بائیومیٹرک حاضری

سرکاری دفاتر میں استادوں کے بھی استاد بیٹھے ہیں، جو کسی وقت بھی حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرکے غائب ہو جاتے ہیں


ظفرالحق میمن April 19, 2015
ہم نے جس طرح قائداعظم کے دوسرے فرامین، اتحاد اور یقین محکم کا حشر کیا کیا وہی حشر ہم نے تنظیم کا بھی کیا۔فوٹو:فائل

کچھ دن ہوئے کہ صوبہ کے پی کے 2 سرکاری محکموں میں بائیومیٹرک حاضری کا نظام نافذ کیا گیا ہے، جس کے تحت ان محکموں کے ملازمین روزانہ صبح ایک مشین میں اپنا نام اور انگلی کا نشان ڈالیں گے اور اس کے بعد جس وقت اور جتنی دفعہ بھی وہ باہر جائیں گے اور داخل ہونگے، تو پھر یہی عمل دہرائیں گے۔

در اصل تو یہ نظام تو 15 اگست 1947 کی صبح سے ہی نافذ کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ یہ تو قائداعظم کے3رہنما اصولوں میں سے ایک تھا، یعنی اتحاد، یقین محکم اور تنظیم۔ مزے کے بات یہ ہے کہ کچھ دنوں یا سالوں بعد قائداعظم کے ان رہنما اصولوں کی ترتیب کو بھی تبدیل کرکے یقین محکم، اتحاد اور تنظیم کردیا گیا۔ ان تبدیل کرنے والوں کا منشا کیا تھا، یہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانے۔ خیر بات ایک ہی ہے۔17 سال بعد 1964میں، مجھے خواجہ معین الدین کا ایک اسٹیج ڈرامہ تعلیم بالغاں دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں اسٹیج پر 3 ٹوٹے ہوئے مٹکے رکھے ہوئے تھے۔ایک پر اتحاد، دوسرے پر یقین محکم اور تیسرے پر تنظیم لکھا تھا۔

آیا ان رہنما اصولوں کا ذکر خیر قائد کی11اگست1947 کی تقریر میں بھی شامل تھا، اس بارے میں، میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا،کیوں اس تقریرکے متن کے بارے میں کچھ اختلاف ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان کی وہ تقریر کہاں ہے۔ البتہ چند دن پہلے سندھ کے سینئر وزیر، جن کے پاس تعلیم کا محکمہ بھی ہے، نے یہ انکشاف کیا کہ وہ تقریر نصابی کتابوں میں شامل کی جارہی ہے۔

خدا کرے کہ ان کی وہ تقریر من و عن شامل کی جائے۔ بہرحال سندھ حکومت کا یہ کارنامہ قابل ستائش ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے، یہ نظام قائد اعظم کے فرامین کی روشنی میں نافذ ہونا چاہیے تھا،گو کہ اس زمانے میں بائیومیٹرک یا کوئی اور مشینیں نہیں تھیں، لیکن جیسا کہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی تھی، جو خود بھی وقت کی پابندی کرتا تھا اور قائداعظم بھی۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم نے جس طرح قائداعظم کے دوسرے فرامین، اتحاد اور یقین محکم کا حشر کیا کیا وہی حشر ہم نے تنظیم کا بھی کیا۔

اب سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ان مشینوں کو چلنے بھی دیا جائے گا، کیونکہ ہمارے لوگ جنھوں نے فاقہ مستی اور مادر پدر آزادی سے67 سال گذارے ہیں، وہ اس پابندی کو اتنی آسانی سے قبول نہیں کریں گے۔ یقینی طور پر یہ مشینیں بجلی پر چلیں گی، جس کی لوڈ شیڈنگ کے وقفے اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ یہ مشینیں اپنا کام نہیں کر پائیں گی۔

