وقار بھائی ٹیم پر کچھ رحم کریں
وقار اب بھی خود کو90کی دہائی کا عظیم فاسٹ بولر سمجھتے ہیں، اسی مسئلے کی وجہ سے کھلاڑی نہ ہی ٹیم سیٹ ہو پا رہی ہے۔
KARACHI:
''بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ مسئلے بھی بڑے ہوتے ہیں، خصوصاً انا اور خودپسندی ایسی چیزیں ہیں جو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں، وقار یونس کے ساتھ پہلے بھی یہی معاملہ تھا، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا، ''چک دے انڈیا'' فلم دیکھی ہے۔
اس میں ایک ڈائیلاگ تھا جس میں ہاکی کوچ (شاہ رخ خان) ایک سپراسٹار کھلاڑی سے کہتا ہے کہ ہر ٹیم میں ایک ہی غنڈہ ہوتا ہے اور اس ٹیم کا غنڈہ میں ہوں تم نہیں، بس ایک کوچ کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ ہر بات میں اسی کی مرضی چلے، جہاں اسے کوئی اپنے لیے خطرہ لگنے لگے اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر باہر کر دیا جائے، وکی بھائی اب بھی یہی کر رہے ہیں''
وقار یونس کے دوسری بار کوچ بننے پر مجھ سے یہ باتیں ایک اسٹار قومی کرکٹر نے کہی تھیں، اس وقت مجھے لگا کہ شاید اب وہ تبدیل ہو چکے ہوں مگر یہ محض خام خیالی تھی، حقیقت میں کچھ نہیں بدلا، وقار اب بھی خود کو90کی دہائی کا عظیم فاسٹ بولر سمجھتے ہیں، اسی مسئلے کی وجہ سے کھلاڑی نہ ہی ٹیم سیٹ ہو پا رہی ہے۔
مصباح الحق کو اعلیٰ حکام جو کہتے وہ بیچارے سر جھکا کر تسلیم کر لیتے، اسی لیے وقار یونس سے ان کی نبھ گئی، شاہد آفریدی ان کے گذشتہ دور میں کپتانی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، مصباح نے اس سے سبق سیکھتے ہوئے ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی اپنا لی جس کا انھیں فائدہ اور ٹیم کو نقصان ہوا،2011 ورلڈکپ میں شعیب اختر کو وقار یونس نے نشان عبرت بنایا پھر آفریدی سے الجھ گئے، عبدالرزاق اب تک اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذمہ دار سابق پیسر کو قرار دیتے ہیں۔
حالیہ ورلڈکپ میں محمد حفیظ نے پریکٹس کے اوقات کار پر آواز اٹھائی تو معمولی سی انجری پر وطن واپس بھیج دیا گیا، جس کے بعد من پسند اوپنر ناصر جمشید آئے جن کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، فواد عالم کو اچھی کارکردگی کے باوجود کوچ کی گڈبک میں نہ ہونے کے سبب ورلڈکپ میچز گھر پر بیٹھ کر دیکھنا پڑے، سرفراز احمد کو ایک چھوٹی سی بات پر میگا ایونٹ کے کئی میچز میں باہر بٹھایاگیا، اب احمد شہزاد اور عمر اکمل کو وقار یونس نے منفی رپورٹ دے کر ٹیم سے باہر کرا دیا۔
اس سے ٹیم میں ان کی حکمرانی پکی ہو گئی، حفیظ کو تازہ واقعہ یاد ہے لہذا اب محتاط رہیں گے، سعید اجمل کو اپنی پوزیشن کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ایسے میں بچوں کی ٹیم بنا کر کوچ اس کے بے تاج بادشاہ تو بن گئے مگر نقصان پاکستان کا ہوا،بنگلہ دیشی ٹیم16برس قبل گرین شرٹس کیخلاف ورلڈکپ میچ کیسے جیتی تھی مجھے آپ کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں،اب اس نے دوبارہ ہمیں ہرا دیا، یہ اعلیٰ حکام کیلیے بھی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کرنے والے81 سالہ چیئرمین شہریار خان نے62 برس کے ہارون رشید کو چیف سلیکٹر بنایا جنھوں نے یاسر شاہ کے انجرڈ ہونے پر36 سالہ ذوالفقار بابر کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل کر لیا، یہ کیسی مستقبل کی حکمت عملی ہے؟ افسوس نئے چیف سلیکٹرکو تنقید بھی پسند نہیں، گذشتہ دنوں ان سے فون پر بات ہوئی تو رسماً عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی، انھوں نے جواب میں طنزاً کہاکہ ''آپ کی مبارکباد کالمز پڑھ کر ملتی رہتی ہے''۔
پاکستان کرکٹ میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا، یقین کریں کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ حکام کھیل کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا تباہ کرنا؟ جیسے اظہر علی کو2سال بعد اچانک کپتان بنا کر ون ڈے ٹیم میں لایا گیا،مصباح نے انھیں پروموٹ کیا، وقار بھی اس لیے مان گئے کہ بیچارہ شریف لڑکا ہے چپ چاپ سب کچھ سنتا رہے گا۔
اگر شرافت ہی قیادت کیلیے سب سے بڑا معیار ہے تو اظہر سے شریف کئی پلیئرز ڈومیسٹک کرکٹ میں مل جائیں گے انھیں عہدہ سونپ دینا چاہیے، اسی طرح اچھی انگریزی اگر پیمانہ ہے تو جس یونیورسٹی میں شہریارخان لیکچرز دیتے ہیں وہاں کے کسی بھی نوجوان کو ذمہ داری سونپ دیتے، مجھے اظہر علی سے کوئی شکایت نہیں، وہ باصلاحیت بیٹسمین ہیں لیکن بڑوں کی سیاسی چالوں میں انھیں مہرہ بنا دیا گیا، خدانخواستہ ٹیم سیریز ہار گئی تو اظہر کو ذمہ دار قرار دے کر کہا جائے گا کہ ''آزمائشی مدت کیلیے کپتان بنایا تھا ناکام رہا اس لیے فارغ کر رہے ہیں''، یوں وقار یونس اور دیگر حکام کی کرسیاں بچی رہیں گی۔
احمد شہزاد اور عمر اکمل نے یقیناً غلطیاں کیں مگر وقار یونس اپنے دور میں کیا ایسا نہیں کرتے تھے، گرینیڈا کے ساحل پر کیا ہوا جسے نہیں پتا گوگل پر سرچ کر لے،اسی طرح اکیڈمی کوچ محمد اکرم کے ساتھ جنوبی افریقہ میں کیا ہوا تھا یہ بھی آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے، کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہوتا، ان نوجوان پلیئرز نے اگر غلطیاں کیں تو منیجر نوید اکرم چیمہ نے ان پر جرمانہ کیوں نہیں کیا تھا؟ان کی رپورٹ میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے؟اگر احمد شہزاد بُرا انسان ہے تو اسے ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں بھی کیوں لیا؟ یہ سوال ابھی تک غور طلب ہیں۔
ان کھلاڑیوں کو فوری طور پر ٹیم سے باہر کرنا مسئلے کا حل نہیں، ایک فائنل وارننگ دے دیتے نہ مانتے تو عوام کے سامنے ان کا کچا چٹھا کھولیں تاکہ کوئی حمایت میں بات نہ کرے،اس طرح کی گول مول باتیں شکوک بڑھا رہی ہیں،سالانہ تقریباً ایک کروڑ70 لاکھ روپے بطور تنخواہ وصول کرنے والے وقار یونس کو ٹیم پر کچھ رحم کرنا چاہیے۔
وہ خود تو ہماری کرکٹ تباہ کر کے اپنے نئے ملک آسٹریلیا چلے جائیں گے، بیچارے پاکستانی پلیئرز کا کیا ہو گا، ابھی تو ہم بنگلہ دیش سے ہارے ہیں آئندہ ماہ شاید زمبابوین سائیڈ ٹور پر آ جائے، اس نے بھی شکست دے دی تو ملک میں شائقین کوکرکٹ کا جو رہا سہا شوق بچا ہے وہ بھی جلد ختم ہو جائے گا۔
''بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ مسئلے بھی بڑے ہوتے ہیں، خصوصاً انا اور خودپسندی ایسی چیزیں ہیں جو زندگی بھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں، وقار یونس کے ساتھ پہلے بھی یہی معاملہ تھا، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا، ''چک دے انڈیا'' فلم دیکھی ہے۔
اس میں ایک ڈائیلاگ تھا جس میں ہاکی کوچ (شاہ رخ خان) ایک سپراسٹار کھلاڑی سے کہتا ہے کہ ہر ٹیم میں ایک ہی غنڈہ ہوتا ہے اور اس ٹیم کا غنڈہ میں ہوں تم نہیں، بس ایک کوچ کی یہی سوچ ہوتی ہے کہ ہر بات میں اسی کی مرضی چلے، جہاں اسے کوئی اپنے لیے خطرہ لگنے لگے اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر باہر کر دیا جائے، وکی بھائی اب بھی یہی کر رہے ہیں''
وقار یونس کے دوسری بار کوچ بننے پر مجھ سے یہ باتیں ایک اسٹار قومی کرکٹر نے کہی تھیں، اس وقت مجھے لگا کہ شاید اب وہ تبدیل ہو چکے ہوں مگر یہ محض خام خیالی تھی، حقیقت میں کچھ نہیں بدلا، وقار اب بھی خود کو90کی دہائی کا عظیم فاسٹ بولر سمجھتے ہیں، اسی مسئلے کی وجہ سے کھلاڑی نہ ہی ٹیم سیٹ ہو پا رہی ہے۔
مصباح الحق کو اعلیٰ حکام جو کہتے وہ بیچارے سر جھکا کر تسلیم کر لیتے، اسی لیے وقار یونس سے ان کی نبھ گئی، شاہد آفریدی ان کے گذشتہ دور میں کپتانی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، مصباح نے اس سے سبق سیکھتے ہوئے ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی اپنا لی جس کا انھیں فائدہ اور ٹیم کو نقصان ہوا،2011 ورلڈکپ میں شعیب اختر کو وقار یونس نے نشان عبرت بنایا پھر آفریدی سے الجھ گئے، عبدالرزاق اب تک اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ذمہ دار سابق پیسر کو قرار دیتے ہیں۔
حالیہ ورلڈکپ میں محمد حفیظ نے پریکٹس کے اوقات کار پر آواز اٹھائی تو معمولی سی انجری پر وطن واپس بھیج دیا گیا، جس کے بعد من پسند اوپنر ناصر جمشید آئے جن کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، فواد عالم کو اچھی کارکردگی کے باوجود کوچ کی گڈبک میں نہ ہونے کے سبب ورلڈکپ میچز گھر پر بیٹھ کر دیکھنا پڑے، سرفراز احمد کو ایک چھوٹی سی بات پر میگا ایونٹ کے کئی میچز میں باہر بٹھایاگیا، اب احمد شہزاد اور عمر اکمل کو وقار یونس نے منفی رپورٹ دے کر ٹیم سے باہر کرا دیا۔
اس سے ٹیم میں ان کی حکمرانی پکی ہو گئی، حفیظ کو تازہ واقعہ یاد ہے لہذا اب محتاط رہیں گے، سعید اجمل کو اپنی پوزیشن کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ایسے میں بچوں کی ٹیم بنا کر کوچ اس کے بے تاج بادشاہ تو بن گئے مگر نقصان پاکستان کا ہوا،بنگلہ دیشی ٹیم16برس قبل گرین شرٹس کیخلاف ورلڈکپ میچ کیسے جیتی تھی مجھے آپ کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں،اب اس نے دوبارہ ہمیں ہرا دیا، یہ اعلیٰ حکام کیلیے بھی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔
نوجوانوں کو آگے لانے کی بات کرنے والے81 سالہ چیئرمین شہریار خان نے62 برس کے ہارون رشید کو چیف سلیکٹر بنایا جنھوں نے یاسر شاہ کے انجرڈ ہونے پر36 سالہ ذوالفقار بابر کو ون ڈے اسکواڈ میں شامل کر لیا، یہ کیسی مستقبل کی حکمت عملی ہے؟ افسوس نئے چیف سلیکٹرکو تنقید بھی پسند نہیں، گذشتہ دنوں ان سے فون پر بات ہوئی تو رسماً عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی، انھوں نے جواب میں طنزاً کہاکہ ''آپ کی مبارکباد کالمز پڑھ کر ملتی رہتی ہے''۔
پاکستان کرکٹ میں ان دنوں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سمجھ میں نہیں آتا، یقین کریں کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ حکام کھیل کو فروغ دینا چاہتے ہیں یا تباہ کرنا؟ جیسے اظہر علی کو2سال بعد اچانک کپتان بنا کر ون ڈے ٹیم میں لایا گیا،مصباح نے انھیں پروموٹ کیا، وقار بھی اس لیے مان گئے کہ بیچارہ شریف لڑکا ہے چپ چاپ سب کچھ سنتا رہے گا۔
اگر شرافت ہی قیادت کیلیے سب سے بڑا معیار ہے تو اظہر سے شریف کئی پلیئرز ڈومیسٹک کرکٹ میں مل جائیں گے انھیں عہدہ سونپ دینا چاہیے، اسی طرح اچھی انگریزی اگر پیمانہ ہے تو جس یونیورسٹی میں شہریارخان لیکچرز دیتے ہیں وہاں کے کسی بھی نوجوان کو ذمہ داری سونپ دیتے، مجھے اظہر علی سے کوئی شکایت نہیں، وہ باصلاحیت بیٹسمین ہیں لیکن بڑوں کی سیاسی چالوں میں انھیں مہرہ بنا دیا گیا، خدانخواستہ ٹیم سیریز ہار گئی تو اظہر کو ذمہ دار قرار دے کر کہا جائے گا کہ ''آزمائشی مدت کیلیے کپتان بنایا تھا ناکام رہا اس لیے فارغ کر رہے ہیں''، یوں وقار یونس اور دیگر حکام کی کرسیاں بچی رہیں گی۔
احمد شہزاد اور عمر اکمل نے یقیناً غلطیاں کیں مگر وقار یونس اپنے دور میں کیا ایسا نہیں کرتے تھے، گرینیڈا کے ساحل پر کیا ہوا جسے نہیں پتا گوگل پر سرچ کر لے،اسی طرح اکیڈمی کوچ محمد اکرم کے ساتھ جنوبی افریقہ میں کیا ہوا تھا یہ بھی آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے، کوئی بھی دودھ کا دھلا نہیں ہوتا، ان نوجوان پلیئرز نے اگر غلطیاں کیں تو منیجر نوید اکرم چیمہ نے ان پر جرمانہ کیوں نہیں کیا تھا؟ان کی رپورٹ میں اس کا ذکر کیوں نہیں ہے؟اگر احمد شہزاد بُرا انسان ہے تو اسے ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں بھی کیوں لیا؟ یہ سوال ابھی تک غور طلب ہیں۔
ان کھلاڑیوں کو فوری طور پر ٹیم سے باہر کرنا مسئلے کا حل نہیں، ایک فائنل وارننگ دے دیتے نہ مانتے تو عوام کے سامنے ان کا کچا چٹھا کھولیں تاکہ کوئی حمایت میں بات نہ کرے،اس طرح کی گول مول باتیں شکوک بڑھا رہی ہیں،سالانہ تقریباً ایک کروڑ70 لاکھ روپے بطور تنخواہ وصول کرنے والے وقار یونس کو ٹیم پر کچھ رحم کرنا چاہیے۔
وہ خود تو ہماری کرکٹ تباہ کر کے اپنے نئے ملک آسٹریلیا چلے جائیں گے، بیچارے پاکستانی پلیئرز کا کیا ہو گا، ابھی تو ہم بنگلہ دیش سے ہارے ہیں آئندہ ماہ شاید زمبابوین سائیڈ ٹور پر آ جائے، اس نے بھی شکست دے دی تو ملک میں شائقین کوکرکٹ کا جو رہا سہا شوق بچا ہے وہ بھی جلد ختم ہو جائے گا۔