بھکارن ملکہ…
محل میں بادشاہ کے سب سے قریب والا کمرہ اسے عنایت ہوا، پہلی ملکاؤں کادرجہ کم ہو گیا تھا، نیا کھلونا تو سبھی کوبھاتا ہے۔
KARACHI:
کہتے ہیں کہ کسی ملک میںایک حسن پرست بادشاہ حکومت کرتا تھا، ایک دفعہ اپنی سلطنت میں گشت پر نکلا تو ایک بھکارن پر نظر پڑی اور وہیں تھم کر رہ گئی،گدڑی میں چھپا لعل!!! بادشاہ تھا، جو چاہے کرے ... سو اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اس بھکارن کو محل میں منگوائیں۔ بادشہ کے حکم کی تعمیل کی گئی، بھکارن کو نہلا دھلا کر ، سجا سنوار کر تیارکر کے بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا، بادشاہ سلامت نے قبولیت کی سند بخشی اور اس بھکارن کے نصیب جاگ اٹھے۔ بادشاہ نے اس کے ساتھ شادی کر کے اسے ملکہ کے عہدے پر فائز کر دیا۔ جتنا بھی وہ اپنے نصیب پر فخر کرتی کم تھا۔
محل میں بادشاہ کے سب سے قریب والا کمرہ اسے عنایت ہوا، پہلی ملکاؤں کا درجہ کم ہو گیا تھا، نیا کھلونا تو سبھی کو بھاتا ہے۔ ملکہ کا کمرہ یوں تھا جیسے کوئی عجائب خانہ ہو جہاں دنیا بھر سے قیمتی سے قیمتی پوشاکیں ، نرم سے نرم جوتے اور ہیرے جواہرات کے انبار تھے۔ ملکہ بھی اپنے نصیب پر نازاں اور بادشاہ کو خوش رکھنے میں کوشاں رہتی، کھانے کی جہازی سائز کی میز انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری ہوتی، خادمائیں کھانے کے دوران میز کے چاروں کونوں میں موجود ہوتیں اور کھانے کے تھال اٹھا اٹھا کر لذیذ مرغن کھانوں سے بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ کی پلیٹ کو بھر دیتیں۔ بادشاہ اپنا کھانا کھاتے ہوئے کن انکھیوں سے ملکہ کو دیکھتا رہتا جو کہ کھانے سے گویا کوئی رغبت ہی نہ رکھتی تھی۔
کھانا کم یا نہ کھانے کا نتیجہ چند دن میں نظرآگیا کہ ملکہ کے چہرے کا حسن ماند پڑ گیا، وہ کمزور اور نڈھال رہنے لگی اور بستر سے جا لگی۔ بادشاہ اپنی محبوب ملکہ کا یہ حشر دیکھ کر انتہائی پریشان ہوا اور اپنی سلطنت سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے معالجوں اور طبیبوں کو اپنے ملک میں طلب فرمایا۔ ہر آنیوالا اپنی سی کوشش سے کچھ نہ کچھ تشخیص کرتا مگر کسی علاج سے افاقہ نہ ہو رہا تھا۔ ہوتے ہوتے ملکہ اتنی نڈھال ہونے لگی کہ اس کے بچنے کی امید بھی نہ رہی، بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو ملکۂ عالیہ کے مرض کی تشخیص کر کے اس کا علاج کرے گا اسے انعام اور بخشش سے نوازا جائے گا۔
ایک مجذوب سے بھکاری نے بھی یہ منادی سنی اور اپنی خدمات پیش کیں، ملکہ کے علاج کے لیے آنیوالے ہر معالج کو کئی کئی دن تک محل میں قیام کرنا پڑتا تھا اس لیے مجذوب کے قیام کا بھی بندوبست کیا گیا، اس نے قیام سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ صرف چند گھنٹوں کے لیے ملکہ کے معمولات کا جائزہ لے گا۔
ملک میں ہر شخص جانتا تھا کہ ملکہ کا پس منظر کیا ہے، مجذوب کو بھی علم تھا۔ کھانے کی میز پر لوازمات سجائے گئے اور مجذوب کے کہنے پر ملکہ کو اٹھا کر وہاں بلوایا گیا، اس کے سامنے رکھی چاندی کی پلیٹ جس پر سونے سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، اس میں کھانا ڈالا گیا مگر لا حاصل، ملکہ کو ان لوازمات سے منہ موڑ کر بیٹھے ہوئے دیکھ کر مجذوب ہنسا۔ بادشاہ سے کہا کہ اس نے ملکہ کی بیماری کی جڑ پکڑ لی ہے۔
بادشاہ جاننے کو بے تاب تھا مگر مجذوب نے کہا کہ میں آپ کے وزیر کو کچھ ہدایات دے کر جاتا ہوں ، کل پھر اسی وقت آ کر بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔ وزیر سے اس نے کہا تھا کہ محل کے پچھواڑے کچھ طاقچے بنوا دیں جیسے شمع دان رکھنے کے لیے عموما محلوں میں ہوتے ہیں، اگلے روز مجذوب کے پہنچنے سے پہلے طاقچے تیار تھے، کھانے کا وقت قریب تھا، مجذوب نے کہا کہ کھانے کے تھال محل کے پچھواڑے میں منگوائے جائیں، اس نے طاقچوں میں چھوٹی تھالیاں رکھیں اور ہر تھالی میں کچھ نہ کچھ کھانا ڈال دیا، اس کے بعد اس نے کہا کہ کوئی اس طرف نہ آئے مگر ملکہ کو کھانے کے وقت اس طرف بھجوا دیا جائے۔
سب لوگوں کو باہر بھجوا دیا گیا، مجذوب اور بادشاہ چھپ کر بیٹھ گئے، ملکہ ہولے ہولے چلتی ہوئی اس صحن میں آئی، کمزوری اس کی چال سے ظاہر تھی، پہلے طاقچے کے قریب پہنچی تو کھانے کی خوشبو سونگھ کر قریب گئی اور پلیٹ میں دھرا کھانا خوشی خوشی کھانے لگی، اسے کھا چکی تو اگلے طاقچے کی طرف بڑھی، یوں ہوتے ہوتے اس نے لگ بھگ ہر طاقچے کے پاس رک کر کچھ نہ کچھ کھایا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے پیٹ کے ساتھ ساتھ اس کی نظر بھی بھر گئی۔
'' یہ ہے اس کا اصل مرض بادشاہ سلامت '' مجذوب نے کہا، '' عمر بھر وہ مانگ تانگ کر اور جگہ جگہ سے اٹھا کرکھاتی رہی ہے، آپ نے اسے ملکہ تو بنا دیا مگر اس کی فطرت نہیں بدل سکی جو کہ بدل ہی نہیں سکتی!!''
بہت عرصہ پہلے کی پڑھی ہوئی یہ کہانی میرے دماغ میں اس وقت تازہ ہوئی جب میں اپنی بیٹی مہرین کیساتھ اسلام آباد ہوائی وے پر سفر کر رہی تھی، ائیر پورٹ چوک پر وہ بھکارن مجھے دور سے نظر آئی جسے میں گزشتہ چار برس سے ہر روز صبح سویرے بلا ناغہ، اسی چوک پر، نک سک سے تیار، کسی ملازمت کی طرح یہاں اپنی ڈیوٹی پر پاتی تھی، بھیک مانگتی ہوئی، ہاتھ پھیلا کر، منہ سے رٹی ہوئی دعاؤں کا سبق پڑھتی ہوئی... اس روز اسے دیکھنے کے لیے مجھے اپنی عینک سر سے اتار کر آنکھوں پر لگانا پڑی کیونکہ مجھے اپنی بصارت پر یقین ہی نہ آیا تھا۔ گاڑی رکتے ہی وہ ہماری گاڑی کے قریب آئی تو مجھے اس کے ہاتھ میں ایک ٹوکری سی نظر آئی جس میں ڈھیروں بال پین پڑے ہوئے تھے۔