یہ بھی یقین ہے کہ جن لوگوں نے یہ مشینیں لگائی ہیں، انھیں لوڈشیڈنگ کا ادراک ہوگا اور انھوں نے ان مشینوں پر جنریٹر بھی لگائے ہونگے۔ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ جنریٹر بھی ناکارہ نہیں کیے جائیںگے، جیسا کہ اکثر بینکوں میں جب بھی ڈکیتیاں ہوتی ہیں، تو ان کی سی سی ٹی وی فوٹیج ناکارہ ہوتی ہیں یا جب اندرون علاقوں میں جب بھی کوئی سڑک کا حادثہ ہوتا ہے تو قریبی اسپتال میں ایمبولینس یا تو ہوتی ہی نہیں ہے یا ہوتی ہے تو وہ ڈاکٹر صاحب کی فیملی کے زیر استعمال ہوتی ہیں یا اینٹوں پر کھڑی ہوتی ہیں۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا یہ نظام محکمے کے افسر اعلیٰ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ملازم پر یکساں لاگو ہوگا کہ نہیں۔ ایسا تو نہیں ہوگا کہ بڑے افسران، چونکہ اکثر دوروں پر یا صدر دفتروں میں میٹنگوں میں ہوتے ہیں، اس لیے ان کو استثنا ہوگا؟

میرا ایک دوست ایک بینک کا زونل ہیڈ تھا۔ ایک دن اس نے ایک برانچ میں 2 بجے فون کیا۔ معلوم ہوا کہ منیجر صاحب کسی پارٹی سے ملنے گئے ہیں۔ جب سیکنڈ افسر سے اس پارٹی کا فون نمبر مانگا گیا، تو وہ گو مگو کے عالم میں مبتلا ہو گیا (اس زمانے میں موبائل فون نہیں ہوتے تھے)۔ آخر یہ عقدہ کھلا کہ دونوں صاحبان کے درمیان ایک سمجھوتہ تھا کہ وہ باری باری ایک دن چھوڑ کر کیش بند کرکے گھر کو سدھارتے تھے اور بیگم صاحبہ کے ہاتھ کی توے سے اتری ہوئی گرم گرم روٹیاں توڑتے تھے اور اس کے بعد گھوڑے بیچ کر آرام فرماتے تھے۔

ہماری عادتیں67 سالوں سے اس طرح بھی خراب ہوئی ہیں کہ سرکاری دفاتر میں ہم نماز ظہر اور دوپہر کے کھانے کے لیے جو 45 منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، اس کی تعمیل نہیں کرتے۔ نماز، اس کے بعد تبلیغی درس، اس کے بعد کھانا، اس کے بعد ٹھیلے پر چاٹ یا فروٹ کھانا، یہ سب دو ڈھائی گھنٹوں کا عمل ہوتا ہے۔ اس کے بعد دفتر واپس آکر گھر واپسی کی تیاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

جب کہ عرب ممالک میں دفتری اوقات میں لوگ دفتر کے ہی ایک کمرے میں، باری باری اکیلے ظہر کی صرف 4رکعات فرض ادا کر لیتے ہیں، کوئی جماعت نہیں ہوتی۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ صرف اسکول ماسٹر اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر سر انجام نہیں دیتے اور وہ گھر بیٹھے تنخواہیں بٹورتے ہیں، لیکن سرکاری دفاتر میں ان استادوں کے بھی استاد بیٹھے ہوتے ہیں، جو کسی وقت بھی حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرکے غائب ہو جاتے ہیں (ان کا صبح سویرے وقت پر آنا بھی ضروری نہیں ہوتا) اور باہر خانگی نوکریاں یا کاروبار کرتے ہیں یا افسرانِ اعلیٰ کے کاروبار سنبھالتے ہیں۔ وہ یا روزانہ دفتر آکر رجسٹر پر دستخط بھی نہیں کرتے اور ان کو حاضری سے استثنا حاصل ہوتا ہے اور ہفتے یا مہینے میں ایک دفعہ آکر پورے ہفتے یا مہینے کے دستخط ثبت کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں