ڈی ایم جی کی باقی گروپوں کو اپنے ماتحت کرنے کی ناکام کوشش
پاکستان کی طاقتور بیوروکریسی ملکی ترقی کے فیصلے کرنے میں وہ کردار ادا نہیں کر سکی جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔
پاکستان کی طاقتور بیوروکریسی ملکی ترقی کے فیصلے کرنے میں وہ کردار ادا نہیں کر سکی جس کی اس سے توقع کی جا رہی تھی۔ سول بیوروکریسی میں بروقت فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ یہی ہے کہ ان میں عوامی امنگوں کے مطابق اہلیت ہی نہیں ہے۔
اگر کوئی فیصلہ کیا بھی جاتا ہے تو وہ قانون کی حکمرانی کو مدنظر رکھنے کی بجائے حکمرانوں کی خواہش کے تابع کیا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ بیوروکریسی کی اکثریت نے بعض بیوروکریٹس کے بارے میں یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ ان کا تعلق پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی اے ایس) کی بجائے آئی سی ایس (اتفاق سول سروس) سے ہے۔
سول بیوروکریسی کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً ایسے افسران کو اہم ترین عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے جو کہ تر بیت، قابلیت اور فٹنس کے معیار پر پورا نہیں اُترتے اور اپنے آپ کو ریاست کا ملازم سمجھنے کی بجائے حکمران جماعت یا حکمرانوں کا ذاتی ملازم سمجھتے ہیں۔ سول سرونٹس کے جوہر یا قابلیت کو جانچنے کے پراپر مواقع کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر تمام سول سرونٹس کے لیے ترقی اور اپنے آپ کو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ثابت کرنے کے لیے یکساں مواقع دستیاب نہ ہونا بھی اس کی ناکامی کے اہم جزو ہیں۔
فیصلہ سازی کا عمل بہت حد تک سیاست زدہ اور مرکزیت کا شکار ہے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل یا تقسیم کرنے سے عموماً راہِ فرار اختیا رکی جاتی ہے۔ اگر سول سرونٹس حکمرانوں کی خواہشات پر عملدرآمد نہیں کرتے تو اُنہیں فوراً تبادلے یا ملازمت سے برطرفی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے میں تسلسل نہیں رہتا اور نہ ہی متوقع نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سول بیوروکریسی میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افسروں کو اتنا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں' اس وجہ سے کرپشن، بدانتظامی اور اس طرح کے دوسرے واقعات جنم لیتے ہیں۔
فرسودہ اور پرانے قوانین جن کو موجودہ دور کے جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی از حد ضرورت تھی، نظرانداز کر دیا گیا، سول بیوروکریسی کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے، اس کے علاوہ سالانہ کارکردگی کا فرسودہ نظام جو کہ اعلیٰ افسران کی ذاتی پسند نا پسند یا خواہشات پر مبنی ہوتا ہے، بھی بیوروکریسی کے گرتے ہوئے معیار کی ایک بڑی وجہ ہے۔
پرفارمنس ایویلیوایشن رپورٹ (پی ای آر) کو تو اب ''پرفارمنس ایویلوایشن ریوینج'' کہا جانے لگا ہے۔ ایسی رپورٹ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ ناپسندیدہ اور راندۂ درگاہ افسر سے انتقام کیسے لینا ہے جو معیار پروفارما میں مقرر کیے گئے ہیں انھیں تو بالکل بھی فالو نہیں کیا جاتا، اس پر اعلیٰ عدالتیں بھی متعدد بار ریمارکس دے چکی ہیں کہ یا تو پی ای آر کو ختم کر دیا جائے اور اگر کسی اعلیٰ افسر نے ماتحت افسر کو بدنیتی سے اچھی رپورٹ دی ہے جس کا وہ مستحق نہیں تھا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ پروفارما میں آؤٹ اسٹینڈنگ کا خانہ ہی نہیں رکھا گیا، اس کے باوجود ذاتی پسند کی بنیاد پر آؤٹ اسٹینڈنگ رپورٹ دی جاتی ہے۔ اس اقدام نے سارے نظام کو ہی مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں فوج کے نظام کو فالو کرنا چاہیے، فوج میں جس کو آؤٹ اسٹینڈنگ رپورٹ دینی ہو، اس کا پہلے سے متعلقہ افسر کو بتا دیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر انصاف پر مبنی پی ای آر نہ دی گئی تو ایسی رپورٹ کی اہمیت اور افادیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔
بیوروکریسی کا عوام کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اور عوام کے مسائل حل کرنے میں عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ نتائج کے لیے اندرونی احتساب اور سزا اور جزا کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ ہماری نظر میں سول سروسز اصلاحات کے بنیادی دو مقاصد ہونے چاہئیں' ایک یہ کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کی جائیں جس سے عام آدمی کا معیار ِ زندگی بہتر ہو اور اسے ایک ایسا نظام میسر آئے، جس میں ان کے مسائل احسن طریقے سے حل ہو سکیں۔ دوسرا یہ کہ ملکی سطح پر اگر کوئی پاکستانی یا غیر ملکی باہر سے آ کر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو اُسے افسر شاہانہ خویش پروری سے بچایا جا سکے۔
ایک وقت تھا جب بیوروکریسی میں قابل ترین افسران شامل ہوتے تھے لیکن بدقسمتی سے اب ایسا نہیں ہے' سول سروس میں ایسی اصلاحات کی جائیں جو دوبارہ ملک کے ذہین ترین لوگوں کے لیے باعث ِ کشش بن سکیں۔ موجودہ نظام کے تحت، وفاقی سطح پر ایک آل پاکستان یونیفائیڈ گریڈ (اے پی یو جی) نظام ہے۔
جس میں ڈی ایم جی، پولیس سروسز آف پاکستان اور سیکریٹریٹ گروپ کے لوگ شامل تھے جب کہ فیڈرل یونیفائیڈ گریڈ میں اکاؤنٹس گروپ' کامرس اینڈ ٹریڈ' کسٹم اینڈ ایکسائز' فارن سروس آف پاکستان، ان لینڈ ریونیو سروس (آئی آر ایس) انفارمیشن گروپ' ایم ایل اینڈ سی گروپ' آفس مینجمنٹ گروپ' پوسٹل گروپ اور ریلوے گروپ شامل ہیں لیکن اچانک ڈی ایم جی والوں نے کمال فنکاری اور مہا کلاکاری سے خفیہ طریقے سے دو ایس آر اوز کے ذریعے آل پاکستان یونیفائیڈ گریڈ (اے پی یو جی) کو ختم کر کے صرف پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) میں تبدیلی کروا لی اور فیڈرل یونیفائیڈ گریڈ میں شامل لاوارث اور بیچارے ''شودر'' گروپوں کو اپنے گروپ کے ماتحت کرنے کی کوشش کی تو سیکریٹریٹ گروپ جو اے پی یو جی کا حصہ تھا، اس غیرمنصفانہ فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں چلا گیا اور موقف اختیار کیا کہ ''قواعد و ضوابط میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی''۔
متذکرہ دعویٰ ابھی تک عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت ہے' اس وجہ سے ان کی تمام گروپوں کو اپنے ماتحت کرنے کی آخری خواہش فی الحال تو پوری نہیں ہو سکی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ فیڈرل یونیفائیڈ گریڈ کے گروپوں کو اس خفیہ واردات کی کچھ سمجھ ہی نہیں آ سکی کہ ان کا حق کس طریقے سے مارا جا رہا ہے' وہ تو لگتا ہے کہ ''دھنیا'' پی کر سوئے ہوئے ہیں۔
اگر خدانخواستہ طاقتور ''برہمن گروپ'' تمام گروپوں پر قبضہ کے مقصد میں کامیاب ہو گیا تو باقی گروپ اپنی بقیہ عمر اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہی گزار دیں گے اس لیے انھیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے کمر کس لینی چاہیے اور اپنے اپنے گروپ کی خودمختاری اور انفرادیت قائم رکھنے کے لیے دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے اور اس پر ڈٹ جانا چاہیے تا کہ کسی بھی گروپ کی اجارہ داری قائم نہ ہو سکے۔
