خرابی جمہوریت میں نہیں معاشرے میں ہے

نہ جانے کیسا ڈر ہے جو حکمرانوں اور امیدواروں کو عوام سے دور لے گیا ہے۔


قصورعوام کا بھی ہے کہ حکمران ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کی طرح جو بھی ظلم ڈھاتے ہیں ہم قبول کر لیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ریاست ہوگی ماں کے جیسی
سیاست ہوگی عوام کی خدمت
ہوگی دور غریبی
آئے گی دیس میں خوشحالی
مٹے گی غربت نہ کہ غریب
ہوگا عوام کا بول بالا
ہر ڈالی پہ ہوگی ہریالی
پرچم لہرائے گا سبز ہلالی

ریاست ہوگی ماں کے جیسی
سیاست ہوگی عوام کی خدمت


ٹھہریے! جناب یہ کسی مشہورِ زمانہ شاعر کی لکھی نظام یا اردو کے بلند پایہ لکھاری کی غزل سے اقتباس بالکل بھی نہیں ہے۔ بس ذرا یاداشت پر تھوڑا زور ڈالیں اور انتخابات کے دنوں کو ذہن میں لائیں تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ یہ پاکستانی سیاست دانوں کے بلند و بانگ دعووں کی اک ادنی سی جھلک ہے۔ کیسے کیسے وعدے، فلک شگاف نعرے، عوامی خدمت کی تڑپ مارتی جستجو اور حقیقت سے میلوں دور لمبے لمبے دعووں کی حقیر سی تصویر ہے۔ انتخابات کے دنوں میں ''ہم سب ٹھیک کردیں گے'' سے حکومت میں آکر ''ہم کوشش کر رہے ہیں'' تک کا سفر کس دور میں طے نہیں ہوا اور کس دور میں عوام کو دن میں تارے نہیں دکھائے گئے؟



آجکل امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے مہم چل رہی ہے جہاں سے بڑی خبر یہ آئی ہے کہ صدارتی انتخاب کی امیدوار ہیلری کلنٹن جو کہ سابقہ سیکریٹری خارجہ بھی ہیں، اپنی مہم کے دوران بغیر سیکورٹی کے عام عوام میں گھل مل گئیں، عام سے کیفے میں بیٹھ کر کھانا کھایا اور لوگوں سے گپ شپ سے بھی محظوظ ہوئیں۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال برطانیہ میں بھی چل رہی ہے جہاں موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون خود اپنی مہم کو لیڈ کر رہے ہیں اور عوام تک پہنچ کر انکے مسائل سن کر انکو اپنا ایجنڈا بیان کر رہے ہیں۔ یہ محض انتخابی مہم کی بات نہیں بلکہ گزشتہ دنوں ناروے کے وزیراعظم نے ٹیکسی ڈرائیور بننے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگوں کے درمیان رہ کر اُن کے مسائل کو سمجھنا چاہتے تھے۔






یہ ایسے ممالک کی مثالیں ہیں جہاں ''جمہوریت'' سے مراد عوام کی حکمرانی عوام کے منتخب کیے ہوئے نمائندوں کے ذریعے ہوتی ہے اور عوام کے ووٹوں کو قدر کو نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جہاں اگر عوام کے مسائل حل نہ کیے گئے تو گھر کی راہ دکھادی جاتی ہے اور مخالف اُمیدوار کو عوام کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوتا ہے۔


اب ذرا مملکت خداداد پاکستان کو بھی دیکھ لیں جہاں کا لفظ سنتے ہی چند مخصوص سی باتیں ذہن میں نمودار ہوجاتی ہیں۔ یہاں پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات لڑنا عام انسان کیا بلکہ اپر مڈل کلاس کے خاص آدمی کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔



سب سے پہلے تو دس بارہ بڑی گاڑیاں، بیس پچیس تگڑے جوان آدمی اور بھاری مقدار میں پوسٹرز، بینرز اور وال چاکنگ کا اہتمام ضروری ہے۔ پھر علاقے کے بااثر افراد کو ہاتھ میں کرنا ہوتا ہے۔ کسی بڑے سے ڈیرے میں انتخابی جلسہ منعقد کیا جانا بھی ضروری ہے اور عوام کی ''سہولت'' کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹرانسپورٹیشن بھی مہیا کی جانی چاہیے۔ جب یہ سب کام ہوجائیں تو پھر برادری کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے۔ قبیلے کے سربراہ کو ہاتھ میں کرلیا تو سمجھیں کہ سارے ووٹ پکے ہوگئے۔


اب جو ذرا تنگ کرے یا جیت کی راہ میں روڑے اٹکائے تو اسکا بندوبست بھی کردیا جاتا ہے۔ الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشن کے باہر تگڑے گن مین امیدوار کے رعب و دبدبے کی نمائش کر رہے ہوتے ہیں۔


اگر حکومتی امیدوار ہو اور کبھی غلطی سے بھی اپنے حلقے میں نہیں گیا ہو، وہ بھی انتخابات کے دنوں میں اپنے حلقے میں گلیاں، نالیاں اور سڑکیں پکّی کرنے کا وعدہ کردیتا ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں ووٹوں کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ یہاں انتخابی مہم میں اپنا ایجنڈا کم بتایا جاتا ہے اور دوسرے کی پگڑی زیادہ اچھالی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کو طرح طرح کے القابات سے نوازنا بھی مہم کا اہم جز سمجھا جاتا ہے۔ کسی کو الٹا لٹکانا ہو یا سرِعام دھمکیاں دینا ہو یہ سب ''ہیٹ آف دی مومنٹ'' کے نام پر کھلے عام کیا جاتا ہے۔

دنیا مریخ پر پہنچ کر وہاں زندگی کے آثار ڈھونڈھ رہی ہے اور ہم ابھی تک اسی الجھن کا شکار ہیں کہ کونسی جماعت ''کم بُری'' اور کونسی کس حد تک بہتر ہے۔ ہم آج بھی بجلی کے اوقات کا کیلنڈر ہاتھ میں لیے گھوم رہے ہیں کہ اگر 10 بجے آئی ہے تو 11 بجے جائے گی تاکہ پہلے ہی تیاری کرلی جائے اور اگر خوش قسمتی سے بجلی نہیں گئی تو خوش ہوتے ہیں کہ زندگی کا ایک اور گھنٹہ سکون سے گزر گیا۔

وطنِ عزیز کے سیاستدانوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ انکی اکثریت پیٹ بھرے وڈیروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہے۔ جن کا عوام کے حال احوال اور شب و روز سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور انکا حال اس شاعر جیسا ہے جو ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ بیٹھ کر غریبوں کے بارے میں شاعری کرتے ہیں اور جنکو غریب کا غم ہر لمحہ ستاتا ہے۔

ہماری نام نہاد جمہوریت کا حال بھی ایسا ہی ہے کہ جس کے پاس چار آنے فالتو پڑے ہیں وہ انتخابات میں سرمایہ کاری کردیتا ہے۔ جیتے تو وزیر ہارے تو سفیر بن جاتے ہیں۔ عوام نام کی بلا بھلا کون گلے ڈالتا ہے۔

ایسے میں اگر ہم دیکھیں تو قصور عوام کا بھی حکمرانوں سے کم نہیں۔ ہم پانچ سال میں ایک دن کو اپنا حق سمجھتے ہیں مگر اسے بھی دوسرے کاموں کی طرح سہی سے ادا نہیں کرتے اور اگلے پانچ سال وہی حکمران دوبارہ ''مالِ مفت دلِ بے رحم'' کی طرح جو بھی ظلم ڈھاتے ہیں ہم قبول کر لیتے ہیں۔

پچھلی حکومت نے بُری کارکردگی اور مہنگائی کو آسمان تک پہنچانے میں وہ کونسا ایوارڈ ہے جو نہ جیتا ہو، مگر پھر یوں ہوا کہ اسی پارٹی کے آدھے لوگوں نے پارٹی بدلی اور دوسری جماعتوں کے ٹکٹ پر اسمبلی میں آن پہنچے اور اسکو نام دیا گیا جمہوریت کی فتح کا۔ یہاں جمہوریت کا مطلب ''اپنی حکومت اور اپنا اقتدار'' ہے اس کے بغیر جمہوریت کی کوئی بھی تعریف قابلِ قبول نہیں ہے۔ آپ پانچ سال حکومت کرنے والوں سے مہنگائی کا پوچھیں تو یہ سترویں ترمیم کی بات کریں گے، آپ معیشت کا پوچھیں تو یہ اٹھارویں ترمیم کا کریڈٹ لیں گے، گویا جمہوریت نام کا لفظ صرف لوٹ مار کا ہتھیار ہو انکے لیے۔

وزیرِاعظم نواز شریف چین جاتے ہیں تو یہ وہاں بلٹ ٹرین میں سفر کرتے ہیں، سابق وزیرِاعظم راجہ پرویز اشرف لندن سے برمنگھم ٹرین پر جاتے ہیں، یہ لوگ مغرب میں جا کر وہاں کی اقدار کو اپنا لیتے ہیں مگر یہاں ائیرپورٹ پر اترتے ہی بادشاہ بن جاتے ہیں۔

نہ جانے کیسا ڈر ہے جو حکمرانوں اور امیدواروں کو عوام سے دور لے گیا ہے، جن کے ووٹوں سے وہ منتخب ہوتے ہیں انہی سے دور رہتے ہیں اور جب تک ایسا ہوتا رہے گا یہاں نہ کوئی ٹیکسی میں سفر کرنے والا وزیرِاعظم بن سکتا ہے، نہ کسی عام آدمی کی خاص ایوانوں تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ یہاں پانچ سال میں آٹھ ہزار لوگ سڑکوں پر قتل ہونے کے باوجود بھی جب یہ قوم خاموش رہے گی تو پھر یہ جناب قائم علی شاہ کو ہی ''ڈیزرو'' کرتی ہے۔ لیکن اگر تقدیر اور قسمت کو بندلنا ہے تو مغرب سے اور کچھ نہ سہی کم از کم یہی سیکھ لیں۔

[poll id="361"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں