کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں۔۔۔
آج جواخبار بھی آپ اٹھائیں۔ادارتی صفحے پر کالموں کی بہار نظر آئے گی۔ جن میں ہر طرح کے موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔
لاہور:
آج جو اخبار بھی آپ اٹھائیں۔ ادارتی صفحے پر کالموں کی بہار نظر آئے گی۔ جن میں ہر طرح کے موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ جب کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ادارتی صفحے پر صرف ایک کالم ہوا کرتا تھا۔ جس میں عموماً سیاسی موضوعات پر ہی توجہ مرکوز ہوتی تھی۔ لیکن بعض کالم نویس کچھ دوسرے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کرتے تھے۔
جیسے کہ مولانا چراغ حسن حسرت، نصراللہ خاں، ابراہیم جلیس اور ابن انشا وغیرہ۔ لیکن اب ایک طویل عرصے سے معاملہ بالکل برعکس ہے۔ اب ادب، نفسیات، تاریخ اور مزاح سب ہی اصناف کالموں کا موضوع ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ادارتی صفحے کے کالم نگار کو صرف قومی اور بین الاقوامی سیاست تک محدود رہنا چاہیے۔ جس زمانے میں ابراہیم جلیس ایک معاصر روزنامے میں کالم لکھا کرتے تھے، تو بہادر شاہ مارکیٹ میں ان کے دفتر میں نصابی کتب کی بعض فاش غلطیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔
انھوں نے مجھ سے وہ کتابیں لے لیں اور تین دن بعد انھوں نے ان چند فاش غلطیوں کے علاوہ بھی بہت سی غلطیاں نکال لیں اور اپنے کالم میں ان کا تذکرہ کیا تو بہت سے اساتذہ اور سلیبس بنانے والی کمیٹی نے اس کا نوٹس لیا۔ بڑا اچھا زمانہ تھا، اخبار میں شایع ہونے والی ہر تحریر انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی تھی۔ کسی ادارے یا محکمے کی کسی بھی غلطی کی نشاندہی کا فوری نوٹس لیا جاتا تھا۔ لیکن آج یہ حال ہے کہ ہم کالم نویس لاکھ سر پیٹ لیں لیکن کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سب بددل ہو کر بیٹھ جائیں۔ نہیں ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ادارتی صفحات پر متعدد کالم نویسوں کی شمولیت کی۔ تو یاد دلاتی چلوں کہ ایک زمانے میں غزل جب فارسی کے زیر اثر تھی تو اس میں عشقیہ مضامین کی بھرمار تھی، غزل کے لغوی معنی ہی ''عورتوں سے باتیں کرنا'' تھا۔ پھر سب سے پہلے غالب نے غزل کے مضامین کو وسعت دی اور زندگی کے سنگین اور کھردرے مسائل کو غزل میں جگہ دی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور جب حسرت موہانی سے ہوتا ہوا فیض تک پہنچا تو غزل کا دامن اس حد تک وسیع ہوچکا تھا کہ اس میں ہر طرح کے مضامین بیان کرنے کی گنجائش ہو چکی تھی۔ ایک طرف حسرت نے کہا تھا:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے' حسرت کی طبیعت بھی
دوسری طرف فیض صاحب بول اٹھے:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا؟ کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں' زباں میں نے
بس یہی وجہ تھی جس کا اظہار فیض نے اپنے اشعار میں کیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ جب بھی حکومتوں، آمروں، بادشاہوں اور نام نہاد جمہوریت کے رکھوالوں نے لکھنے والوں پہ پابندیاں عائد کیں، قلم توڑ دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں، مذہب کے ٹھیکیداروں اور مختلف فرقوں کے درمیان فساد پیدا کر دینے والوں نے جب اپنی سوچ اور الفاظ کالم نگاروں کے کالمز میں ڈالوانے کی کوشش کی تو جو دباؤ نہ سہہ سکتے تھے ان کی جیبیں بھاری ہو گئیں۔ اور وہ بڑے بڑے گھروں کے مالک بن گئے۔