وہ ہماری گاڑی کی کھڑکی کے قریب کھڑی تھی۔'' جانے کس نے اس کیساتھ نیکی کی ہے، مجھے تو چار سال میں اسے اس ناپسندیدہ کام کو کرتے ہوئے دیکھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی!!'' میں نے خوشی سے اپنی بیٹی کو بتایا، سگنل بند تھا، میں نے بیٹی سے فوراً کہا کہ اپنے پرس سے سو پچاس نکالے اور اس سے بال پین خرید لے، چلو اس کی مدد ہو جائے گی۔
مہرین نے اپنے پرس سے پچاس روپے نکالے، شیشہ نیچے کیا اور اس کے ہاتھ میں نوٹ تھمایا ہی تھا کہ وہ اسے اچک کر چل دی۔'' ہئے... بات سنیں!! '' مہرین نے اسے پکارا، '' میں نے آپ کو بھیک نہیں دی بلکہ آپ سے بال پین خریدنا ہیں مجھے... کتنے کا ہے ایک؟ ''
'' دس روپے کا!! '' اس نے منہ لٹکا کر کہا، مجھے علم تھا کہ یہ بال پین پانچ روپے کا تھا مگر میں نے سوچا چلو بے شک دوگنی قیمت پر دے دے مگر کم از کم بھیک مانگنے سے تو بہتر ہے، اس نے بے دلی سے ایک بال پین اٹھایا اور اسے مہرین کی طرف بڑھایا۔'' پانچ بال پین دیں مجھے!! '' مہرین نے اصرار کیا، وہ اپنے چہرے پر دنیا بھر کی معصومیت اور بے چارگی جمع کرنے لگی۔
'' بیٹا... غریب عورت ہوں ، گھر پر آٹا نہیں ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے، خاوند دنیا میں نہیں ہے... اللہ تیرا سہاگ سلامت رکھے، روضہء رسولﷺ کی زیارت نصیب ہو، تیرے بال بچوں کی خیر ہو، اللہ کے نام پر مدد کر دو بیٹا!!'' اس کی فطرت اس کے الفاظ کی صورت میں ڈھل گئی، اس نے ایک اور بال پین بے دلی سے پکڑایا اور بے نیازی سے منہ موڑ کر تقریبا بھاگتی ہوئی چلی گئی، اس کی اس حرکت پر افسوس بھی ہوا اور دل ہی دل میں ہنسی بھی آئی۔ مجھے اس وقت یہ کہانی یادآئی جو میں نے سالوں پہلے پڑھی تھی۔
وہ وقت گئے جب کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا عزت نفس مجروح کر دیتا تھا، اب تو چپے چپے پر، کسی نہ کسی ڈھونگ کے ساتھ مانگنے والے نظر آتے ہیں، کوئی کسی روپ میں، کوئی کسی میں، ہر کسی کے پاس مظلومیت کی ایک داستان ہے، رٹے رٹائے جملے ہیں، ہاتھ پھیلا کر مانگ کر کھا لینا دنیا کا آسان ترین پیشہ ہے۔
کسی نے اگر اس بھکارن کی مالی مدد کی تو یقیناً اس نیت سے کی کہ مجبور عورت ہے تو بجائے بھیک مانگنے کے ، اس رقم سے کچھ خرید کر اسے منافع پر بیچ کر اپنی گزر اوقات کر لے گی... مگر اس بھکارن کے اندر سے بھیک مانگنے کی instinct نہ ختم کر سکا۔
جب انفرادی کوششیں ناکام ہو جائیں تو ضرورت ہے کہ اجتماعی طور پر ان لوگوں کے لیے کچھ ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جن میں ان کو کام دیا جائے اور ان کی تربیت کی جائے کہ یہ مختلف ہنر سیکھیں۔ سب سے اہم ہے کہ ان کا رابطہ سڑکوں سے منقطع کر دیا جائے، اگر انھیں ان ھی چوکوں پر بال پین، گاڑیاں صاف کرنے کے کپڑے ، ناریل، نمکو، پاپڑ یا کھلونے بیچنے کے لیے کھڑے کردیا تو کوئی شک نہیں کہ ان کی خصلت جاگ اٹھے گی اور انھیں ملکہ بھی بنا دیا جائے تو اندر کی بھکارن موقع پاتے ہی جاگ جائے گی!!!
کہتے ہیں کہ کسی ملک میںایک حسن پرست بادشاہ حکومت کرتا تھا، ایک دفعہ اپنی سلطنت میں گشت پر نکلا تو ایک بھکارن پر نظر پڑی اور وہیں تھم کر رہ گئی،گدڑی میں چھپا لعل!!! بادشاہ تھا، جو چاہے کرے ... سو اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ اس بھکارن کو محل میں منگوائیں۔ بادشہ کے حکم کی تعمیل کی گئی، بھکارن کو نہلا دھلا کر ، سجا سنوار کر تیارکر کے بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا، بادشاہ سلامت نے قبولیت کی سند بخشی اور اس بھکارن کے نصیب جاگ اٹھے۔ بادشاہ نے اس کے ساتھ شادی کر کے اسے ملکہ کے عہدے پر فائز کر دیا۔ جتنا بھی وہ اپنے نصیب پر فخر کرتی کم تھا۔
محل میں بادشاہ کے سب سے قریب والا کمرہ اسے عنایت ہوا، پہلی ملکاؤں کا درجہ کم ہو گیا تھا، نیا کھلونا تو سبھی کو بھاتا ہے۔ ملکہ کا کمرہ یوں تھا جیسے کوئی عجائب خانہ ہو جہاں دنیا بھر سے قیمتی سے قیمتی پوشاکیں ، نرم سے نرم جوتے اور ہیرے جواہرات کے انبار تھے۔ ملکہ بھی اپنے نصیب پر نازاں اور بادشاہ کو خوش رکھنے میں کوشاں رہتی، کھانے کی جہازی سائز کی میز انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری ہوتی، خادمائیں کھانے کے دوران میز کے چاروں کونوں میں موجود ہوتیں اور کھانے کے تھال اٹھا اٹھا کر لذیذ مرغن کھانوں سے بادشاہ سلامت اور ملکہ عالیہ کی پلیٹ کو بھر دیتیں۔ بادشاہ اپنا کھانا کھاتے ہوئے کن انکھیوں سے ملکہ کو دیکھتا رہتا جو کہ کھانے سے گویا کوئی رغبت ہی نہ رکھتی تھی۔
کھانا کم یا نہ کھانے کا نتیجہ چند دن میں نظرآگیا کہ ملکہ کے چہرے کا حسن ماند پڑ گیا، وہ کمزور اور نڈھال رہنے لگی اور بستر سے جا لگی۔ بادشاہ اپنی محبوب ملکہ کا یہ حشر دیکھ کر انتہائی پریشان ہوا اور اپنی سلطنت سے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے معالجوں اور طبیبوں کو اپنے ملک میں طلب فرمایا۔ ہر آنیوالا اپنی سی کوشش سے کچھ نہ کچھ تشخیص کرتا مگر کسی علاج سے افاقہ نہ ہو رہا تھا۔ ہوتے ہوتے ملکہ اتنی نڈھال ہونے لگی کہ اس کے بچنے کی امید بھی نہ رہی، بادشاہ نے منادی کروا دی کہ جو ملکۂ عالیہ کے مرض کی تشخیص کر کے اس کا علاج کرے گا اسے انعام اور بخشش سے نوازا جائے گا۔
ایک مجذوب سے بھکاری نے بھی یہ منادی سنی اور اپنی خدمات پیش کیں، ملکہ کے علاج کے لیے آنیوالے ہر معالج کو کئی کئی دن تک محل میں قیام کرنا پڑتا تھا اس لیے مجذوب کے قیام کا بھی بندوبست کیا گیا، اس نے قیام سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ صرف چند گھنٹوں کے لیے ملکہ کے معمولات کا جائزہ لے گا۔
