مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کی لہر

بھارت خود کو ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ جمہوریت میں ہر طبقے اور گروہ کو اپنے جذبات ظاہر کرنے کا حق ہوتا ہے۔


Editorial April 19, 2015
اس وقت دنیا میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ اس معاملے میں عضو معطل بنی ہوئی ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے ایک ریلی میں پاکستان کے حق میں نعرے بازی اور پاکستانی پرچم لہرانے پر حریت پسند رہنما مسرت عالم بھٹ اور مشتاق الاسلام کو دوبارہ گرفتار کرلیا ہے جب کہ گزشتہ روز حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں نکالی گئی ریلی پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کی، لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے 2 کشمیری شہید، 14 شدید زخمی ہوگئے۔

مقبوضہ کشمیر کے آئی جی پولیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مسرت عالم کی گرفتاری کی تصدیق کی اور بتایا کہ انھیں جمعہ کی صبح حراست میں لیا گیا ہے۔ ریلی میں مسرت عالم کے حق میں نعرے لگائے گئے۔ میر واعظ عمر فاروق نے ریلی کے شرکا سے خطاب میں کہا کہ بھارتی ریاستی دہشتگردی بند کی جائے۔ انھوں نے ریلی پر فائرنگ اور لاٹھی چارج کی شدید مذمت کی۔

مقبوضہ کشمیر میں حالیہ احتجاج کی لہر کا آغاز 15 اپریل بروز بدھ کو ہوا جب معروف کشمیری رہنما سید علی گیلانی دہلی سے سری نگر آئے، وہ دہلی میں کچھ عرصے سے علاج کی غرض سے مقیم تھے۔

ان کی استقبالیہ ریلی کو مسرت عالم بھٹ لیڈ کر رہے تھے۔ اس ریلی میں شرکاء نے پاکستان کے حق میں نعرے بازی کی جو بھارتی میڈیا اور حکومت کو بہت ناگوار گزری۔ اس کے بعد ہی مسرت عالم اور دیگر کشمیریوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے ردعمل میں جوابی احتجاج ہوا۔

جس پر پولیس نے تشدد کیا اور فائرنگ کی۔ اس معاملے کو گہرائی سے دیکھا جائے تو حالات خراب کرنے کی ساری ذمے داری بھارتی میڈیا اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کشمیریوں کے جلسے جلوسوں میں پاکستان کے حق میں پہلی بار نعرے بازی نہیں ہوئی بلکہ یہ معمول ہے لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ بھارتی میڈیا اس حوالے سے ذمے داری کا مظاہرہ کرتا کیونکہ اس ایشو کو بھارتی میڈیا نے ہی سب سے زیادہ ابھارا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سیاست دانوں خصوصاً بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کے بیانات سے اس معاملے میں گرماگرمی پیدا ہوئی۔ بھارتی پولیس نے بھی معاملے کو درست انداز میں ہینڈل نہیں کیا۔ بھارتی حکومت بخوبی جانتی ہے کہ کشمیر میں جدوجہد آزادی برسوں سے جاری ہے۔ کشمیریوں نے اگر ریلی میں پاکستان کے حق میں نعرے بازی کی ہے تو اس میں حد سے زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ عوام جلسے جلوسوں میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارت خود کو ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ جمہوریت میں ہر طبقے اور گروہ کو اپنے جذبات ظاہر کرنے کا حق ہوتا ہے۔

کشمیریوں نے اگر پاکستان کے حق میں نعرے بازی کی تو یہ ان کے دلی جذبات کی ترجمانی تھی۔ اگر بھارتی میڈیا اس معاملے کو نہ اچھالتا تو یہ رات گئی اور بات گئی والا معاملہ بن جاتا لیکن بھارتی میڈیا نے اسے اچھالا اور حکومت نے جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس کی وجہ سے حالات خراب ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ریلی پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ یہ صورت حال خاصی تشویشناک ہے۔

بھارتی حکومت کو اس معاملے کو ایک دوسرے رخ سے بھی دیکھنا چاہیے۔ بھارتی حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جتنے مرضی الیکشن کروا لے لیکن جب تک وہ کشمیریوں کو ان کے مکمل حقوق فراہم نہیں کرتی اس وقت تک کشمیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کشمیریوں کی خواہشات اور مطالبات کیا ہیں، اس سے بھی بھارتی حکومت اور بھارت کا میڈیا بخوبی آگاہ ہے۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھتی اور کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیتی تو ایک جانب تنازع کشمیر حل ہو چکا ہوتا اور دوسری جانب پورے برصغیر میں امن قائم ہو جاتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی جو تنازع ہے، اس کی جڑ کشمیر ہی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک جو جنگیں ہوئیں ان کی تہہ میں بھی تنازع کشمیر ہی کارفرما تھا۔ اگر یہ تنازع کشمیریوں کی امنگوں اور تمناؤں کے مطابق حل کر لیا جاتا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی تنازع نہ ہوتا۔ لیکن بھارتی حکومت نے اس معاملے میں زمینی حقائق کی بجائے ہٹ دھرمی کی پالیسی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مسلسل چپقلش جاری ہے۔ پاکستان کشمیریوں سے الگ نہیں رہ سکتا اور اسی طرح کشمیری پاکستان سے الگ تھلگ نہیں ہیں۔ اس معاملے میں عالمی برادری نے بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنا کردار ادا نہیں کیا۔

امریکا اور یورپ نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھا اور بھارت پر کبھی دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ کشمیر کا تنازع حل کرے حالانکہ انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کا معاملہ حل ہو چکا ہے جب کہ سوڈان میں جنوبی سوڈان والوں کو آزادی مل چکی ہے لیکن کشمیر کے مسئلے کو بدستور لٹکایا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں ظلم و ستم مسلسل بڑھ رہا ہے۔

اس وقت دنیا میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ اس معاملے میں عضو معطل بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ دو مسئلے حل ہو جائیں تو مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو جائے گا۔ ان دو خطوں میں امن قائم ہو جائے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ بھارتی قیادت اور عالمی برادری کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں