چلنا ہے ایسے۔۔۔ نئے گھر میں بہو اپنی اہمیت کیسے منوائے
ارد گرد موجود لوگوں اور ان سے وابستہ رشتوں اور قرابت داری کو ہمیشہ اہمیت اور اولین ترجیح دینی چاہیے
زندگی کا اصل حسن رشتوں اورناتوں پہ استوار ہے۔ یہ تعلقات جتنے زیادہ مضبوط اور پائے دار ہوں گے، زندگی اتنی ہی ہم وار، خوش گوار اور مطمئن ہو گی، لہٰذا اپنے ارد گرد موجود لوگوں اور ان سے وابستہ رشتوں اور قرابت داری کو ہمیشہ اہمیت اور اولین ترجیح دینی چاہیے، گھر خاندان سے بنتا ہے، خاندان میاں بیوی اور بچوں سے تشکیل پاتا ہے۔
بیٹے کی شادی کے بعد جب بہو نئے خاندان کا حصہ بنتی ہے، تو گویا ایک نئے رشتے کا اضافہ ہوتا ہے۔ شادی خواہ پسند کی ہو، ایسا لگتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے کی شادی کر کے صرف ساس بن کے رہ جاتی ہے۔ صرف ساس ہی نہیں، بلکہ بہو کو بھی اپنی ساس سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ساس اتنے ارمان سے لائی ہوئی بہو کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کرتی۔ ایسے میں اگر بہو آگے بڑھ کے کچھ کرنا بھی چاہے، تب بھی وہ کچھ نہیں کر پاتی، حالاں کہ آنے والی جب اپنے ماں، باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر نئے ماحول میں آتی ہے، ایسے میں اس کے بھی کچھ خواب ہوتے ہیں۔ اسے نئے ماحول سے مانوس کرانے میں میاں کے بعد سب سے اہم کردار ساس کا ہوتا ہے، لیکن بہو کے لیے ساس کسی بڑی کسوٹی سے کم نہیں ہوتی، جس پر پورا اترنا بڑی جان جوکھم کا کام ہے۔
نئے ماحول اور نئے گھر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے لڑکی کو اعتماد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں شوہر کے بعد دوسرا سہارا بھی ساس کی صورت میں درکار ہوتا ہے، یقیناً ایک بہو کے لیے ساس کے مزاج کو سمجھنا مشکل ترین کام ہے، اس لیے اس مرحلے کو سمجھ داری سے انجام دیا جائے، کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ساس کو بھی کھلے دل سے اپنی بہو کو قبول کرنا چاہیے اور بہو کو بھی سسرال کو اپنا اصلی گھر سمجھنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے تقریبا ہر گھر میں ساس بہو کے درمیا ن مثالی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ ساس اور بہو کے درمیان خوش گوار تعلقات کس طرح قائم کیے جا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے بہو کے لیے کچھ دل چسپ اور قابل قبول نکات پیش ہیں۔
بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ ایک چپ سو سکھ سے نوازتی ہے۔ یہ خاموشی بڑے سے بڑے مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ عادت بہو کو بھی اپنانی ہوگی، لیکن یہ نہیں کہ وہ ہر وقت خاموشی کا مظاہرہ کرے، بلکہ ایسے مسائل جن میں بات بگڑنے کا خدشہ ہو۔ ان پر ضبط سے کام لے اور اپنی زبان بند رکھے اور ان چیزوں کو نظر انداز کرے، جس سے گھر میں دباؤکا ماحول بن سکتا ہو، بہت سی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بہو کو ساس کی صحیح یا غلط تنقید بھی اچھی نہیں لگتی اور وہ اکثر ساس کے نکتہ چینی والی عادت سے بھی پریشان رہتی ہیں۔
اگر آپ کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا ہے، تو خاموشی کو تر جیح دیں اور وہ جو کہا جا رہا ہو اسے سن لیں۔ بحث در بحث سے صرف گھر کا ماحول ہی خراب ہوتا ہے۔ آپ کے سامنے سے جواب نہ دینے اور خاموش رہنے سے ساس کی نظر میں آپ کا تاثر بہتر ہوگا۔ چاہے آپ کو بے جا کیوں نہ سننی پڑے، لیکن اگر آپ بھی برابر کا جواب دیں گی ، تو یہ امر جلتی پر تیل کا کام کرے گا،کیوں کہ روایتی ساسوں کی سوچ ہوتی ہے کہ نئی آنے والی ان کی بات سنے۔ اگر بہو ابتدا میں یہ برداشت کر لے تو آزمودہ بات ہے کہ آنے والا وقت میں اسے اس کا بہتر صلہ ملتا ہے۔بہت زیادہ توقعات اور امیدیں وابستہ نہ کریں۔ نہ ہی ساس کی حکم عدولی کے ذریعے اپنی چلانے کی کوشش کریں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا کی کوئی بھی ساس ہو، بہو کی تعریف کے معاملے میں ہمیشہ کنجوسی ہی دکھاتی ہے۔ اس لیے یہ مت سوچیں کہ آپ کچھ غیر معمولی کام کر رہی ہیں، تو ساس آپ کی کھلے دل سے تعریف بھی کریں گی۔
