سیاسی دلچسپیوں کے تعلق سے بہت سے سوالات کیے۔
اس کے بعد اسے دفاعی محکمے میں شامل کر لیا گیا۔ اسرائیل سے جڑنے کے بعد آنی بہت خوش تھی لیکن یہ خوشی بہت دنوں تک قائم نہیں رہ سکی۔ کیونکہ اس کے شوہر موشیہ بیراد جس طیارے کو لے کر شام پر حملہ کرنے کے لیے پرواز کر رہا تھا، اس کو شام کے میزائیل نے نشانے پر لے لیا۔ طیارہ فضا میں ہی پھٹ گیا۔ اس وقت پائلٹ طیارے کے اندر ہی تھا۔ اسرائیل نے پائلٹ کی جلی ہوئی لاش حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن لاش کا کوئی سراغ نہیں ملا۔یہ خبر آنی پر بجلی بن کر گری اور ہسٹیریا کی مریضہ کی طرح چیخنے لگی۔ حادثے کے ڈیڑھ ماہ بعد اس نے دعویٰ کیا کہ موشیہ مرا نہیں ہے کیونکہ وہ ایک ماہر پائلٹ ہونے کی وجہ سے اپنی جان بچانے کے ہنر سے واقف تھا، لیکن اس کے دعوے کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
اس حادثے کے بعد آنی میں عربوں کے لیے نفرت کی آگ مزید بھڑکنے لگی۔ وہ اپنے شوہر کا انتقام عربوں سے لینا چاہتی تھی۔ لیکن یہ سب کرنے سے پہلے وہ ویانا کے اس فلیٹ میں گئی جہاں اس کے شوہر کی بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ تھیں۔ وہ رات میں وہیں رکی، صبح سویرے تین اسرائیلی افسروں نے اسے بیدار کیا۔ دراصل اس کے سسرال والے چاہتے تھے کہ موشیہ کا معاوضہ جو نصف ملین ڈالر اور گیسٹ ہاؤس کا وہی فلیٹ جس میں وہ دونوں رہتے تھے، لے کر خاموشی سے زندگی گزار لی جائے۔ اسی سلسلے میں وہ تینوں اسرائیلی آفیسر اس سے بات چیت کرنے آئے تھے لیکن آنی کے دل و دماغ میں کچھ اور ہی لہر تھی۔
وہ اپنے شوہر کا انتقام لینا چاہتی تھی چاہے اس کے لیے اسے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔اس نے معاوضے کے بجائے خود کو موساد کا حصہ بنا کر جاسوسی کی ٹریننگ اور اس کی باریکیوں کو سیکھنا پسند کیا۔ وزارت دفاع سے منسلک ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ مشکل نہیں ہوئی اور صرف 34 دنوں میں اس نے جاسوسی کے تمام طریقے سیکھ لیے۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد امینہ 'وینا 'سے بیروت آئی ، تا کہ یہاں سے اپنی انتقامی کارروائیاں جاری رکھ سکے۔
وہ انتقام میں کیا چاہتی تھی اس کا تذکرہ اس نے اپنی ڈائری میں کیا ہے جو اس طرح تھا کہ ''میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گی جب تکہ خود سے خون کا دریا نہ بہادوں جس میں کٹی ، پھٹی، چیتھڑی لاشیں تیر رہی ہوں۔ میں اپنے شوہر کی یاد میں بہائے گئے آنسوؤں کے بدلے 100 عرب عورتوں کو بیوہ بنا کر اپنے شوہروں کے لیے آہ و بکا کرتی ہوئی دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں ہزاروں ماؤں کی گود خالی اور ہزاروں عرب نوجوانوں کو کٹے ہوئے اعضاء کے ساتھ دیکھنے کی تمنا رکھتی ہوں''۔
اس نے وہیں سے فلسطین کے خفیہ رازوں کو اسرائیل بھیجنا شروع کیا۔ وہ فلسطین کی آزادی کے لیے لڑنیوالی تنظیموں، فدائی منصوبوں اور اہم شخصیتوں کی نقل و حرکت کو تفصیل کے ساتھ اسرائیل بھیجتی رہی۔ لیکن ستمبر 1975ء میں فلسطینی حکومت نے اسے ملک کا راز چرانے کے الزام میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔
وہ پانچ برس تک مسلسل جیل میں رہی اور پھر اسرائیل نے دو فلسطینی قیدیوں کے بدلے آنی کو آزاد کرا لیا۔ آزادی کے بعد آنی اسرائیل آ گئی اور وہاں سے اس نے اردن میں موجود اپنے رشتے داروں کو فون کیا، لیکن اس کے رشتے داروں نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ وہ ان کی نظر میں مر چکی ہے۔
اس کے بعد آنی کے بارے میں کوئی خبر نہیں ملی کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے۔ البتہ 1984ء کے اوائل میں اسرائیلی آرمی کا ترجمان رسالہ'' بمحانیہ'' (Bmhanih) میں ایک خبر چھپی تھی کہ وزارت دفاع نے 'آنی موشیہ بیراد 'کی خدمات کو دیکھتے ہوئے مستقل طور پر وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہرکیف امینہ یعنی آنی کی کہانی ناکام محبت سے شروع ہو کر انتقام پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس انتقام کا نشانہ عرب قوم بنتی ہے۔