گاڑیوں سے نکلتا دھواں صحت کا کیا حشر کرسکتا ہے

ٹریفک کے دھوئیں سے نکلنے والی خطرناک گیسوں اور کیمیائی مادوں کا چشم کشا ماجرا

جن پاکستانی سڑکوں پہ ٹریفک زیادہ ہو،وہاں دھواں چھایا نظر آتا ہے۔فوٹو : فائل

یہ ہفتہ قبل کی بات ہے' راقم کو ایک ٹریفک اشارے پر ٹھہرنا پڑا۔ میری بائک کے آگے کھڑا رکشا بے دریغ کالا دھواں چھوڑ رہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں سانس لینا دوبھر ہو گیا۔ فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا ورنہ جی چاہتا تھا کہ وہاں سے اڑن چھو ہو جاؤں۔

آپ بھی سڑکوں پر دیکھتے ہوں گے کہ کوئی نہ کوئی کار،ٹرک،ویگن،رکشا یا موٹر سائیکل دھواں چھوڑتے چلی جا رہی ہے۔ ایسی گاڑیوں کے مالک ناخواندہ ہوں یا تعلیم یافتہ' وہ اخلاقی و قانونی طور پر گناہ گار اور مجرم ہیں۔ وجہ یہی کہ پٹرول یا ڈیزل کا دھواں انسانوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔

یہ لوگ چند سّکے بچانے کی خاطر اپنی گاڑیوں پر دھواں ختم کرنے والے آلات نہیں لگاتے اور دوسروں میں موت بانٹتے پھرتے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: ''حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔''



دو سو سال قبل تک انسانی معاشروں میں صرف لکڑی جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں نظر آتا تھا۔ مگر اب دھواں کئی اشکال میں ملتا ہے۔ان میں سے کچھ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور بقیہ بے ضرر! ہر قسم کا دھواں گیسوں اور مائع ٹھوس ذرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ دھوئیں کی خطرناک اقسام میں لکڑی، سگریٹ، مٹی کا تیل، پٹرول، ڈیزل، قدرتی گیس اور کوئلے سے نکلنے والا دھواں شامل ہے۔ وجہ یہی کہ یہ دھواں زہریلی گیس یا عناصر بھی رکھتا ہے۔

سڑکوں پہ بھاگتی پھرتی گاڑیوں میں پٹرول' ڈیزل (اور سی این جی بھی) جل کر گیسوں اور کیمیائی مادوں میں تبدیل ہو تے ہیں۔ان مادوں کے متعلق تعلیم یافتہ لوگ بھی کم ہی جانتے ہیں۔اسی لیے ان کی معلومات پیش خدمت ہیں۔

انجن میںجلنے کے بعد پٹرول کا 71 فیصد (ڈیزل کا 67فیصد) حصہ ''نائٹروجن'' گیس میں تبدیل ہوتا ہے۔ یہ گیس انسان کو نقصان نہیں پہنچاتی کہ ہم جس فضا میں سانس لیتے ہیں' یہ اس کا78 فیصد حصہ ہے۔جلے ایندھن کا دوسرا بڑا حصہ ''کاربن ڈائی آکسائیڈ'' گیس پر مشتمل ہے۔ پٹرول انجن 14فیصد جبکہ ڈیزل انجن 12 فیصد یہ گیس خارج کرتا ہے۔ یہ گیس بلا واسطہ طور پر انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ وہ یوں کہ پچھلے ڈیڑھ سو برس میں بے تحاشا رکازی ایندھن (کوئلہ' لکڑی' پٹرول' ڈیزل' گیس) جلانے کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت بڑھ چکی۔

یہ گیس اب زمین کو سورج کی خطرناک بالائے بنقشی (الٹراوائلٹ) شعاعوں سے محفوظ رکھنے والی اوزون تہہ ختم کر رہی ہے۔نیز فضا میں اسی گیس کی زیادتی کے باعث عالمی آب و ہوا بھی بدل چکی ۔ مثلاً کہیں قحط پڑ رہے ہیں' تو کہیں زیادہ طوفان آنے لگے ہیں۔ غرض فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھنا بنی نوع انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔



اس گیس کے بعد پٹرول و ڈیزل جل کر بالترتیب 13 فیصد اور 11 فیصد'' آبی بخارات'' (پانی) پیدا کرتے ہیں۔ یہ بھی انسان کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ ڈیزل انجن 9.7 فیصد ''آکسیجن'' بھی چھوڑتا ہے اور یہ بھی بے ضرر گیس ہے۔

پٹرول کے مضر ِصحت اجزا

پٹرول جلنے کے بعد اس کا 2 فیصد جبکہ ڈیزل کا 0.3 فیصد حصہ خطرناک گیسوں اور کیمیائی مادوں پر مشتمل ہوتا ہے۔پٹرول کے درج بالا 2 فیصد حصے میں سے'' کاربن مونوآکسائیڈ'' کا حصہ تقریباً80 فیصد ہے۔

یہ ایک بے رنگ' بے بو اور بے ذائقہ زہریلی گیس ہے۔ جب کاربن ایندھن (کوئلہ ' پٹرول' ڈیزل' لکڑی) ایسی جگہ جلایا جائے جہاں آکسیجن بہت کم یا بالکل نہ ہو' تو وہاں یہ گیس جنم لیتی ہے۔جب سانس کے ذریعے کاربن مونو آکسائیڈہمارے جسم میں پہنچے' تو خون کے پروٹینی مادے' ہیمو گلوبین سے جا چپکتی ہے۔

ہمارے جسم میں ہیمو گلوبن پر سواری کر کے ہی آکسیجن اربوں خلیوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن جب کاربن مونو آکسائیڈ اس سواری پر قبضہ کر لے' تو پھر آکسیجن سوار نہیں ہو پاتی ۔ نتیجہ کے طور پر دل و دماغ کے خلیے آکسیجن نہ ملنے پر ایک ڈیڑھ منٹ میں چل بستے ہیں اور ساتھ ہی انسان بھی دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔

تاہم موت اسی وقت واقع ہوتی ہے جب فضا میں آکسیجن کی شدید کمی واقع ہو جائے۔ لیکن فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار میں معمولی سی زیادتی بھی انسان میں کئی طبی مسائل پیدا کرتی ہے۔ جب کسی سڑک' شاہراہ یا علاقے میں گاڑیوں کا دھواں جمع ہو ' تو وہاں بسنے والے لوگ قدرتاً ان طبی مسائل کا نشانہ بنتے ہیں ۔کیونکہ فضا میں درج بالا گیس کی مقدار بڑھتی جب کہ آکسیجن کی گھٹ جاتی ہے۔گھر کی فضا میں ہوا کا ہر دس لاکھ واںحصہ صرف 0.5 تا 5حصے کاربن مونو آکسائڈ رکھتا ہے۔ لیکن دھوئیں سے بھری خصوصاً پاکستانی سڑکوں پر یہ حصہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔

جلے پٹرول کا 10 فیصد حصہ ''نائٹروجن آکسائیڈ'' پر مشتمل ہوتا ہے۔ انجن میں نائٹروجن اور آکسیجن گیسوں کے ملاپ سے یہ مرکب وجود میں آتا ہے۔ جب کسی علاقے میں اس مرکب کی مقدار بڑھ جائے' تو وہاں دھوئیں اور دھند کے امتزاج سے سموگ ( SMOG) جنم لیتی ہے۔ یہ سموگ امراض تنفس یا سانس کی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔

اگر ہوا میں مقدار زیادہ بڑھے' تو تیزابی بارش ہونے کاامکان بڑھ جاتا ہے۔ یہ بارش پودوں' آبی جانوروں اور عمارات پر مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔اگر کسی آدمی کی دکان ایسی سڑک پر ہے جہاں ٹریفک زیادہ ہونے پر ہر دم دھواں چھایا رہتا ہے' تو اس کے پھیپھڑے نائٹروجن آکسائیڈ مسلسل پینے کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں۔

جلے پٹرول کا آخری 10فیصد حصہ ''ہائیڈرو کاربنز'' (Hydrocarbons)رکھتا ہے۔ یہ ہائیڈروجن اور کاربن گیسوں کے ملاپ سے ملنے والے نامیاتی مرکب ہیں۔ ان کی مختلف اقسام ہیں مثلاً بینزین' میتھین 'پروپین' آگسٹن وغیرہ ۔یہ نامیاتی مرکبات بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔ہائیڈرو کاربنز مرکب انسانی جسم میں پہنچ کر بافتوں (Tissues) کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ نیز مسلسل جسم میں پہنچتے رہیں، تو انسان کے گردے، دماغ اور نظام اعصاب خراب کر ڈالتے ہیں۔


جلے ڈیزل کے خطرناک 0.3 فیصد حصے میں سب سے زیادہ جگہ ''نائٹروجن آکسائیڈ'' گھیرتی ہے۔ اس کی بابت آپ درج بالا جان چکے۔ پھر ''کاربن مونو آکسائیڈ'' کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بارے میں بھی بتایا جاچکا۔

تیسرے نمبر پر ذراتی مادہ (Particulate Matter) آتا ہے۔یہ ذراتی مادہ راکھ، دھاتی ذروں ،سلفیٹ اور سلیکٹ کے ننھے منے ذرات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ذرات باآسانی منہ کے راستے انسانی جسم میں داخل ہوجاتے اور انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ذراتی مادہ پینے سے انسان سردرد، سستی اور کھانسی کا شکار ہوسکتا ہے۔ کبھی کبھی سانس لینے میں تکلیف محسوس کرتا ہے۔ انسان مسلسل ان ذراتی مادوں کا نشانہ بنا رہے، تو امراض قلب و پھیپھڑوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔



ڈیزل جل کر ایک خطرناک گیس، سلفرڈائی آکسائیڈ بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ گیس انسان میں امراض تنفس پیدا کرتی ہے۔ تھوڑے وقت تک اس گیس سے سامنا ہو، تو انسان سانس لینے میں دقت محسوس کرتا ہے۔

جدید تحقیق کہتی ہے کہ انسان دن کا کچھ عرصہ بھی روزانہ گاڑیوں کا دھواں پیتے گزارے تو ہ دل کی بیماریوں، امراض تنفس حتیٰ کہ کینسر تک کا نشانہ بن جاتا ہے۔ مزید برآں یہ دھواں دماغی خلیوں (نیورونز) کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی لیے دماغ کمزور ہونے پر انسان کی یادداشت ماند پڑجاتی ہے اور وہ نئی باتیں سیکھنے میں دشواری محسوس کرتا ہے۔

درج بالا مضر صحت عوامل کی بنا پر کوشش کیجیے کہ ایسے ماحول میں زیادہ دیر نہ رکیے جہاں گاڑیوں کا دھواں بھرا ہو۔ اگر آپ وہاں کام کرنے پر مجبور ہیں، تو کوشش کیجیے کہ ایک دو گھنٹے بعد کسی باغ یا صاف ستھرے مقام پر جاکر آکسیجن لیجیے۔ جسم میں وافر آکسیجن ہونے سے دھوئیں کے مضر اثرات کم پڑتے ہیں۔

گاڑیوں کے دھوئیں سے ٹریفک پولیس کے سپاہی براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ آئندہ جب بھی انہیں دیکھیں، تو ان کو داد دیجیے کہ وہ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر بے ہنگم ٹریفک کو قابو کرنے کی سعی کررہے ہیں۔اگر کسی وقت وہ سستا رہے ہوں، تو اسے ان کا حق سمجھئے کہ ان کی ذمے داریاں بہت سخت ہیں۔

آلہ جو صفائی کرے
امریکا اور یورپ میں آج ہر کار، ٹرک، بس حتیٰ کہ موٹر سائیکل میں ایک آلہ '' کیٹالائٹک کنورٹر ''(Catalytic converter) نصب ہوتا ہے۔ اسے لگانے کا مقصد یہ ہے کہ ایندھن جلنے سے جنم لینے والی خطرناک گیسوں اور کیمیائی مادوں کو کم یا ختم کیا جائے۔ یہ آلہ تین اہم کام انجام دیتا ہے:

اول: نائٹروجن آکسائیڈ کو نائٹروجن اور آکسیجن میں بدلتا ہے۔ دوم کاربن مونو آکسائیڈ کو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کرتا ہے۔ سوم ہائیڈروکاربنز کو کاربن ڈائی آکسائیڈ یا پانی میں بدل دیتا ہے۔ یہ اسی آلے کا کرشمہ ہے کہ امریکہ و یورپی سڑکوں پر بے شمار گاڑیاں بھاگتی پھرتی ہیں، مگر دھوئیں کے وہ دبیز بادل نظر نہیں آتے، جو دکھائی دینے چاہئیں۔

عمدہ قسم کا کیٹالائٹک کنورٹر خاصا مہنگا آتا ہے۔ اس کی موجودہ قیمت تقریباً ایک لاکھ روپے ہے۔ چند سال قبل تک یہ تمام پاکستانی گاڑیوں سے عنقا تھا، اب نئی گاڑیوں میں یہ نصب کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب یہ خراب ہوجائے تو عموماً مالکان گاڑی اسے تبدیل نہیں کراتے بلکہ اتروا دیتے ہیں۔وجہ یہی کہ پاکستان میں دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی جانچ پڑتال کا سرکاری قانونی نظام بہت کمزور ہے۔

ٹریفک سپاہیوں کے سامنے سے زہریلا دھواں اگلتے ٹرک، رکشے اور موٹر سائیکل گزر جاتے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرپاتے۔ اگر انہیں دھواں چھوڑتی گاڑیوں پر بھاری جرمانہ عائد کرنے کا اختیار مل جائے، تو ہمارے شہروں کی فضا خاصی صاف ستھری ہوسکتی ہے۔پنجاب کے شہروں مثلاً لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد وغیرہ میں اکثر بارش ہوتی ہے۔ پھر وہاں درخت بھی مناسب تعداد میں لگے ہیں۔ لیکن سندھ کے شہر،کراچی، حیدر آباد ، سکھر وغیرہ فضائی آلودگی سے بچانے والے درج بالا قدرتی محافظوں سے محروم ہیں۔ اسی لیے خصوصاً کراچی کی سڑکوں پر دھوئیں کے بادل اکثر نظر آتے ہیں۔

اگر شہر قائد میں تیز سمندری ہوا اکثر نہ چلے، تو شاید وہاں رہنا محال ہوجائے۔ پاکستانی شہروں میں آج بھی رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی بڑی تعداد ٹو اسٹروک انجن رکھتی ہے۔ ان گاڑیوں کے انجن موبل آئل جلا کر دھواں چھوڑتے ہیں۔ یہ دھواں بھی زہریلی گیسیں اور مادے رکھتا ہے۔

فضائی آلودگی پھیلانے کے باعث ٹو اسٹروک انجن کا استعمال کم سے کم ہونا چاہیے۔صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تحفظِ ماحول کے محکموں کو فعال کریں۔ نیز ان میں زیادہ انسپکٹر بھرتی کیے جائیں جو شہری سڑکوں پر گشت کرسکیں۔یاد رہے، پاکستانی شہر فضائی آلودگی کا شکار ہیں۔ اور 70 فیصد آلودگی گاڑیوں کے دھوئیں سے جنم لیتی ہے۔

کاربن مونو آکسائیڈ سے ہوشیار
ماہرین اس گیس کو ''خاموش قاتل''کہہ کر پکارتے ہیں۔وجہ یہی کہ کاربن مونو آکسائیڈ ایک بے رنگ،بے ذائقہ اور بے بو گیس ہے اور باآسانی دریافت نہیں ہو پاتی۔یہ لکڑی،تیل،قدرتی گیس،پروپین،مٹی کے تیل ،کوئلہ اور سگریٹ جلنے سے پیدا ہوتی ہے۔اگر کمرے میں چولھا،ہیٹر،جنریٹر جلانے سے ہوا میں اس گیس کی مقدار بڑھ جائے،تو وہاں موجود انسان جلد چل بستے ہیں۔یہ گیس آکسیجن کو ہمارے جسم میں پھیلنے نہیں دیتی،اسی لیے بہت خطرناک ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گھر میں ہوا کے ہر دس لاکھ ویں حصّے میں کاربن مونو آکسائڈ کا حصّہ صرف 9 حصے ہونا چاہیے۔یہ جتنا زیادہ ہو گا،اتنا ہی انسانی صحت کو نقصان پہنچائے گا۔

مثال کے طور پر ہوا کے دس لاکھویں حصے میں گیس کا حصہ 35ہو،تو وہاں سانس لیتے ہوئے سر دردر کرتا ہے۔چکر آتے ہیں اور انسان سستی محسوس کرنے لگتا ہے۔800 کا عدد چھو لے،تو بے ہوشی طاری ہونے لگتی ہے۔1600حصے پر انسان دو گھنٹے کے اندر مر جاتا ہے۔جبکہ حصہ 12800ہو جائے،تو آدمی تین منٹ میں چل بستا ہے۔

جن پاکستانی سڑکوں پہ ٹریفک زیادہ ہو،وہاں دھواں چھایا نظر آتا ہے۔اس دھوئیں میں کاربن مونوآکسائڈ کی مقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔لہذا اس ماحول میں سانس لینے اور زیادہ دیر تک رہنے سے پرہیز کیجیے۔
Load Next Story