افغانستان میں داعش کا خودکش دھماکا بڑے خطرے کا اعلان
افغانستان میں داعش کے نام سے کسی تنظیم کا منظر عام پر آنا پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے
NEW DELHI:
افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں ایک خود کش بم دھماکے میں 40 افراد جاں بحق اور 115 زخمی ہو گئے، داعش کے نا معلوم ترجمان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی جس کی تصدیق افغان صدر اشرف غنی نے بھی کر دی۔ افغان طالبان کے ترجمان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں یہ ایک شیطانی فعل ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ دشمن ہے اور دونوں ملک مل کر اس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان سے تعاون کیا جائے گا،بزدلانہ کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم کمزور نہیں کر سکتیں،آخری دہشت گرد کے خاتمے تک انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔
افغانستان میں دھماکے کوئی نئی بات نہیں۔ ایک عرصے سے یہ علاقہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی خود کش دھماکے کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے ورنہ اس سے قبل ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری طالبان یا ان کی ذیلی تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں مگر اس دھماکے کی طالبان نے مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی فعل قرار دیا ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ایسے گروہ وجود میں آ گئے ہیں جو کسی کے کنٹرول میں نہیں بلکہ وہ آزادانہ طور پر دھماکے کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ افغان حکومت کے لیے دہشت گردی کے حوالے سے نئے چیلنجز سامنے آ گئے ہیں جو پورے خطے کی سلامتی کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسند مختلف تنظیموں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور وہ اپنے طور پر کارروائیاں کر رہے ہیں اس صورت حال میں جابجا پھیلی ہوئی مسلح انتہا پسند تنظیموں کے باعث امن و امان کا قیام ایک مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں القاعدہ کی کمر توڑنے اور طالبان کو شدید نقصان پہنچانے کے باوجود مسلح انتہا پسند تنظیمیں ابھی تک بھرپور قوت کے ساتھ موجود ہیں اور حکومت کے لیے مسلسل درد سر بنی ہوئی ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان تنظیموں کو کون فنڈنگ اور رہنمائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک دہشت گردوں کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں اور ان تنظیموں کے آپس میں گہرے رابطے ہیں ان کے کارکن ایک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
اس لیے افغانستان میں داعش کے نام سے کسی تنظیم کا منظر عام پر آنا پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس تنظیم کے کارکن پاکستان میں بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ دریں اثناء پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی نے ہفتے کو کاکول اکیڈمی میں 132 ویں پی ایم اے لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن ہیں، ان دو ممالک کو سب سے زیادہ خطرات غیر ریاستی عناصر کی جانب سے لاحق ہیں، ملکوں کو آج کے دور میں باہر سے زیادہ اندرونی طور پر خطرات لاحق ہیں، خطے میں امن و امان کا قیام سب کی مشترکہ ذمے داری ہے جسے پورا کرکے کروڑوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
موجودہ حالات میں پاکستان اور افغانستان تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان بلکہ کسی بھی دوسرے ملک کے اعلیٰ ترین فوجی افسر نے پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کی ہے، پی ایم اے کاکول اکیڈمی میں اس وقت 6افغان کیڈٹس بھی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان دونوں کے نظریات اور سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور دونوں ممالک اس امر کا اعادہ کر چکے ہیں کہ دہشت گردی جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ان کو مل کر آگے بڑھنا ہو گا لیکن ان خطرات کا بخوبی ادراک ہونے کے باوجود ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ممالک اب تک مشترکہ انسداد دہشت گردی کی فورسز تشکیل دیتے جن کے درمیان مربوط اور منظم انٹیلی جنس کے رابطے ہونے کے علاوہ وہ مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتیں۔
پاکستان اور افغانستان برادر ہمسایہ ممالک ہیں تجارت اور زندگی کے دیگر بہت سے شعبوں میں یہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات جتنے زیادہ بڑھیں گے اس خطے میں معاشی خوشحالی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا لیکن دہشت گردی کا عفریت دونوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اب داعش کی کارروائی کے بعد تو یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک اس خطرے کا فوری ادراک کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مشترکہ پالیسی تشکیل دیں۔
افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں ایک خود کش بم دھماکے میں 40 افراد جاں بحق اور 115 زخمی ہو گئے، داعش کے نا معلوم ترجمان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی جس کی تصدیق افغان صدر اشرف غنی نے بھی کر دی۔ افغان طالبان کے ترجمان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے پیچھے ان کا ہاتھ نہیں یہ ایک شیطانی فعل ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی حملے کی مذمت کرتے ہوئے انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ دشمن ہے اور دونوں ملک مل کر اس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان سے تعاون کیا جائے گا،بزدلانہ کارروائیاں دہشت گردی کے خلاف ہمارا عزم کمزور نہیں کر سکتیں،آخری دہشت گرد کے خاتمے تک انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھی جائیں گی۔
افغانستان میں دھماکے کوئی نئی بات نہیں۔ ایک عرصے سے یہ علاقہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی خود کش دھماکے کی ذمے داری داعش نے قبول کی ہے ورنہ اس سے قبل ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری طالبان یا ان کی ذیلی تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں مگر اس دھماکے کی طالبان نے مذمت کرتے ہوئے اسے شیطانی فعل قرار دیا ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے ایسے گروہ وجود میں آ گئے ہیں جو کسی کے کنٹرول میں نہیں بلکہ وہ آزادانہ طور پر دھماکے کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ افغان حکومت کے لیے دہشت گردی کے حوالے سے نئے چیلنجز سامنے آ گئے ہیں جو پورے خطے کی سلامتی کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسند مختلف تنظیموں میں تقسیم ہو گئے ہیں اور وہ اپنے طور پر کارروائیاں کر رہے ہیں اس صورت حال میں جابجا پھیلی ہوئی مسلح انتہا پسند تنظیموں کے باعث امن و امان کا قیام ایک مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ امریکا کی جانب سے افغانستان میں القاعدہ کی کمر توڑنے اور طالبان کو شدید نقصان پہنچانے کے باوجود مسلح انتہا پسند تنظیمیں ابھی تک بھرپور قوت کے ساتھ موجود ہیں اور حکومت کے لیے مسلسل درد سر بنی ہوئی ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان تنظیموں کو کون فنڈنگ اور رہنمائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک دہشت گردوں کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں اور ان تنظیموں کے آپس میں گہرے رابطے ہیں ان کے کارکن ایک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
اس لیے افغانستان میں داعش کے نام سے کسی تنظیم کا منظر عام پر آنا پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس تنظیم کے کارکن پاکستان میں بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ دریں اثناء پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغانستان کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل شیر محمد کریمی نے ہفتے کو کاکول اکیڈمی میں 132 ویں پی ایم اے لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن ہیں، ان دو ممالک کو سب سے زیادہ خطرات غیر ریاستی عناصر کی جانب سے لاحق ہیں، ملکوں کو آج کے دور میں باہر سے زیادہ اندرونی طور پر خطرات لاحق ہیں، خطے میں امن و امان کا قیام سب کی مشترکہ ذمے داری ہے جسے پورا کرکے کروڑوں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
موجودہ حالات میں پاکستان اور افغانستان تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ افغانستان بلکہ کسی بھی دوسرے ملک کے اعلیٰ ترین فوجی افسر نے پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شرکت کی ہے، پی ایم اے کاکول اکیڈمی میں اس وقت 6افغان کیڈٹس بھی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان دونوں کے نظریات اور سوچ میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور دونوں ممالک اس امر کا اعادہ کر چکے ہیں کہ دہشت گردی جیسے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے ان کو مل کر آگے بڑھنا ہو گا لیکن ان خطرات کا بخوبی ادراک ہونے کے باوجود ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان اس حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ممالک اب تک مشترکہ انسداد دہشت گردی کی فورسز تشکیل دیتے جن کے درمیان مربوط اور منظم انٹیلی جنس کے رابطے ہونے کے علاوہ وہ مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتیں۔
پاکستان اور افغانستان برادر ہمسایہ ممالک ہیں تجارت اور زندگی کے دیگر بہت سے شعبوں میں یہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات جتنے زیادہ بڑھیں گے اس خطے میں معاشی خوشحالی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے گا لیکن دہشت گردی کا عفریت دونوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اب داعش کی کارروائی کے بعد تو یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک اس خطرے کا فوری ادراک کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مشترکہ پالیسی تشکیل دیں۔