قصہ یرغمال زندہ لاشوں کا

اعلیٰ اقدار کی حامل مغربی جمہوریتوں میں عوامی، سیاسی شخصیات کی کوئی خانگی زندگی نہیں ہوتی

KARACHI:
اعلیٰ اقدار کی حامل مغربی جمہوریتوں میں عوامی، سیاسی شخصیات کی کوئی خانگی زندگی نہیں ہوتی اس کی چھان بین عوام کا حق ہوتا ہے کیوں کہ وہ سیاسی حکمرانوں کو قوم اور ملک کے مستقبل کے فیصلے کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی شخصیات کا ناقابل برداشت اور ناقابل معافی جرم قوم سے جھوٹ بولنا قرار پاتا ہے، وہ جھوٹوں کو گھر بھیج کر ہی دم لیتے ہیں۔

کراچی والوں کا المیہ یہ ہے کہ سردی کی لہر کوئٹہ سے، لوکے تھپیڑے تھرپارکر سے، پانی دریائے سندھ سے، گندم پنجاب سے، بیوروکریسی اسلام آباد، طالبان افغانستان سے اور تڑیاں بنی گالہ سے آتی ہیں۔ پاکستان کا ہر مسئلہ 90 دن میں حل کردینے کے دعویدار سچ بولنے کے ٹھیکیدار، وزارت عظمیٰ کے امیدوار آزاد کشمیر کے انتخابی جلسے میں فرماتے ہیں ''کراچی کے جناح گراؤنڈ میں الطاف حسین کے جلسوں میں شرکت کرنے والے زندہ لاشیں ہیں، جو الطاف حسین کے اشارے پر ہنستے ہیں تاکہ کوئی گولی نہ ماردے۔''

چنانچہ وہ 19 اپریل کوکراچی تشریف لائیں گے تاکہ MQM کے یرغمالیوں کو آزاد اور زندہ لاشوں کا خوف دورکریں کیونکہ الطاف حسین سیر ہے تو وہ سوا سیر ہیں، ان کے کریڈٹ پر بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ پر قبضہ کرنا اور PTV کی نشریات میں خلل ڈالنا، عوام کو سول نافرمانی پر اکسانا ہے، جس کے خلاف آج تک کسی مائی کے لعل نے انگلی اٹھائی اور نہ ہی کسی نڈر اینکر پرسن نے زبان ہلائی۔

MQM کے بانی، نگران اور روح رواں الطاف حسین ہیں جو جگت الطاف بھائی اور سیاسی حلقوں میں قائد تحریک کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ بحیثیت تنظیم MQM کے بھی حصے ہیں۔ Aووٹرز، B کارکن، Cقیادت۔

A: MQM کی طاقت کا سرچشمہ اس کے لاکھوں اردو اسپیکنگ مہاجر ووٹرز ہیں جو پاکستان بنانے کی پاداش میں 20 لاکھ جانوں کا نذرانہ دے کر اور اربوں روپے کی غیر منقولہ جائیداد چھوڑ کر بھارت کے ترقی پذیر صنعتی، تجارتی، زراعتی علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان کے پسماندہ، جاگیرداری، قبائلی، سرداری نظام میں جکڑے ہوئے علاقوں کی طرف آئے اور کراچی کے ہندو، عیسائی، پارسی، اکثریتی علاقے میں کھلے آسمان تلے، ببول کی جھاڑیوں سے اٹے ریتیلے میدانوں میں جھگیوں کے شہرکے شہر آباد کیے اور زیرو میٹر سے اپنی نئی زندگی کا آغازکیا۔

(2) اردو اسپیکنگ مہاجر بیوروکریسی نے پاکستان کی انتظامیہ کا کنٹرول سنبھالا، اس وقت جب پاکستان کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے فنڈز نہیں تھے۔
(3) ریاست حیدرآباد دکن کا سونا منتقل ہوا اور پاکستان کی کرنسی جاری ہوئی۔
( 4) بھارت سے دیو قامت مہاجر صنعت کار سرمایہ لے کر آئے اور کراچی میں صنعتوں کا جال بچھادیا اس طرح کراچی پاکستان کا معاشی حب۔ 70 فی صد ٹیکس دینے والا شہر بنا۔
(5) ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی لاکھوں ایکڑ زرعی زمینوں پر وڈیروں، جاگیرداروں نے قبضہ کرلیا۔ جب گلشن کا کاروبار چلنے لگا اورکراچی منی پاکستان بنا۔ غریب نواز شہرکہلایا ۔ پھر یکایک فرزند زمین (Son of the Soil)کی ولادت باسعادت ہوئی۔ مہاجروں کو سمندر میں غرق کرنے کی دھمکیاں دیے، فیلڈ مارشل تشریف لائے، ان کے ولی عہد نے کراچی پر لشکر کشی کردی۔

یوں مہاجر، پٹھان فسادات کرانے کی پہلی سازش کا آغاز ہوا۔ اس وقت MQM کی موجودہ قیادت شاید پیدا بھی نہیں ہوئی تھی اگر ہوئی بھی تھی تو پرائمری کلاسوں میں دو کا پہاڑا یاد کررہی ہوگی۔ پاکستان کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ مہاجر بیوروکریسی گھریلو سامان، بال بچوں سمیت بذریعہ ریل اسلام آباد روانہ ہوئی، کچھ ہی عرصے بعد سامان اونے پونے بیچا، نوکری سے استعفیٰ دے فیملی کے ساتھ کراچی واپس آگئے۔ یاد رکھیں! ایک آدمی آپ پر گن تان لیتا ہے اور دوسرا آپ کے منہ کا نوالہ چھین لیتا ہے دونوں قاتل ہیں، ایک کی گولی سے تو دوسرے کے عمل بھوک سے جان جاسکتی ہے۔

اس کے بعد دوسری سازش مہاجروں کو سندھی بھائیوں سے لڑانے کے لیے گئی لسانی فسادات کرائے گئے، خوش قسمتی سے مسٹر بھٹو زندہ تھے انھوں نے فوری PTV پر آکر سندھی میں سندھیوں کو اور اردو میں مہاجروں کو تنبیہ کی، اونچ نیچ سمجھایا اور سیاسی حل نکالا۔ اس کے بعد کراچی کے کارخانوں میں گھیراؤ جلاؤ شروع ہوا۔


کارخانوں کو تالے لگ گئے، مہاجرصنعتکاروں کی اکثریت ملک چھوڑ گئی، اس وقت مہاجرین کا کوئی سیاسی لیڈر تھا ہی نہیں، قابل احترام مذہبی شخصیات سے کام چلایا جارہاتھا جو اردو اسپیکنگ مہاجرین سے زیادہ ان کی کھالوں (قربانی کی) میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ کوٹہ سسٹم نے رنگ جمایا، داخلے کے وقت باپ کی جائے پیدائش نوکری کے انٹرویو میں دادا کی جائے پیدائش پوچھی جانے لگی۔

نوکریوں کے اشتہارات کے آخر میں لکھا جانے لگا کہ پورے ملک میں صرف کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے امیدوار درخواست دینے کی زحمت نہ کریں، احساس محرومی پہ مٹی پاؤ اردو اسپیکنگ سخت عدم تحفظ کا شکار ہوگئے، کنفیوژن کا شکار ہوگئے کہ کیا دوسرے درجے کے شہری، رعایا بن کر رہنا ہے ورنہ سمندر میں غرق ہونا ہے؟ آخر مسئلہ کیا ہے؟ استاد قمر جلالوی سمجھاتے ہیں جب

جب چمن کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا، تمہارا نہیں

مہاجر بزرگ اس شعرکوگنگنا کر رہ گئے۔ مہاجر لڑکوں نے اس کو گانا شروع کردیا اور بجانا بھی۔ MQM کا قیام حالات کا تقاضا، محرومیوں کا رد عمل اور مہاجر بزرگوں کی ناکامیوں کا نتیجہ تھا جو پارٹیاں کسی کی سرپرستی میں بنتی ہیں اپنے سرپرستوں کے ساتھ دفن بھی ہوجاتی ہیں۔MQM کے ساتھ تو سانحات کی سیریز چل پڑی۔ سانحہ سہراب گوٹھ، سانحہ پکا قلعہ، سانحہ حیدرآباد، سانحہ علی گڑھ، سانحہ کٹی پہاڑی، آپریشن کلین اپ وغیرہ۔

B: ایم کیو ایم کے ہزاروں منظم اور جان نثار کارکن در اصل MQM کے لاکھوں ووٹرز کی اولاد ہیں، دوسرے معنوں میں MQM کے لاکھوں اردو اسپیکنگ ووٹرز، MQM کے ہزاروں اردو اسپیکنگ کارکنوں کے ماں باپ، بھائی بہن اور عزیز رشتے دار ہیں۔

C: MQM میں پارٹی کی قیادت کا معیار وراثت نہیں بلکہ میرٹ، سینیارٹی اور پارٹی کے لیے دی گئی قربانیاں ہیں، کوئی بھی کارکن اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر پارٹی کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکتا ہے مثلاً کراچی کے سابق سٹی نظام مصطفی کمال 90 میں ٹیلی فون آپریٹر تھے۔

اس وقت حلقہ 246میں انتخابی جنون اپنی انتہا پر ہے، کارکنوں میں نعرے بازی کا مقابلہ، ہاتھا پائی وغیرہ معمول کی بات ہے لیکن اس حلقے میں PTI اور جماعت اسلامی کی قیادت کا جارحانہ رویہ خلاف توقع ہے مثلاً عمران اسماعیل (PTI) ایم کیو ایم کو للکارتے ہیں ''اگر میرے کارکنوں کو خراش بھی آئی تو لندن میں الطاف حسین کے خلاف مقدمہ کروں گا۔

سوال یہ ہے کہ اگر کسی ورکر کو خارش ہوئی تو کیا عالمی عدالت سے رجوع کریں گے؟ امیر جماعت اسلامی سراج الحق انتخابی جلسے میں فرماتے ہیں ''کراچی والے راشد نسیم (جماعت اسلامی کے امیدوار) اور (کنور نوید جمیل) اجمل پہاڑی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں (کیا اس پر تبصرے کی گنجائش ہے؟) لگتا ہے PTI اور جماعت اسلامی عملی مظاہرہ کر کے یہ ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ صرف وہی ہیں جو MQM سے مقابلہ کرسکتے ہیں اور خوف کی فضا ختم کرسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر مخاطب کون ہے؟ اسلام آباد کے ڈی چوک پر تو امپائر نے انگلی کھڑی کرنے کی بجائے انگوٹھا دکھادیا۔
Load Next Story