اسمبلی کی توقیر ملک کی توقیر
توقیر فردکی ہو،ملت کی ہو،یا اقوام کی سب ان کی اجتماعی جدوجہد، قربانیوں،جہد مسلسل،علم و ہنر،ثقافت،تاریخ کی عکاس ہوتی ہے
توقیر فردکی ہو، ملت کی ہو، یا اقوام کی سب ان کی اجتماعی جدوجہد، قربانیوں، جہد مسلسل، علم و ہنر، ثقافت، تاریخ کی عکاس ہوتی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوا جو غیرمنقسم ہندوستان کی مسلم ریاستوں میں عرب چاؤش، درباری یا چھوٹی ملازمتوں پر مامور ہوتے تھے، پاکستان کو 1974 کے بعدیہ جزیرے آنکھیں دکھانے لگے ایسی چھوٹی چھوٹی ریاستیں جو کراچی کا چوتھائی بھی نہیں دھمکیاں دے رہے ہیں، بہت عرصہ نہ ہوا 1980سے قبل دبئی ایک چھوٹا کاروباری مرکز تھا اور 1948 سے 1962 تک بھارت کی خارجہ پالیسی پر پنڈت جواہر لعل نہروکا خاصا اثر تھا، ان کے وزیرخارجہ کرشنا مینن تھے جو عرب ممالک میں کافی سرگرم تھے۔
گو کہ وہ روسی موقف کے عالمی طور پر حامی نہ تھے مگر آزاد خارجہ پالیسی اور افروایشیائی غیر جانبدارانہ پالیسی کے شور شرابے میں ان کا پروپیگنڈا زورشور سے جاری تھا، اسی لیے دبئی کی آبادی میں بھارتی رہائشیوں کی شرح میں اضافہ ہوا جو آج 53 فی صد ہے بصرہ اور ممبئی کو کچھ اس طرح آپس میں تجارتی پٹی کے طور پر بحری گزر گاہ کے ذریعے ملایا گیا کہ مستقبل میں قریب تر رہیں حالانکہ عرب امارات کی پالیسی مغرب نواز تھی اور ہمارے یہاں عرب دنیا کے لیے کوئی پالیسی وضع نہ کی گئی تھی، جیسا کہ آج بھی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سعودی عرب کی جو پالیسی ہوگی وہی پالیسی پاکستان کی ہوگی۔
پاکستان نے پہلی مرتبہ عرب دنیا کے لیے جو پالیسی وضع کی یہ وہی پالیسی تھی جوکہ پاکستان اسمبلی کے فرش سے وضع کی جاتی تھی، عمران خان نے کافی زور شور سے غیر جانبدار پالیسی پر زور دیا تھا بقول ان کے ابھی ایک جنگ جاری ہے اور ہم دوسری جنگ میں جانے کی تیاری کررہے ہیں ۔
اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن کی بھی غیر جانبدار پالیسی تھی ابھی متفقہ قرارداد اسمبلی کے فرش سے منظور ہوئی تھی مگر اس قرارداد 13 اپریل کو وزیراعظم نے متفقہ قرارداد کے برعکس دوسری تقریر فرما دی اور 15 اپریل کو پرویز رشید نے قریبی تعلقات پر زور دیتے ہوئے شانہ بشانہ تیار رہنے پر زور دے دیا اور جمہوریہ یمن کی معزول حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ۔
ظاہر ہے ایسی جمہوری حکومت نے اسمبلی کی توقیرکو چیلنج کردیا اب سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کہاں ہیں جو اس وقت رو پڑے تھے جب فوج کے کردارکی جمہوری حکومت میں اسمبلی نے توثیق کردی تھی اور اب اس موقعے پر رضا ربانی اپنے موقف پر انکار یا اصرار کریں گے یا نہیں یا وہ بھی پرویز رشید کی تاویل کو سراہتے ہوئے کہیں گے کہ سلامتی کونسل نے حوثی ملیشیا کو اسلحے کی ترسیل بند کردی تو معاملہ ختم ہوجائے گا۔
سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ہم تو ویسے ہی ڈسے ہوئے ہیں، کشمیر پر سلامتی کونسل کی قرارداد کیا کہہ رہی ہے اس پر کس قدر عمل ہوا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی کی واحد وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے جو برطانیہ نے جاتے وقت چھوڑا تھا اور اب اس میں اس قدر طوالت ہوگئی کہ ایک طرف اس کو اٹوٹ انگ کہا جارہا ہے تو دوسری طرف وہ شہ رگ ہے ایک نسل جوان ہوکر بڑھاپے کی طرف چلی گئی اور جنگ میں صرف شدت ہی نہیں بلکہ ایٹمی ہتھیار کی لرزہ خیز تباہی کے امکانات نسلوں پر موجود ہیں امن کے جو بھی نغمے گائے جاتے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں اور سرحدوں کے دونوں جانب کشیدگی میں اضافہ کرنے والی قوتیں نعرہ زن ہیں۔ دوسری جانب ملک میں بد امنی پھیلانے والی قوتیں کشیدگی میں اضافے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب پاک فوج نے ضرب عضب کا عزم کیا، ویسے ہی بھارتی توپوں نے بلاوجہ سیالکوٹ سیکٹر میں مارٹر گولے سے لوگوں کو مارنا شروع کردیا تاکہ فوج کی توجہ ہٹائی جائے۔ آخر کار رفتہ رفتہ سرحدوں پر کشیدگی میں کمی ہوئی اور بے موقع کی گولہ باری ختم ہوئی پاکستان جو ترکی کا ایک قریب ترین حلیف ہے اس پر سعودی عرب نے دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ ترکی نے جو موقف اختیار کیا اس پر تنقید کی کیوں کہ ترکی جو براہ راست پاکستان کا پڑوسی نہیں بلکہ ایران کا پڑوسی ہے۔
اس نے اعتدال پسندانہ موقف اختیارکیا کیونکہ ترکی کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں اور ترکی کی قیادت نے ان مضمرات کو بخوبی سمجھا ہے جو مستقبل میں رونما ہوسکتے ہیں۔ ایران اور ترکی کی وزارت خارجہ میں کوئی تضاد نہ تھا، جب کہ پاکستان اور ترکی کے معاشی مفادات اور تعلقات میں خاصی یکسانیت پائی جاتی ہے مگر یہاں پر ترکی اور پاکستان کے موقف جدا جدا ہیں جب کہ پاکستان کے حکمرانوں کے مفادات بالکل قریب ہیں ،پاکستان کے حکمران متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے معاشی طور پر بندھے ہوئے ہیں خواہ عوام کا اس سے تعلق ہو یا نہ ہو مگر خواص کا براہ راست تعلق ہے جب کہ پاکستان کی طویل سرحدیں بلوچستان سے ایران کو ملاتی ہیں۔
صدر ایوب خان کے زمانے میں او سی ڈی ہائی کافی فعال تھا جہاں سے مغربی دنیا سے زمینی آمدورفت تھی لوگ جرمنی تک اسی راستے چلے جاتے تھے ابھی بھی کراچی اور کوئٹہ سے زائرین مشہد مقدس اور پھر عراق اسی راستے سے زیارت کے لیے جاتے ہیں اور اس راستے پر آئے دن سانحات ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا یہ سرحدی علاقہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ضلع چاغی براستہ دالبندین ایرانی سرحد تفتان کے بعد شروع ہوتی ہے۔
