سدا اونچا رہے یارب یہ پاکستان کا جھنڈا
ہندوستان نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے لگ بھگ 7 لاکھ سے زائد فوج کشمیر میں مسلط کر رکھی ہے۔ تلاشی اور شناخت کے بہانے نوجوانوں اور بوڑھوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہزاروں نوجوان آج بھی لاپتہ ہیں جبکہ گمنام قبروں کے ملنے کی بھی ایک لمبی تفصیل ہے اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات کا رونما ہونا بھی ایک معمول کی بات ہے۔
اس وقت جب دنیا بھر قومیں بیدار ہورہی ہیں، وہی ممالک کے اندرونی اور بیرونی معاملات ہر انسان کے علم میں آرہے ہیں۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اب تو کسی ایک انسان کو قید میں رکھنا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے لیکن اِس دور میں بھی بھارت نے لاکھوں کشمیریوں پر اپنے مظالم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور ان کی آواز کو مسلسل دبانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن حیرت دیکھیے کہ اِس معاملے پر کسی انسانی حقوق کی تنظیم کو ''اُف'' تک کہنے کی جسارت نہیں ہوتی۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ جیسے میں کوئی خیال باتیں کررہا ہوں تو ایسا ہرگز نہیں کہ حالیہ واقعہ بھی آپ کے علم لے آتا ہوں۔ گذشتہ دنوں بھارت کی قابض فوج نے سری نگر کے نواحی گائوں ترال میں جنگل میں پکنک کے لئے جانے والے تین نوجوانوں میں سے ایک نوجوان خالد مظفر وانی کو تشدد کرکے شہید کردیا۔ جس کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے میں شرکت کی۔ جنازہ کے بعد شدید مظاہرے کیے گئے اور مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم ہوئے۔ خالد مظفر کے والد مظفروانی کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کے جسم پر گولی کا ایک نشان بھی نہیں ہے اور اُسے اذیتیں دے کر قتل کیا گیا ہے۔ خالد کے سر اور ناک کی ہڈیاں مسمار کی گئیں ہِیں اور ان کی کلائیوں پر رسی کے نشان ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ لاش کو طویل مسافت تک گھسیٹا گیا ہے۔ اس ہلاکت کے خلاف ترال اور ملحقہ قصبوں میں زبردست غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیوں، میٹھے پانی کے چشموں اور گھنے جنگلات کے لیے مشہور ترال قصبہ کے تمام بیاسی دیہات میں لوگوں کو شکایت ہے کہ انہیں فوج اور پولیس حراساں کرتی ہے۔ یہاں کے نوجوان اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے شدید ذہنی اذیت کا شکار رہتے ہیں۔
یہ ظلم و ستم کی داستان تو اپنی جگہ، لیکن سلام تو کمشیریوں کی پاکستان سے محبت کو پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تمام تر تشدد، ظلم و زیادتی کے باوجود جب سید علی گیلانی طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد گزشتہ روز سری نگر میں اپنے آبائی علاقے حیدر پورہ پہنچے تو ہزاروں افراد اُن کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ استقبال میں موجود نوجوان سری نگر میں نوجوان کی شہادت پر خاصے مشتعل تھے۔ کشمیری رہنماء مسرت عالم جو کہ طویل عرصہ گرفتار رہنے کے بعد رہا ہوئے انہوں نے بھی بے باک نعرے بازی کی۔ جبکہ وہاں موجود نوجوانوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کر بھارت سے آزادی حاصل کرنے کا ایک واضح پیغام دیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف قابض انتظامیہ نے ریلی میں پاکستانی پرچم لہرانے پر حریت رہنما سید علی گیلانی کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کرلیا۔ اس موقع پر حریت رہنما سید علی گیلانی نے کہا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام بھارت سے آزادی حاصل کرلیں گے۔
سری نگر میں پاکستان کا پرچم لہرانے پر بھارتی فوج تلملا اُٹھی اور بھارتی میڈیا بھی سیخ پا ہوگیا اور پاکستان کا جھنڈہ لہرانے والوں کو باغی قرار دے دیا۔ بھارتی میڈیا نے واویلا مچایا کہ ریلی کشمیر میں نکالی گئی ہے لیکن پاکستان کے حق میں نعرے لگ رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اس عمل کو حکومتی کمزوری قرار دیتے ہوئے فوری طور پر مسرت عالم کو گرفتار کرنے کا مطالبہ بھی کردیا۔
ReArrestMasarat کے پیش ٹیگ کے تحت ہندوستانی میڈیا اور عوام حکومت کے خلاف خوب برستے رہے۔ لیکن اگر سوچا جائے تو یہ کیسا ظلم ہے۔ میڈیا کا اصل کام تو غیر جانبداری سے حالات و واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ مگر بھارتی میڈیا تمام تر بھارتی ناانصافی اور ظلم کو بربریت کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں کو باغی قرار دے رہا ہے۔
لیکن یہ بات اب سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ جتنا جلدی ہو بھارتی حکومت کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دے اور اپنے مظالم کو بند کرے کیوں کہ جتنا ظلم بڑھے گا ہندوستان سے نفرت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ کشمیر بنے گا پاکستان اور جیوے جیوے پاکستان کے نعروں کی گونج ہندوستانی ایوانوں میں بھی گونجے گی اور یہ آواز اب پوری دنیا کو بھی سنائی دے گی۔
اقوام عالم اور سول سوسائٹی کے افراد کو ہندوستان کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ کشمیر اور کشمیریوں پر اپنا جبر و تشدد فوری طور پر روکے۔ کیونکہ کل جو جذبہ کشمیر میں دیکھنے کو ملا اِس جذبہ آزادی کو دیکھنے کے بعد بھارتی فوج، اسکی پوری حکومتی مشینری شکست دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔
آج سرینگر میں مقبوضہ کشمیر کے باسیوں نے بھارتی فوج کی موجودگی میں پاکستانی علم لہرا کر ثابت کردیا کہ وہ پاکستانی ہیں۔ ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں جب وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جائیں گے۔
[poll id="358"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