اسی صورت میں ہی ملک غیر معمولی ترقی کر سکتا ہے۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ تمام گروپوں پر اجارہ داری قائم کرنیوالوں نے اپنی ''مثالی کارکردگی'' کی وجہ سے ملک کا یہ حال کر دیا ہے، وہ نجانے دوسرے گروپوں کو اپنے ماتحت کر کے ملک کو کس جانب لے جانا چاہتے ہیں؟ سب گروپوں کی تقرری فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے، ان کے تقرری کے طریقہ کار کو بھی از سر نو دیکھا جانا ضروری ہے، تا کہ مطلوبہ اہلیت' معیار اور قابلیت والے لوگ سامنے آ سکیں، جس کے لیے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو اپنے طریقہ کار اور نظام میں مزید شفافیت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پبلک سروس کمیشن کو امیدواروں کی ذہنی صلاحیتوں کو پرکھنے کے طریقہ کار کو موجودہ دور کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق بنانا چاہیے۔
اب تک تو زیادہ تر منفی دیانتدار، مردم بیزار اور غیر معمولی صلاحیتوں سے عاری افسروں کا ہی انتخاب کیا گیا ہے' اسی وجہ سے اعلیٰ ترین سروس تیزی سے روبہ زوال ہو رہی ہے۔ سپیرئیر سروسز کا تصور ختم کیا جائے اور تمام کیڈر سروسز اور ایکس کیڈرز کو برابر اور یکساں اہمیت دی جائے۔ تمام سروس گروپس کو کیرئیر میں ترقی اور سینئر مینجمنٹ پوزیشنز پر تعیناتی کے وقت یکساں مواقع حاصل ہونے چاہییں۔ معیار، قابلیت اور تخمینہ لگانے کے پیمانے تمام لوگوں کے لیے ایک جیسے ہونے چاہئیں۔
کارکردگی جانچنے کے نظام کو جس حد تک ممکن ہو شفاف اور مطلوبہ معیار کے مطابق بنایا جائے۔ لوگوں کو ان کے معاوضے ان کی قابلیت، معیار اور تعیناتی کے مطابق دیے جائیں۔ فیلڈ میں تعینات ہونے والے تمام سول سرونٹس کو ٹارگٹ دیے جائیں اور اگر وہ بروقت ٹارگٹ حاصل نہ کر سکیں تو ان کو کڑے احتساب سے گزارا جائے، اسی سلسلے میں کارکردگی یا انضباطی قواعد کا ازسرنو جائزہ لینا بھی ضروری ہے تا کہ بیوروکریسی کو اُسی حساب سے قابل مواخذہ اور جوابدہ بنایا جا سکے۔
ایسٹا کوڈ' رولز آف بزنس اور آڈٹ رولز کو از سر نو ترتیب دیا جائے، تا کہ لوگوں کی مکمل جوابدہی ہو سکے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اس سلسلے میں ایک اہم اور فعال کردار دیا جائے تا کہ وہ بھی لوگوں کو قابل مواخذہ بنا سکے۔
وزیر اعظم کے ترقی' تقرری اور تبادلو ں میں صوابدیدی اختیارات ختم کیے جائیں، اسی طرح فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو ترقی کے معاملات میں مکمل با اختیار کیا جائے۔ اسی طرح سول بیوروکریسی کی تربیت پر بھی موجودہ دور کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان کی فوج کی طرز پر کیرئیر پلاننگ ہونی چاہئیں، ہو سکتا ہے اس سے اس اعلیٰ ترین سروس کو زوال سے بچایا جا سکے۔
گزشتہ دنوں اِن لینڈ ریونیو اکیڈمی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری کرامت اللہ ہمیں ملنے آئے۔ انھوں نے ہمیں اپنے اور اپنے ساتھیوں کیساتھ رونگٹے کھڑے کر دینے والی صریحاً زیادتی کے بارے میں بتایا تو ہم بھی حیران رہ گئے کہ حکمرانوں کی انڈر 19 ٹیم ان سے کیسے کیسے انصاف سے عاری فیصلے کروا رہی ہے' اس سے بے مقصد کاموں میں الجھے حکمران کس قدر عوام میں غیر مقبول ہو رہے ہیں۔ چوہدری کرامت اللہ نے ہمیں بتایا کہ فروری 2014ء کو سینٹرل سلیکشن بورڈ (سی ایس بی) کا اجلاس ہوا۔
