تمام مسائل کی جڑ

کسی قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اس کے افراد کی قابلیت، صلاحیت، خدمت اور اخلاقی اقدار سے وابستہ ہوتا ہے۔


نجمہ عالم April 17, 2015
[email protected]

KARACHI: ایک زمانہ تھا کہ نقل کرنا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔ والدین اپنے بچوں کو نصیحت کرتے تھے کہ نقل کر کے پاس ہونے سے بہتر ہے کہ ایمانداری سے فیل ہو جاؤ تا کہ تمہارا ضمیر زندہ رہے، جس دن ضمیر سو گیا اسی دن دنیا کی ہر برائی کا دروازہ تم پر کھل جائے گا۔ مگر آج والدین بچوں کی اخلاقی تربیت کی بجائے خود رشوت دے کر، سفارش کرا کے اور اپنے تعلقات، اثر و رسوخ کے بل بوتے پر اپنے بچوں کو نقل کروا کر پاس کرواتے ہیں بلکہ بچے صرف کمرہ امتحان میں تشریف لانے کی زحمت گوارہ کرتے ہیں باقی کام ان کے والدین کا کالا دھن خود بخود کر دیتا ہے۔

کسی قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اس کے افراد کی قابلیت، صلاحیت، خدمت اور اخلاقی اقدار سے وابستہ ہوتا ہے۔ قوموں کا عروج و زوال ایک قدرتی عمل ہے۔ مگر وہ قومیں جن کے افراد کے ضمیر مردہ ہوجائیں، جو برائی کو برائی کے بجائے اپنی ذہانت اور صفت سمجھنے لگیں وہ پھر تنزلی کے بعد عروج کی طرف آنے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاتی ہیں اور پھر یوں ہوتا ہے کہ ''ان کی داستان تک نہیں رہتی داستانوں میں'' کی نوبت آ جاتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں سیاست، حکومت سے لے کر محنت و مزدوری تک ہر جگہ بدعنوانی کی نہ صرف نشاندہی کی جا رہی ہے بلکہ ہر شخص بوکھلایا ہوا ہے ہر زبان پر سیاستدانوں، حکمرانوں، وزرا، اساتذہ حتیٰ کہ قلمکاروں تک کی بدعنوانی کے چرچے عام ہیں، ایسے میں کچھ قلمکار ہی معاشرتی خامیوں کی بڑی گہرائی و جانفشانی سے نشاندہی اور وضاحت بھی کر رہے ہیں، مختلف اداروں کی کارکردگی، خامیاں منظر عام پر لا رہے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ سب کچھ غلط ہونے کے باوجود ابھی کچھ لوگوں کا ضمیر زندہ ہے تو وہ زوال پذیر قوم کو شاید ایک بار پھر ترقی کی سمت رخ موڑنے پر آمادہ کر دیں۔

ہر قوم کی بنیاد اس کا نظام تعلیم ہے جس میں سر فہرست طلبا کو محب وطن بنانا، محنت کی عظمت، ہر کام کی قدر و قیمت ان کے دل میں پیدا کرنا، ایمانداری، انسانی مساوات جیسے درس شامل ہونا ازحد ضروری ہیں۔ مگر جس ملک کا نظام تعلیم طبقاتی خلیج پیدا کر رہا ہو، اپنی اقدار، اپنے وطن، اپنی قومی زبان و یکجہتی سے ناآشنا کر رہا ہو وہاں کی گویا بنیاد ہی ٹیڑھی رکھی جا رہی ہے۔ آج کل میٹرک کے امتحانات جاری ہیں اور روز نقل کرنے کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہی ہیں، امتحانی مراکز کا حال یہ ہے کہ نہ وہاں پنکھے کام کر رہے ہیں نہ صفائی کا مناسب انتظام ہے.

طالبات کے ایک مرکز پر پہلے پرچے سے لے کر تیسرے دن تک نہ جانے کمرہ امتحان میں کب سے مری ہوئی بلی پڑی تھی جس سے تعفن اٹھ رہا تھا، طالبات نے احتجاج کیا تو ممتحن نے فرمایا کہ اگر پرچہ دینا ہے تو دو، ورنہ باہر چلی جاؤ۔ دل پہ جبر کر کے پرچہ حل کیا بالآخر تیسرے دن وہ سڑی ہوئی لاش اٹھائی گئی یہ تو ہوئی انتظامی صورتحال۔ میٹرک کا امتحان دینے والی ایک طالبہ نے بتایا کہ ہم نے دن رات ایک کر کے امتحان کی مکمل تیاری کی لیکن کمرہ امتحان میں اول دن سے آج تک اکثریت نقل کرنے میں مصروف رہی اور نگران سے لے کر چپراسی، ملزمہ سب نے طالبات سے پیشگی رقم لی ہوئی ہے اور ان کو نقل کا مواد لا لا کر دیتے رہے بلکہ کچھ طالبات نے ممتحن کی اجازت سے موبائل فون کے ذریعے پورے پورے جواب حاصل کر کے لکھے۔

اس بچی کا کہنا تھا کہ ہم لاکھ محنت کریں مگر ہماری محنت دھری رہ جائے گی لیکن نقل کرنے والے اعلیٰ گریڈ میں پاس ہوں گے۔ یہ سن کر میں نے اپنے تدریسی تجربے کی بنا پر کہا کہ بیٹا یہ تو پرچہ چیک کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ حرف بہ حرف کتاب کا لکھے ہوئے کو اہمیت دیتے ہیں یا اپنے الفاظ میں سوال کے عین مطابق جواب دینے کو۔ میرا تجربہ ہے کہ جن طلبا نے نقل کی ہوتی ہے ان کے پرچے پڑھتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے نقل کی حتیٰ کہ ان سب کی غلطیاں بھی ایک جیسی ہوتی ہیں اساتذہ لمبا چوڑا چھاپنے کی بجائے اگر درست جواب کی اہمیت کو مدنظر رکھیں تو نقل کا نقصان خود نقل کرنے والے ہی کو ہو گا۔

مگر کیا کیا جائے کہ ہمارا نظام تعلیم ہی اس قدر بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اس میں کارکردگی، محنت اور ذہنی صلاحیت کی جگہ ''رٹا'' کو اہمیت دی جاتی ہے۔ خود اساتذہ کی معلومات نصاب سے آگے نہیں ہوتیں وہ بھی لکیر کے فقیر کی طرح محض نصاب رٹانے میں مصروف ہیں (میرے مشاہدے اور تجربے میں اتنے واقعات ہیں کہ اگر لکھوں تو کالم کی بجائے پورا تھیسس ہو جائے) اس ساری برائی کی جڑ میرے خیال میں زمیندارانہ، جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام ہے، کیونکہ اگرچہ شہروں میں شاید اس کے اثرات کم ہوں (مگر ہیں شہروں میں بھی) مگر دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں تو سارا نظام تعلیم ہی نہیں بلکہ پورا نظام حیات ہی ان کے اشاروں اور اثرات کے تابع ہے۔

ہمارے وزیر اعلیٰ سندھ نے تعلیمی شعبے میں بدعنوانیوں کا پتہ چلانے کے لیے کچھ عرصہ قبل جو کمیشن تشکیل دیا تھا اس کی رپورٹ سے یہ صورتحال سامنے آئی ہے کہ کم و بیش تیرہ چودہ ہزار اسامیاں شعبہ تعلیم میں خود ان ہی کے گزشتہ دور حکومت میں سات آٹھ سے لے کر دس لاکھ تک میں فروخت کی گئیں، ذرا سوچیے کہ دس لاکھ میں ایک استاد کی اسامی خریدنے کا مطلب کیا یہ نہیں کہ وہ ایک سال میں کم ازکم 20-25 لاکھ ضرور کمائیں گے۔ ان اسامیوں کی فروخت سے قومی خزانے کا جو نقصان ہوا وہ الگ اور نقل کے دروازے الگ وا ہوئے۔