چہرہ نمائی کے اور بھی مواقعے فراہم کر دیے گئے۔ لیکن جنھوں نے قلم کی حرمت کو برقرار رکھا اور اپنے ضمیر کو زندہ رکھا ان کے الفاظ کاٹ دیے گئے۔ جب مطلب عنقا ہونے لگا تو انھوں نے کچھ دوسرے موضوعات تلاش کر لیے۔ علامتوں اور استعاروں کا سہارا لے کر انھوں نے اپنے دل کی بات نوک قلم سے کہی اور کامیاب رہے۔ یہی آج کا سچ ہے۔ جسے سب کو قبول کر لینا چاہیے۔
جس طرح موضوعات کے تنوع نے غزل کو منفرد اور اونچا مقام عطا کیا۔ بالکل اسی طرح زبان بندی نے لکھنے والوں کے لیے نئے راستے کھول دیے۔ اب ادارتی صفحے پر کالموں کا ایسا گلدستہ موجود ہوتا ہے جس میں ست رنگی پھول ہیں۔
پڑھنے والے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ ادبی کتابوں کا تذکرہ، محفلوں کا حال، سماجی مسائل اور ان کا حل، طلاقوں کے بڑھتے ہوئے رجحان، بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد کا بڑھنا، شادیاں نہ ہونا، سیاسی بندر بانٹ کی اصل کہانیاں، شہروں پہ قبضے کی کوششیں، بڑھتے ہوئے جرائم، بلڈر مافیا کی گود میں کراچی جیسے شہر کا چلے جانا، کٹھ پتلی تماشا اور ان پتلیوں کو نچانے والے ہاتھ اور نظر نہ آنے والی ڈوریاں، اقتدار کے تخت کے نیچے کی سرگرمیاں، جاگتے شہروں کو اندھیروں میں دھکیلنے والوں کی تگڑم کی کہانیاں، سب کچھ آج کے کالم نویسوں کی تحریر کا موضوع ہے۔
سچ پوچھیے تو اخبارات کا سب سے اہم اور دلچسپ صفحہ ادارتی صفحہ ہی ہوتا ہے جس میں نیوز اور ویوز دونوں ہوتے ہیں۔ البتہ قارئین کو ایک بات بہت کھٹکتی ہے، وہ یہ کہ بعض لکھنے والوں کی تحریر میں ''میں'' کی تکرار بہت ہوتی ہے۔ ''ہم'' اجتماعی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ البتہ ضرورت کے تحت ''میں'' کا استعمال ممنوع ہرگز نہیں ہے۔
لیکن حد سے زیادہ تکرار گراں گزرتی ہے۔ آپ کتنے مقبول ہیں، سب جانتے ہیں۔ اس ملک کے تمام بڑے لوگ، صدر، آمر اور وزرائے اعظم آپ ہی کے مفید مشوروں سے اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں۔ آپ نہ ہوتے تو ان کی خفیہ خوبیاں جنھیں وہ صوفیا اور اولیا کی طرح چھپا کر رکھتے ہیں۔ بھلا کیسے منظر عام پر آتیں۔ آپ کی جیب میں جو پارس پتھر ہے وہ کسی کا بھی مائنڈ سیٹ تبدیل کر دیتا ہے۔ آپ کی تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور لمحہ بھر میں وہ سخی داتا بن جاتا ہے۔ آپ تو نجات دہندہ ہیں۔
ادارتی صفحے کی اہمیت الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز کی وجہ سے بھی زیادہ بڑھی ہے کہ ریٹنگ، بریکنگ نیوز اور عدالت سجا کر، کان میں مائیک لگا کر جو شخص جلوہ نما ہوتا ہے اس کا کام مرغوں کی لڑائی میں ریفری کا ہوتا ہے۔ آج کل کراچی کے ایک حلقے کے الیکشن کی تمام ذمے داری بھی میڈیا نے سنبھالی ہوئی ہے۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ؟ اس سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ پنچوں کے حکم کے مطابق کسی ایک کو بدنام کرنے اور مہا شیطان ثابت کرنے کے لیے بھی بعض سینئر کالم نگار ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ''سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا'' والی کہاوت ہر طرف جلوہ گر ہے۔ انتقامی سیاست زوروں پر ہے۔
سب لوگ سب جانتے ہیں۔ اسی لیے مغرب کے بعد کوئی معقول گھرانہ خود ساختہ عدالتوں اور میڈیا ٹرائل سے سجے ٹاک شوز نہیں دیکھتا۔ تفریح کی دنیا بہت وسیع ہے۔ ایسے میں معلومات اور مطالعے کے لیے کالم اپنی جانب توجہ زیادہ کھینچتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے سقراط اور افلاطون جیسی قابلیت رکھنے والے اینکر پرسن زبان کے معاملے میں بالکل بانجھ ہیں۔ آج تک ''عوام'' کو مذکر کے بجائے مونث بنانے میں انھی قابل اشخاص کا حصہ ہے۔ پتہ نہیں یہ لسانی دشمنی ہے یا جہالت کا منہ بولتا ثبوت کہ کوئی لغت نہیں دیکھتا۔ اسی لیے اخباری کالم یہ فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں اور مسلسل توجہ دلا رہے ہیں کہ ''عوام'' مذکر ہے اور صحیح املا ''دل برداشتہ'' ہے نہ کہ دلبرداشتہ۔
لیکن اثر اس پہ ذرا نہیں ہوتا
آج جو اخبار بھی آپ اٹھائیں۔ ادارتی صفحے پر کالموں کی بہار نظر آئے گی۔ جن میں ہر طرح کے موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ جب کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ادارتی صفحے پر صرف ایک کالم ہوا کرتا تھا۔ جس میں عموماً سیاسی موضوعات پر ہی توجہ مرکوز ہوتی تھی۔ لیکن بعض کالم نویس کچھ دوسرے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کرتے تھے۔
جیسے کہ مولانا چراغ حسن حسرت، نصراللہ خاں، ابراہیم جلیس اور ابن انشا وغیرہ۔ لیکن اب ایک طویل عرصے سے معاملہ بالکل برعکس ہے۔ اب ادب، نفسیات، تاریخ اور مزاح سب ہی اصناف کالموں کا موضوع ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ادارتی صفحے کے کالم نگار کو صرف قومی اور بین الاقوامی سیاست تک محدود رہنا چاہیے۔ جس زمانے میں ابراہیم جلیس ایک معاصر روزنامے میں کالم لکھا کرتے تھے، تو بہادر شاہ مارکیٹ میں ان کے دفتر میں نصابی کتب کی بعض فاش غلطیوں کی طرف توجہ دلائی تھی۔
انھوں نے مجھ سے وہ کتابیں لے لیں اور تین دن بعد انھوں نے ان چند فاش غلطیوں کے علاوہ بھی بہت سی غلطیاں نکال لیں اور اپنے کالم میں ان کا تذکرہ کیا تو بہت سے اساتذہ اور سلیبس بنانے والی کمیٹی نے اس کا نوٹس لیا۔ بڑا اچھا زمانہ تھا، اخبار میں شایع ہونے والی ہر تحریر انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی تھی۔ کسی ادارے یا محکمے کی کسی بھی غلطی کی نشاندہی کا فوری نوٹس لیا جاتا تھا۔ لیکن آج یہ حال ہے کہ ہم کالم نویس لاکھ سر پیٹ لیں لیکن کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سب بددل ہو کر بیٹھ جائیں۔ نہیں ہمیں اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ادارتی صفحات پر متعدد کالم نویسوں کی شمولیت کی۔ تو یاد دلاتی چلوں کہ ایک زمانے میں غزل جب فارسی کے زیر اثر تھی تو اس میں عشقیہ مضامین کی بھرمار تھی، غزل کے لغوی معنی ہی ''عورتوں سے باتیں کرنا'' تھا۔ پھر سب سے پہلے غالب نے غزل کے مضامین کو وسعت دی اور زندگی کے سنگین اور کھردرے مسائل کو غزل میں جگہ دی۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہا اور جب حسرت موہانی سے ہوتا ہوا فیض تک پہنچا تو غزل کا دامن اس حد تک وسیع ہوچکا تھا کہ اس میں ہر طرح کے مضامین بیان کرنے کی گنجائش ہو چکی تھی۔ ایک طرف حسرت نے کہا تھا:
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے' حسرت کی طبیعت بھی
دوسری طرف فیض صاحب بول اٹھے:
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا؟ کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں' زباں میں نے
بس یہی وجہ تھی جس کا اظہار فیض نے اپنے اشعار میں کیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ جب بھی حکومتوں، آمروں، بادشاہوں اور نام نہاد جمہوریت کے رکھوالوں نے لکھنے والوں پہ پابندیاں عائد کیں، قلم توڑ دینے کی دھمکیاں دی جانے لگیں، مذہب کے ٹھیکیداروں اور مختلف فرقوں کے درمیان فساد پیدا کر دینے والوں نے جب اپنی سوچ اور الفاظ کالم نگاروں کے کالمز میں ڈالوانے کی کوشش کی تو جو دباؤ نہ سہہ سکتے تھے ان کی جیبیں بھاری ہو گئیں۔ اور وہ بڑے بڑے گھروں کے مالک بن گئے۔
چہرہ نمائی کے اور بھی مواقعے فراہم کر دیے گئے۔ لیکن جنھوں نے قلم کی حرمت کو برقرار رکھا اور اپنے ضمیر کو زندہ رکھا ان کے الفاظ کاٹ دیے گئے۔ جب مطلب عنقا ہونے لگا تو انھوں نے کچھ دوسرے موضوعات تلاش کر لیے۔ علامتوں اور استعاروں کا سہارا لے کر انھوں نے اپنے دل کی بات نوک قلم سے کہی اور کامیاب رہے۔ یہی آج کا سچ ہے۔ جسے سب کو قبول کر لینا چاہیے۔
جس طرح موضوعات کے تنوع نے غزل کو منفرد اور اونچا مقام عطا کیا۔ بالکل اسی طرح زبان بندی نے لکھنے والوں کے لیے نئے راستے کھول دیے۔ اب ادارتی صفحے پر کالموں کا ایسا گلدستہ موجود ہوتا ہے جس میں ست رنگی پھول ہیں۔
پڑھنے والے بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ ادبی کتابوں کا تذکرہ، محفلوں کا حال، سماجی مسائل اور ان کا حل، طلاقوں کے بڑھتے ہوئے رجحان، بن بیاہی لڑکیوں کی تعداد کا بڑھنا، شادیاں نہ ہونا، سیاسی بندر بانٹ کی اصل کہانیاں، شہروں پہ قبضے کی کوششیں، بڑھتے ہوئے جرائم، بلڈر مافیا کی گود میں کراچی جیسے شہر کا چلے جانا، کٹھ پتلی تماشا اور ان پتلیوں کو نچانے والے ہاتھ اور نظر نہ آنے والی ڈوریاں، اقتدار کے تخت کے نیچے کی سرگرمیاں، جاگتے شہروں کو اندھیروں میں دھکیلنے والوں کی تگڑم کی کہانیاں، سب کچھ آج کے کالم نویسوں کی تحریر کا موضوع ہے۔
سچ پوچھیے تو اخبارات کا سب سے اہم اور دلچسپ صفحہ ادارتی صفحہ ہی ہوتا ہے جس میں نیوز اور ویوز دونوں ہوتے ہیں۔ البتہ قارئین کو ایک بات بہت کھٹکتی ہے، وہ یہ کہ بعض لکھنے والوں کی تحریر میں ''میں'' کی تکرار بہت ہوتی ہے۔ ''ہم'' اجتماعی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ البتہ ضرورت کے تحت ''میں'' کا استعمال ممنوع ہرگز نہیں ہے۔
لیکن حد سے زیادہ تکرار گراں گزرتی ہے۔ آپ کتنے مقبول ہیں، سب جانتے ہیں۔ اس ملک کے تمام بڑے لوگ، صدر، آمر اور وزرائے اعظم آپ ہی کے مفید مشوروں سے اعلیٰ مقام تک پہنچے ہیں۔ آپ نہ ہوتے تو ان کی خفیہ خوبیاں جنھیں وہ صوفیا اور اولیا کی طرح چھپا کر رکھتے ہیں۔ بھلا کیسے منظر عام پر آتیں۔ آپ کی جیب میں جو پارس پتھر ہے وہ کسی کا بھی مائنڈ سیٹ تبدیل کر دیتا ہے۔ آپ کی تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور لمحہ بھر میں وہ سخی داتا بن جاتا ہے۔ آپ تو نجات دہندہ ہیں۔
ادارتی صفحے کی اہمیت الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز کی وجہ سے بھی زیادہ بڑھی ہے کہ ریٹنگ، بریکنگ نیوز اور عدالت سجا کر، کان میں مائیک لگا کر جو شخص جلوہ نما ہوتا ہے اس کا کام مرغوں کی لڑائی میں ریفری کا ہوتا ہے۔ آج کل کراچی کے ایک حلقے کے الیکشن کی تمام ذمے داری بھی میڈیا نے سنبھالی ہوئی ہے۔ کیا سچ ہے کیا جھوٹ؟ اس سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ پنچوں کے حکم کے مطابق کسی ایک کو بدنام کرنے اور مہا شیطان ثابت کرنے کے لیے بھی بعض سینئر کالم نگار ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ''سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کا ہے کا'' والی کہاوت ہر طرف جلوہ گر ہے۔ انتقامی سیاست زوروں پر ہے۔
سب لوگ سب جانتے ہیں۔ اسی لیے مغرب کے بعد کوئی معقول گھرانہ خود ساختہ عدالتوں اور میڈیا ٹرائل سے سجے ٹاک شوز نہیں دیکھتا۔ تفریح کی دنیا بہت وسیع ہے۔ ایسے میں معلومات اور مطالعے کے لیے کالم اپنی جانب توجہ زیادہ کھینچتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے سقراط اور افلاطون جیسی قابلیت رکھنے والے اینکر پرسن زبان کے معاملے میں بالکل بانجھ ہیں۔ آج تک ''عوام'' کو مذکر کے بجائے مونث بنانے میں انھی قابل اشخاص کا حصہ ہے۔ پتہ نہیں یہ لسانی دشمنی ہے یا جہالت کا منہ بولتا ثبوت کہ کوئی لغت نہیں دیکھتا۔ اسی لیے اخباری کالم یہ فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں اور مسلسل توجہ دلا رہے ہیں کہ ''عوام'' مذکر ہے اور صحیح املا ''دل برداشتہ'' ہے نہ کہ دلبرداشتہ۔
لیکن اثر اس پہ ذرا نہیں ہوتا