سی ایس بی تقریباً 14 ارکان پر مشتمل بورڈ ہے جو 19 سے 20 اور 20 سے 21 گریڈ کی وفاقی حکومت کے سرکاری ملازمین کی ترقی کے لیے سفارشات بھیجتا ہے۔ آئی آر ایس گریڈ 19 سے 20 کے لیے بورڈ نے 47 ناموں کی سفارش کی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم آفس نے سی ایس بی کی سفارشات کو نظر انداز کرتے ہوئے 47 میں سے 18 لاوارث ناموں کو واپس سی ایس بی کو بھیج دیا اور باقی طاقتور میرٹ والے افسروں کو ترقی کا مستحق قرار دیدیا گیا۔
اس فیصلے کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ان افسران کی عمومی شہرت، ان کے بارے میں رائے عامہ یہ ہے کہ یہ افسر بدعنوان ہیں۔ یہی سلوک تمام گروپس کے آفیسرز کے ساتھ کیا گیا۔ اس وقت تمام افسران عدالتوں میں گئے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح طور پر قرار دیا کہ وزیراعظم کے پاس اس طرح کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ آفیسرز کو اگلا گریڈ دیدیں اور کچھ کو نہ دیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی وزیراعظم کے اس طرح کے صوابدیدی اختیارات کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیدیا۔ اس وقت معاملہ سپریم کورٹ میں ہے جہاں عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا ہوا ہے۔
مجھے باقی گروپس کے آفیسرز کا تو پتہ نہیں لیکن اپنی سروس (آئی آر ایس) کا پتہ ہے۔ ترقی پانے والے طاقتور افسروں میں ایسے افسران بھی شامل ہیں جن کے بارے میں محکمے کا ہر بندہ جانتا ہے کہ انھوں نے کرپشن میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اس کے مقابلے میں میرے جیسے لاوارث آفیسر ہیں جنھوں نے ہمیشہ میرٹ پر ایمانداری سے کام کیا۔
ان کو بدعنوان قرار دے کر ترقی سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کیا ایک کرپٹ افسر گریڈ 19 سے 20 میں ترقی نہ پانے سے کرپشن چھوڑ دیگا؟ کیا کسی کرپٹ افسر کے خلاف مکمل ثبوتوں کے ساتھ کارروائی نہیں کرنی چاہیے؟ ہمارے آج کے انحطاط پذیر معاشرے میں ایمانداری اور میرٹ پر کام کرنے والے ماتحت سے کون خوش ہو سکتا ہے؟ عام تاثر یہ ہے کہ وزیراعظم دفتر کے کچھ بااثر اور طاقتور بیورو کریٹس نے ڈی ایم جی کے اپنے کولیگز کیساتھ پرانے حسابات چکانے تھے۔
ان حسابات کو چکاتے چکاتے انھوں نے ہم جیسے کام سے کام رکھنے والوں کو بھی رگڑا دیدیا۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ مہا کلاکار اور فنکار افسروں نے حالات کو سمجھتے ہوئے وزیراعظم آفس تک رسائی حاصل کر لی اور اپنے نام نکلوانے اور لاوارث افسروں کے نام شامل کرنے کے لیے بعض طاقتور افسروں کی خدمات بھی حاصل کر لی ہیں۔
یہ واضح ہے کہ ایک لاوارث ایماندار افسر ایسے طاقتور افسروں کی خدمات حاصل کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ آج کل کے مہنگائی کے دور میں حق حلال کی تنخواہ کیساتھ تو گھر کا دال دلیا ہی چل جائے تو بڑی بات ہے۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ بہت سے سرکاری افسران بدعنوان اور نااہل ہیں، لیکن کیا حکومت کے پاس نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ، محکمانہ انضباطی کارروائی وغیرہ تمام چیزیں میسر نہیں ہیں؟ کیا ایک بدعنوان اور نااہل افسر کو ان اداروں کے ذریعے ملازمت سے ہی نہیں نکال دینا چاہیے بلکہ جیل میں ڈالنا چاہیے اور اس کی تمام ناجائز دولت بحق سرکار ضبط کر لینی چاہیے۔