اپنی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیں۔ بہت سے گھروں میں یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ ساس بڑے چاؤ سے بہو تو بیاہ کر لے آئیں، لیکن گھر میں اس کی ''مداخلت'' انہیں ناگوار گزرنے لگتی ہے۔ بعض گھروں میں ساسو ماں کو اپنا کا م خود کرنے یا صرف کھانا خود پکانے کا شوق ہوتا ہے، ایسے میں بہو کی باورچی خانے میں دخل اندازی انہیں پسند نہیں آتی۔ ایک سمجھ دار بہو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر لڑنے کے بہ جائے اس طرح سے اسے حل کرے گی کہ کسی کی انا کا مسئلہ بھی نہیں بنے گا۔ صورت حال دیکھ کر ذمہ داریاں تقسیم کر لی جائیں۔ اگر ساس کھانا خود پکانا چاہ رہی ہیں، تو آپ ان کے ساتھ مل کر سبزی وغیرہ صاف کرلیں۔
برتن دھونے یا باورچی خانے کے دوسرے کاموں کو نبٹا لیں اور ایسا ہنسی خوشی اور اپنی مرضی کے ساتھ کریں۔ دل اور دماغ پر کوئی بوجھ نہ رکھیں اور نہ ہی اپنے دماغ میں کوئی الٹے سیدھے خیالات کو جگہ دیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے ساتھ آپ کا مثبت رویہ دیکھ کر دھیرے دھیرے ساس خود ہی کھانا پکانے کی ذمہ داری آپ پر ڈال دیں۔ ہر قدم پر اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں، تو اس سے گھر کا امن وسکون برقرار رہے گا اور دھیرے دھیرے سسرال والے دل سے آپ کے معترف ہونے لگیں گے۔
اپنی بات نرمی اور خوش گوار انداز میں کریں۔ ساس کی اہمیت گھر میں ایک ملکہ کی سی ہوتی ہے، لیکن ایک اچھی بہو وہ ہوتی ہے، جو اس اہمیت کو دل سے تسلیم بھی کرتی ہے اور ساتھ ہی اپنی اہمیت بھی منوا لیتی ہے۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں۔ کسی غلط بات پر یا ایسی کسی بات پر جو آپ کے مزاج کے شدید برخلاف ہو اپنے موقف پر قائم رہیں۔ ساس کی کچھ ایسی باتیں، جو آپ کے لیے حد سے زیادہ ناقابل برداشت ہوں، ان پر نزاعی صورت حال خاموش رہنے کے بہ جائے ہلکے پھلکے انداز میں ساس کے گوش گزار کر دیں اور اس طرح سے اپنی شکایت کریں کہ انہیں برا بھی محسوس نہ ہو اور آپ کی تشفی بھی ہو جائے۔
بیٹے کی شادی کے بعد جب بہو نئے خاندان کا حصہ بنتی ہے، تو گویا ایک نئے رشتے کا اضافہ ہوتا ہے۔ شادی خواہ پسند کی ہو، ایسا لگتا ہے کہ ماں اپنے بیٹے کی شادی کر کے صرف ساس بن کے رہ جاتی ہے۔ صرف ساس ہی نہیں، بلکہ بہو کو بھی اپنی ساس سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ساس اتنے ارمان سے لائی ہوئی بہو کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کرتی۔ ایسے میں اگر بہو آگے بڑھ کے کچھ کرنا بھی چاہے، تب بھی وہ کچھ نہیں کر پاتی، حالاں کہ آنے والی جب اپنے ماں، باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کر نئے ماحول میں آتی ہے، ایسے میں اس کے بھی کچھ خواب ہوتے ہیں۔ اسے نئے ماحول سے مانوس کرانے میں میاں کے بعد سب سے اہم کردار ساس کا ہوتا ہے، لیکن بہو کے لیے ساس کسی بڑی کسوٹی سے کم نہیں ہوتی، جس پر پورا اترنا بڑی جان جوکھم کا کام ہے۔
نئے ماحول اور نئے گھر میں اپنی جگہ بنانے کے لیے لڑکی کو اعتماد اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں شوہر کے بعد دوسرا سہارا بھی ساس کی صورت میں درکار ہوتا ہے، یقیناً ایک بہو کے لیے ساس کے مزاج کو سمجھنا مشکل ترین کام ہے، اس لیے اس مرحلے کو سمجھ داری سے انجام دیا جائے، کیوں کہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، ساس کو بھی کھلے دل سے اپنی بہو کو قبول کرنا چاہیے اور بہو کو بھی سسرال کو اپنا اصلی گھر سمجھنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے تقریبا ہر گھر میں ساس بہو کے درمیا ن مثالی تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔ ساس اور بہو کے درمیان خوش گوار تعلقات کس طرح قائم کیے جا سکتے ہیں۔
اس حوالے سے بہو کے لیے کچھ دل چسپ اور قابل قبول نکات پیش ہیں۔
بڑے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ ایک چپ سو سکھ سے نوازتی ہے۔ یہ خاموشی بڑے سے بڑے مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ عادت بہو کو بھی اپنانی ہوگی، لیکن یہ نہیں کہ وہ ہر وقت خاموشی کا مظاہرہ کرے، بلکہ ایسے مسائل جن میں بات بگڑنے کا خدشہ ہو۔ ان پر ضبط سے کام لے اور اپنی زبان بند رکھے اور ان چیزوں کو نظر انداز کرے، جس سے گھر میں دباؤکا ماحول بن سکتا ہو، بہت سی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بہو کو ساس کی صحیح یا غلط تنقید بھی اچھی نہیں لگتی اور وہ اکثر ساس کے نکتہ چینی والی عادت سے بھی پریشان رہتی ہیں۔
اگر آپ کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا ہے، تو خاموشی کو تر جیح دیں اور وہ جو کہا جا رہا ہو اسے سن لیں۔ بحث در بحث سے صرف گھر کا ماحول ہی خراب ہوتا ہے۔ آپ کے سامنے سے جواب نہ دینے اور خاموش رہنے سے ساس کی نظر میں آپ کا تاثر بہتر ہوگا۔ چاہے آپ کو بے جا کیوں نہ سننی پڑے، لیکن اگر آپ بھی برابر کا جواب دیں گی ، تو یہ امر جلتی پر تیل کا کام کرے گا،کیوں کہ روایتی ساسوں کی سوچ ہوتی ہے کہ نئی آنے والی ان کی بات سنے۔ اگر بہو ابتدا میں یہ برداشت کر لے تو آزمودہ بات ہے کہ آنے والا وقت میں اسے اس کا بہتر صلہ ملتا ہے۔بہت زیادہ توقعات اور امیدیں وابستہ نہ کریں۔ نہ ہی ساس کی حکم عدولی کے ذریعے اپنی چلانے کی کوشش کریں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا کی کوئی بھی ساس ہو، بہو کی تعریف کے معاملے میں ہمیشہ کنجوسی ہی دکھاتی ہے۔ اس لیے یہ مت سوچیں کہ آپ کچھ غیر معمولی کام کر رہی ہیں، تو ساس آپ کی کھلے دل سے تعریف بھی کریں گی۔
اپنی ذمہ داریوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیں۔ بہت سے گھروں میں یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ ساس بڑے چاؤ سے بہو تو بیاہ کر لے آئیں، لیکن گھر میں اس کی ''مداخلت'' انہیں ناگوار گزرنے لگتی ہے۔ بعض گھروں میں ساسو ماں کو اپنا کا م خود کرنے یا صرف کھانا خود پکانے کا شوق ہوتا ہے، ایسے میں بہو کی باورچی خانے میں دخل اندازی انہیں پسند نہیں آتی۔ ایک سمجھ دار بہو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر لڑنے کے بہ جائے اس طرح سے اسے حل کرے گی کہ کسی کی انا کا مسئلہ بھی نہیں بنے گا۔ صورت حال دیکھ کر ذمہ داریاں تقسیم کر لی جائیں۔ اگر ساس کھانا خود پکانا چاہ رہی ہیں، تو آپ ان کے ساتھ مل کر سبزی وغیرہ صاف کرلیں۔
برتن دھونے یا باورچی خانے کے دوسرے کاموں کو نبٹا لیں اور ایسا ہنسی خوشی اور اپنی مرضی کے ساتھ کریں۔ دل اور دماغ پر کوئی بوجھ نہ رکھیں اور نہ ہی اپنے دماغ میں کوئی الٹے سیدھے خیالات کو جگہ دیں۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے ساتھ آپ کا مثبت رویہ دیکھ کر دھیرے دھیرے ساس خود ہی کھانا پکانے کی ذمہ داری آپ پر ڈال دیں۔ ہر قدم پر اپنی سوچ کو مثبت رکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسئلہ نہ بنائیں، تو اس سے گھر کا امن وسکون برقرار رہے گا اور دھیرے دھیرے سسرال والے دل سے آپ کے معترف ہونے لگیں گے۔
اپنی بات نرمی اور خوش گوار انداز میں کریں۔ ساس کی اہمیت گھر میں ایک ملکہ کی سی ہوتی ہے، لیکن ایک اچھی بہو وہ ہوتی ہے، جو اس اہمیت کو دل سے تسلیم بھی کرتی ہے اور ساتھ ہی اپنی اہمیت بھی منوا لیتی ہے۔ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں۔ کسی غلط بات پر یا ایسی کسی بات پر جو آپ کے مزاج کے شدید برخلاف ہو اپنے موقف پر قائم رہیں۔ ساس کی کچھ ایسی باتیں، جو آپ کے لیے حد سے زیادہ ناقابل برداشت ہوں، ان پر نزاعی صورت حال خاموش رہنے کے بہ جائے ہلکے پھلکے انداز میں ساس کے گوش گزار کر دیں اور اس طرح سے اپنی شکایت کریں کہ انہیں برا بھی محسوس نہ ہو اور آپ کی تشفی بھی ہو جائے۔