اس راستے پر اکثر خودکش حملہ آوروں نے حملے کیے اور زائرین کا جانی نقصان ہوا ایک قسم کی فرقہ وارانہ کشمکش یہاں موجود تھی جس کو روکنے کے لیے حکومت پاکستان نے سخت اقدامات اٹھائے بالآخر صورت حال قابو میں آگئی اب اگر سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے اور الفاظ کی تکرار شروع ہوتی ہے تو دونوں ممالک کے مابین الفاظ کی کشیدگی بڑھتی ہے تو پھر یہ پاکستان کے لیے اچھا شگون نہ ہوگا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے تھے کہ ایسے موقعے پر آگ پر تیل نہیں پانی ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلم دنیا خلفشار سے دور رہے سعودی عرب نے حالیہ دنوں میں مسجد نبویؐ میں خلفائے راشدین اور شیعہ ائمہ کے اسمائے گرامی لکھ رکھے ہیں تاکہ ملت کا شیرازہ نہ بکھرے اور مسلم امہ متحد رہے اور خود سعودی قلمرو میں کسی قسم کا مناقشہ پیدا نہ ہو۔
پاکستان کی مذہبی لیڈر شپ حکومتی پالیسی کے کھلم کھلا مخالفت پر آمادہ نہیں اور خلفشار پر آمادہ نہیں مگر لیڈر شپ کا کب کیا رنگ ہو اور حالات کے کیا تقاضے ہوتے ہیں اور لیڈر شپ عوام کو کس طرف دھکیل دیتی ہے اس کے علاوہ فوجی لیڈر شپ عوام کو اسمبلی کے فلور پر متفقہ قرارداد اگر یاد دلاتی ہو تو ایسے میں صورت حال کیا ہوگی کیوں کہ عوامی رائے عامہ کا جو مینڈیٹ ہے اس کی تشریح تو وہ نہ ہوگی جس کی تشریح پرویز رشید فرمارہے تھے اسمبلی کی قرارداد اور وزرا کی تشریحات بالکل جداگانہ ہیں پھر بائیں بازو کی جماعتیں نیشنل پارٹی، اے این پی اور مزدور تنظیمیں، ورکرز پارٹی اور دیگر چھوٹے بڑے گروپ کون سی لائن لیتے ہیں۔
ایسی صورت میں متضاد آراء نظر آئیںگی جو ملک کے لیے بالکل بہتر نہ ہوںگی، خصوصاً ایسے موقعے پر جب کہ مغربی ممالک نے اس جنگ کو مسالک کی جنگ قرار دیا ہے، خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار ہے اور کچھ اکا دکا واقعات ملک کو مذہبی تفریق کی طرف نہیں لے جاسکتے کیونکہ قیام پاکستان میں ملک کے تمام مسالک مشترکہ جدوجہد میں شریک تھے اور دس پندرہ برس کی عصبیت نے دلوں میں نفاق پیدا نہ کیا بلکہ دہشت گردی کے واقعات میں ایک فرقے کے لوگوں نے دوسرے فرقے کے لوگوں کی میتیں اٹھائیں، مرہم پٹی کی فوری امداد کو پہنچے، خون دیے مگر حکومت کا بھی کچھ فرض ہے کہ وہ ایسے مواقعے نہ پیدا کرے جس کو دشمن استعمال کرسکے۔
جمہوری حکومتوں کے بھی کچھ فرائض اور ضوابط ہیں یہ نہیں کہ قراردادیں پاس کرلیں جس کا کوئی مقصد نہیں۔ ایسا کرنے سے ابہام پیدا ہوتا ہے ، وزارت خارجہ کا قلم دان ایک نہایت حساس قلم دان ہے خاص طور سے ایسے موقعے پر جب ملک حساس ترین لمحات سے گزر رہا ہو ، ایسی صورت میں جب اسمبلی کی قراردادیں بے معنی ہوں تو پھر جمہوریت کے معنی بے توقیر ہوجاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک کے لوگوں کے بڑے اثاثے چھوٹے ممالک میں رکھے ہوں تو وہ ممالک اپنی زبان کو بے لگام کردیتے ہیں اگر پارلیمنٹ کے اصول ہوتے اور ہمارے حکمرانوں کے کردار تو ہم اس قدر بے توقیر کیوں کر ہوتے؟