اس کے برعکس ایک فرد واحد کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اس طرح کے سنگین الزامات لگا کر اہل اور دیانتدار افسروں کو سزا دی جانی کیا مناسب ہے؟ یقین مانیئے جب مجھے پتہ چلا کہ وزیراعظم نے میرا اور میرے دیگر ساتھیوں کا نام ڈراپ کر دیا ہے، تو مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اور میرے جیسے دیگر لاوارث' دیانتدار ساتھیوں نے بزعم خود جو نیک نامی کمائی تھی' وہ تمام کی تمام غارت ہو گئی۔ اس وقت سے لے کر اب تک میں اس عذاب سے گزر رہا ہوں۔ وزیراعظم صاحب کو شاید علم بھی نہ ہو کہ ان کے انڈر 19 ٹیم کے چہیتے بیورو کریٹ ان کے ہاتھوں کس قسم کی سنگین ناانصافی سرزد کروا رہے ہیں۔
وزیراعظم آفس نے سی ایس بی کی سفارشات کو جس طرح خالصتاً ذاتی پسند و ناپسند سے جوڑ کر کچھ افسروں کو ترقی دی اور کچھ کو نہیں دی' اس سے مستقبل میں سی ایس بی کی اہمیت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک اعلیٰ سطحی ادارہ بیوروکریٹس کی ترقی کے لیے قائم کیا ہوا ہے تو اس کو مضبوط کریں نہ کہ اس کی اہمیت اور ساکھ کو بالکل ختم کر دیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فردِواحد تقریباً 10/12 ماہرین کی متفقہ رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مرضی کرتا ہے' صرف میری رائے میں سی ایس بی کو مکمل بااختیار ادارہ بنایا جائے' اس کی سفارشات وزیراعظم کے لیے حتمی ہوں اور ایک رسمی منظوری کے علاوہ وزیراعظم آفس اس میں کچھ مزید کمی بیشی نہ کر سکے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ نااہل یا بدعنوان افسروں کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے؟ اس کا جواب بڑا واضح ہے' وہ یہ کہ ہمارے ہاں سول سرونٹس ''ای اینڈ ڈی رولز'' (ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن رولز) 1973ء، کنڈکٹ رولز، نیب، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ، ایف آئی اے، آئی بی وغیرہ ایک سے زیادہ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سول سرونٹ نے ہر سال اپنے اثاثوں کی تفصیلات دینا ہوتی ہیں۔ اگر کوئی افسر کرپشن سے اثاثے بنا رہا ہو گا تو اسی زمین پر ہی بنا رہا ہو گا۔
اس کے خلاف مکمل ثبوت کیساتھ کارروائی کی جائے، پھر سزا صرف یہ نہ ہو کہ گریڈ 19 سے 20 یا 20 سے 21 میں ترقی روک دی جائے بلکہ اس کو نوکری سے نکال دیا جائے، اس کے تمام اثاثہ جات ضبط کر لیے جائیں اور اسے جیل میں ڈالا جائے تا کہ وہ صحیح معنوں میں نشانِ عبرت بن جائے جسے دیکھ کر اس طرح کے دیگر کرپٹ افسروں کو بھی کان ہو جائینگے۔
بدعنوان افسران سول سروس اور معاشرے کا ناسور ہیں لیکن افسوس کی بات ہے وزیراعظم آفس نے بہت سے جانے مانے کرپٹ افسروں کو ترقی دی اور کئی انتہائی دیانتدار افسروں کے بارے میں بہتان آمیز باتیں لکھ کر ترقی روک دی۔ ایک مشہور قانونی مقولہ ہے کہ ایک سو گنہگاروں کا بچ جانا بہتر ہے، بہ نسبت ایک بیگناہ کے پھانسی چڑھ جانے کے، لیکن وزیراعظم آفس نے اس کے بالکل برعکس کیا ہے۔ متاثرہ افسران جس ذہنی اذیت اور کرب سے گزر رہے ہیں۔
اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ کو یقینا ہے کیونکہ وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے لیکن وزیراعظم آفس میں بیٹھے ہوئے فتویٰ سازوں کو اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ بہرحال ایک حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہم سب نے اپنے ایک ایک عمل کا جواب دینا ہے اور اگر ہم نے کسی کیساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جب تک اس کا ازالہ نہ کر لیں ہماری جان بخشی نہیں ہو سکتی۔