ظاہر ہے کہ اساتذہ کا مشاہرہ اور مراعات اتنی تو نہیں ہوتیں کہ انھیں دس لاکھ دے کر حاصل کیا جائے اصل مقصد تو لگائی گئی رقم سے دگنی حاصل کر کے نقل کرا کر نا اہل، نالائق طلبا کو پاس کرا کے معاشرے کو تباہی سے ہمکنار کرنا ہے، سوچیے جس کو کچھ آتا نہیں، جس نے کبھی کتاب کھولی نہ ہو، کچھ پڑھا ہو نہ سمجھا ہو وہ اعلیٰ ڈگری خرید کر کسی ادارے میں میرٹ کی بنیاد پر اچھی نوکری حاصل کر لے گا مگر وہ اس ادارے کی ترقی کے بجائے تنزلی کا سبب ہی بنے گا (پی آئی اے اس کی واضح مثال ہے)۔

ہاں تو میں اس افسوسناک صورتحال کا ذمے دار جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور سردارانہ نظام کو قرار دے رہی تھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھلا اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور؟ صورتحال یہ ہے کہ ہر ضلع ہر علاقے میں تعلیم کے شعبے سے متعلق افسران ہی اس کاروبار میں ملوث ہیں اور ہر علاقے کے تمام ادارے اس علاقے کے وڈیرے، جاگیردار یا سردار کی ذاتی ملکیت سمجھے جاتے ہیں جہاں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی ہل نہیں سکتا لہٰذا وہ اپنے ماتحت کام کرنے والے غریبوں کو تعلیم حاصل کرنے ہی نہیں دینا چاہتے۔

اگرچہ اپنا اثر و رسوخ دکھانے کے لیے اسکول قائم کر بھی دیں تو وہاں اپنے رشتے دار یا حکم کے بندوں کو بطور استاد لگوا دیںگے جو بچوں کو پڑھانے کے بجائے وڈیرہ سائیں کی ذاتی خدمت کے عوض گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں تو قوم کے نونہال کیا خاک تعلیم حاصل کریں گے، یہ ضرور ہو گا کہ وہ ہر سال اگلی جماعت میں بڑھتے رہیں گے اور پھر بورڈ کے امتحان میں نقل کر کے معاشرے کا ناسور بن جائیں گے ان تمام مسائل میں میرے نزدیک ملک کا صرف ایک مسئلہ ہے.

جس کی جڑیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ایسا درخت ہے جس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہر شاخ کی مزید ہزاروں شاخیں، ہر شاخ کے آخر میں ایک پنجہ لگا ہوا ہے جس میں عوام اور تمام اداروں کی گردنیں جکڑی ہوئی ہیں، اگر کبھی حکمرانوں کو کسی دباؤ کے باعث عوام کا کچھ خیال آ جائے تو وہ ایک دو شاخ کو کاٹ دیتے ہیں مگر باقی پنجوں کی گرفت عوام کی گردنوں پر جوں کی توں رہتی ہیں۔ ہر ادارہ چاہے وہ قانون ساز ہو، قانون نافذ کرنے والا ہو، قانون پر عملدرآمد کرانے والا ہو یا ملکی معیشت کو بہتر کرنے والا یہ سب اسی گرفت میں ہیں اس گرفت کے نگراں کسی نہ کسی صورت جاگیرداروں کے رشتے دار کا سہ لیس ہی ہوتے ہیں۔

جہاں تک نقل مافیا کا تعلق ہے اس کی اصل وجہ تو بیان کر ہی دی گئی ہے کہ اس کے ذمے دار اساتذہ (جو خود بھی اور اپنے سرپرستوں کے باعث بھی) ہیں۔ مگر سب سے بڑھ کر اس کی ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اخلاق کا گلا گھونٹ کر اپنے کالے دھن سے خود اپنے بچوں پر ترقی و آگاہی کے دروازے بند کر کے ان کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔ نہ والدین سدا ساتھ رہتے ہیں اور نہ دولت ہمیشہ وفا کرتی ہے۔ اگر کچھ سدا ساتھ رہتا ہے تو وہ کارکردگی، اہلیت، قابلیت اور صلاحیت ہی ہے جو انسان کے آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کے لیے ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں