وزیر اعلیٰ امن و امان بہتر بنانے پر توجہ دیں سپریم کورٹ

کراچی بدامنی کیس پر فیصلے کو نظرانداز کرنے پر حالات خراب ہونا شروع ہوگئے،چیف جسٹس

بچیوں کو ونی کرنے پر ذمے داروں کی آج طلبی،اسپیکر کے پیش ہونے پر تبادلوں کا نوٹس۔ فوٹو: آن لائن/فائل

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام صوبائی حکومت سے خوش نہیں ہیں، وزیراعلیٰ امن و امان بہتر کرنے پر توجہ دیں۔

آئین کے مطابق بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔سپریم کورٹ نے ڈیرہ بگٹی میں جرگے کے فیصلے کے تحت ونی کی جانے والی تیرہ لڑکیوں کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ ایم پی اے طارق مسوری بگٹی ، لڑکیوں کے والدین اور جرگے کے منتظمین کو آج عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بیچ نے کوئٹہ میں منگل کو بھی جاری رکھی۔

چیف جسٹس نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کے عدالت میں پیش ہونے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے ان کے حلقے کے افسران تبدیل کرنے کی خبر کا بھی نوٹس لیا اور چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ اسپیکر کے حلقے کے افسران کا کس حکم کے تحت تبادلہ کیا گیا جس پر چیف سیکریٹری بلوچستان بابر یعقوب فتح محمد نے عدالت کو بتایا کہ تبادلے کے احکام وزیراعلیٰ ہائوس سے جاری کیے جاتے ہیں اور ان کے نوٹس میں جب یہ معاملہ لایا گیا تو انھوں نے یہ احکام منسوخ کردیے۔

؎چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ اسپیکر نے عدالت میں پیش ہوکر کوئی جرم نہیں کیا۔ اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور وہ عدالت میں پیش بھی ہونا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ یہاں پیش ہونے کے بجائے بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کی بہتری کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔


چیف جسٹس نے کہا کہ انسانی جانوں کی قیمت پر ہم صوبائی حکومت کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے حالات بہتر کریں ورنہ ہم زیادہ برداشت کا مظاہرہ نہیں کریں گے ۔ صوبے میں وکلاء ، ڈاکٹرز اور دوسرے شہری غیر محفوظ ہیں انتظامیہ اپنی رٹ قائم کرکے دکھائے پولیس نے ابھی تک ٹارگٹ کلرز او ر اغواء کاروں میں سے ایک کو بھی گرفتارنہیں کیا ہے یہاں تک کہ سیشن جج کے قاتلوں کو بھی اب تک پکڑا نہیں جاسکا ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کم از کم قانون شکن عناصر کو اپنی موجودگی کا احساس تو دلائیں۔ ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کراچی کے حالات کے بارے میں فیصلہ دیا تھا جب اس پر عمل کیا گیا تو سندھ میں حالات بہتر ہوئے۔ جب اس فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو اب پھر حالات خراب ہونا شرو ع ہوگئے ہیں۔

اب بلوچستان کے بارے میں فیصلہ دینے سے پہلے ہم سوچ رہے ہیں کیونکہ اب ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں رہا۔ ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے کہا کہ لاپتہ افراد کا کیس عدالت اور وکلاء اپنے طور پر حل کررہے تھے بعض سیاسی لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا اور مختلف نکات بھی پیش کردیے ہیں ان نکات میں سے 4 پر عدالت پہلے ہی غور کررہی ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سیاسی رہنما عدالت میں اپنا بیان دیتے ہیں ۔

عدالت سے باہر میڈیا میں وہ جو بھی کہتے ہیںاس سے عدالت کا کوئی واسطہ نہیں ہے فرنٹیئر کور بلوچستان کے وکیل ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ جب لاپتہ افراد کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر غور تھا تو حکومت کو اقوام متحدہ کے وفد کو یہاں نہیں بلانا چاہیے تھا، یہ حکومت کی غلطی ہے ۔ جسٹس خلجی عار ف حسین نے کہا کہ اگر ہم لاپتہ شخص کو ڈھونڈنے والے ایک بچے کو ریلیف نہ دے سکے تو کل یہ دہشت گرد بن جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ایک پالیسی کے تحت اسلام آباد میں لاپتہ ہونیوالے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا ہے صوبائی حکومت کو اس پالیسی سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو اخراجات کی ادائیگی کرنی چاہیے۔

اس موقع پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے درخواست دہندہ ہادی شکیل ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ کیا تجویز کرتے ہیں کہ عدالت کو اس کیس کی 2 سال کی سماعت کے بعد اب کیا کرنا چاہیے کیوںکہ دو سال تک عدالت کی کوششوں کے باوجود لاپتہ افراد میں سے کوئی بازیاب ہوا اور نہ ٹارگٹ کلنگ بند ہوئی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کی شق 148کے تحت اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر لاپتہ فرد کے کیس میں ایف سی ملوث ہے ۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کا احترام اور اس کے کام کوسراہتے ہیں۔ پارلیمنٹ نے آمرانہ دور کے فیصلوں کی توثیق بھی نہیں کی یہ ایک سیاسی حکومت ہے اور اس نے مشرف کی طرح اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔

یہ لوگوںکے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئی ہے ۔ چیف جسٹس نے ڈیرہ بگٹی میں 13بچیوں کو ونی کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکریٹری بلوچستان اور ڈپٹی کمشنر ڈیرہ بگٹی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ سماعت کے دوران ڈی سی ڈیرہ بگٹی نے عدالت کو بتایا کہ ونی کا واقعہ ایک ماہ قبل کا ہے اور جہاں جرگے نے یہ فیصلہ دیا وہ علاقہ ڈیرہ بگٹی کا نہیں بارکھان کا ہے۔ ونی کی جانیوالی بچیوں کی تعداد 13نہیں 7ہے جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ جگہ کی حدود پر وقت ضائع نہ کیا جائے اور اگر واقعہ ایک ماہ قبل کا ہے تو آپ کو پتہ کیوں نہیں تھا۔ ایڈوو کیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بچیاں ابھی تک حوالے نہیں کی گئیں۔ عدالت نے طارق مسوری، بچیوں کے والدین ،جرگے کے منتظمین کوآ ج عدالت طلب کرلیا۔
Load Next Story