ملک میں ہر شخص جانتا تھا کہ ملکہ کا پس منظر کیا ہے، مجذوب کو بھی علم تھا۔ کھانے کی میز پر لوازمات سجائے گئے اور مجذوب کے کہنے پر ملکہ کو اٹھا کر وہاں بلوایا گیا، اس کے سامنے رکھی چاندی کی پلیٹ جس پر سونے سے نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، اس میں کھانا ڈالا گیا مگر لا حاصل، ملکہ کو ان لوازمات سے منہ موڑ کر بیٹھے ہوئے دیکھ کر مجذوب ہنسا۔ بادشاہ سے کہا کہ اس نے ملکہ کی بیماری کی جڑ پکڑ لی ہے۔
بادشاہ جاننے کو بے تاب تھا مگر مجذوب نے کہا کہ میں آپ کے وزیر کو کچھ ہدایات دے کر جاتا ہوں ، کل پھر اسی وقت آ کر بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔ وزیر سے اس نے کہا تھا کہ محل کے پچھواڑے کچھ طاقچے بنوا دیں جیسے شمع دان رکھنے کے لیے عموما محلوں میں ہوتے ہیں، اگلے روز مجذوب کے پہنچنے سے پہلے طاقچے تیار تھے، کھانے کا وقت قریب تھا، مجذوب نے کہا کہ کھانے کے تھال محل کے پچھواڑے میں منگوائے جائیں، اس نے طاقچوں میں چھوٹی تھالیاں رکھیں اور ہر تھالی میں کچھ نہ کچھ کھانا ڈال دیا، اس کے بعد اس نے کہا کہ کوئی اس طرف نہ آئے مگر ملکہ کو کھانے کے وقت اس طرف بھجوا دیا جائے۔
سب لوگوں کو باہر بھجوا دیا گیا، مجذوب اور بادشاہ چھپ کر بیٹھ گئے، ملکہ ہولے ہولے چلتی ہوئی اس صحن میں آئی، کمزوری اس کی چال سے ظاہر تھی، پہلے طاقچے کے قریب پہنچی تو کھانے کی خوشبو سونگھ کر قریب گئی اور پلیٹ میں دھرا کھانا خوشی خوشی کھانے لگی، اسے کھا چکی تو اگلے طاقچے کی طرف بڑھی، یوں ہوتے ہوتے اس نے لگ بھگ ہر طاقچے کے پاس رک کر کچھ نہ کچھ کھایا اور ایک وقت ایسا آیا کہ اس کے پیٹ کے ساتھ ساتھ اس کی نظر بھی بھر گئی۔
'' یہ ہے اس کا اصل مرض بادشاہ سلامت '' مجذوب نے کہا، '' عمر بھر وہ مانگ تانگ کر اور جگہ جگہ سے اٹھا کرکھاتی رہی ہے، آپ نے اسے ملکہ تو بنا دیا مگر اس کی فطرت نہیں بدل سکی جو کہ بدل ہی نہیں سکتی!!''
بہت عرصہ پہلے کی پڑھی ہوئی یہ کہانی میرے دماغ میں اس وقت تازہ ہوئی جب میں اپنی بیٹی مہرین کیساتھ اسلام آباد ہوائی وے پر سفر کر رہی تھی، ائیر پورٹ چوک پر وہ بھکارن مجھے دور سے نظر آئی جسے میں گزشتہ چار برس سے ہر روز صبح سویرے بلا ناغہ، اسی چوک پر، نک سک سے تیار، کسی ملازمت کی طرح یہاں اپنی ڈیوٹی پر پاتی تھی، بھیک مانگتی ہوئی، ہاتھ پھیلا کر، منہ سے رٹی ہوئی دعاؤں کا سبق پڑھتی ہوئی... اس روز اسے دیکھنے کے لیے مجھے اپنی عینک سر سے اتار کر آنکھوں پر لگانا پڑی کیونکہ مجھے اپنی بصارت پر یقین ہی نہ آیا تھا۔ گاڑی رکتے ہی وہ ہماری گاڑی کے قریب آئی تو مجھے اس کے ہاتھ میں ایک ٹوکری سی نظر آئی جس میں ڈھیروں بال پین پڑے ہوئے تھے۔
وہ ہماری گاڑی کی کھڑکی کے قریب کھڑی تھی۔'' جانے کس نے اس کیساتھ نیکی کی ہے، مجھے تو چار سال میں اسے اس ناپسندیدہ کام کو کرتے ہوئے دیکھنے کی بھی توفیق نہ ہوئی!!'' میں نے خوشی سے اپنی بیٹی کو بتایا، سگنل بند تھا، میں نے بیٹی سے فوراً کہا کہ اپنے پرس سے سو پچاس نکالے اور اس سے بال پین خرید لے، چلو اس کی مدد ہو جائے گی۔
مہرین نے اپنے پرس سے پچاس روپے نکالے، شیشہ نیچے کیا اور اس کے ہاتھ میں نوٹ تھمایا ہی تھا کہ وہ اسے اچک کر چل دی۔'' ہئے... بات سنیں!! '' مہرین نے اسے پکارا، '' میں نے آپ کو بھیک نہیں دی بلکہ آپ سے بال پین خریدنا ہیں مجھے... کتنے کا ہے ایک؟ ''
'' دس روپے کا!! '' اس نے منہ لٹکا کر کہا، مجھے علم تھا کہ یہ بال پین پانچ روپے کا تھا مگر میں نے سوچا چلو بے شک دوگنی قیمت پر دے دے مگر کم از کم بھیک مانگنے سے تو بہتر ہے، اس نے بے دلی سے ایک بال پین اٹھایا اور اسے مہرین کی طرف بڑھایا۔'' پانچ بال پین دیں مجھے!! '' مہرین نے اصرار کیا، وہ اپنے چہرے پر دنیا بھر کی معصومیت اور بے چارگی جمع کرنے لگی۔
'' بیٹا... غریب عورت ہوں ، گھر پر آٹا نہیں ہے ، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے، خاوند دنیا میں نہیں ہے... اللہ تیرا سہاگ سلامت رکھے، روضہء رسولﷺ کی زیارت نصیب ہو، تیرے بال بچوں کی خیر ہو، اللہ کے نام پر مدد کر دو بیٹا!!'' اس کی فطرت اس کے الفاظ کی صورت میں ڈھل گئی، اس نے ایک اور بال پین بے دلی سے پکڑایا اور بے نیازی سے منہ موڑ کر تقریبا بھاگتی ہوئی چلی گئی، اس کی اس حرکت پر افسوس بھی ہوا اور دل ہی دل میں ہنسی بھی آئی۔ مجھے اس وقت یہ کہانی یادآئی جو میں نے سالوں پہلے پڑھی تھی۔
وہ وقت گئے جب کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا عزت نفس مجروح کر دیتا تھا، اب تو چپے چپے پر، کسی نہ کسی ڈھونگ کے ساتھ مانگنے والے نظر آتے ہیں، کوئی کسی روپ میں، کوئی کسی میں، ہر کسی کے پاس مظلومیت کی ایک داستان ہے، رٹے رٹائے جملے ہیں، ہاتھ پھیلا کر مانگ کر کھا لینا دنیا کا آسان ترین پیشہ ہے۔
کسی نے اگر اس بھکارن کی مالی مدد کی تو یقیناً اس نیت سے کی کہ مجبور عورت ہے تو بجائے بھیک مانگنے کے ، اس رقم سے کچھ خرید کر اسے منافع پر بیچ کر اپنی گزر اوقات کر لے گی... مگر اس بھکارن کے اندر سے بھیک مانگنے کی instinct نہ ختم کر سکا۔
جب انفرادی کوششیں ناکام ہو جائیں تو ضرورت ہے کہ اجتماعی طور پر ان لوگوں کے لیے کچھ ایسے منصوبے شروع کیے جائیں جن میں ان کو کام دیا جائے اور ان کی تربیت کی جائے کہ یہ مختلف ہنر سیکھیں۔ سب سے اہم ہے کہ ان کا رابطہ سڑکوں سے منقطع کر دیا جائے، اگر انھیں ان ھی چوکوں پر بال پین، گاڑیاں صاف کرنے کے کپڑے ، ناریل، نمکو، پاپڑ یا کھلونے بیچنے کے لیے کھڑے کردیا تو کوئی شک نہیں کہ ان کی خصلت جاگ اٹھے گی اور انھیں ملکہ بھی بنا دیا جائے تو اندر کی بھکارن موقع پاتے ہی جاگ جائے گی!!!