یمن کا بحران اور مسلم ممالک کی ذمے داری

یمن کے بحران کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔

وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران باہمی مذاکرات کا ڈول ڈالنے اور یمن کا بحران حل کرے۔ فوٹو : فائل

ایران کے صدر حسن روحانی نے سعودی عرب کو یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فضائی بمباری پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تہران میں ایرانی فوج کے قومی دن کے موقع پر ٹی وی پر براہ راست نشر کی گئی تقریر میں صدر روحانی نے سعودی عرب پر خطے میں نفرت کے بیج بونے کا الزام عائد کیا۔ یمن کے بحران کے حوالے سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ اس حوالے سے دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یمن کا بحران ہو یا شام و عراق میں جاری لڑائی، لیبیا ہو یا صومالیہ ہر جگہ نقصان مسلمانوں کا ہو رہا ہے جب کہ چھپن اسلامی ممالک کی تنظیم ''او آئی سی'' خواب غفلت میں پڑی محسوس ہوتی ہے حالانکہ اس قدر سنگین صورتحال میں اس تنظیم کو دیگر تمام مصروفیات ترک کر کے یمن کے بحران کو حل کرانے کو اولین ترجیح دینا چاہیے۔


یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یمن کا بحران حل کرنے کی بنیادی ذمے داری ان ھی ممالک پر عائد ہوتی ہے جن کے وہاں سٹیکس ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ یمن میں پراکسی جنگ ہو رہی ہے ۔اس جنگ میں پاکستان کو بھی گھسیٹنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یمن کے ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریںکیونکہ یہ بحران اگر بڑھتا رہا تو اس کے اثرات دوسرے ملکوں پر بھی مرتب ہوں گے جو کسی کے لیے بھی اچھے نہیں ہوں گے۔ اسلامی ملکوں کی قیادت کا فرض ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو اتنا نہ بڑھائیں کہ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچے ۔اس حوالے سے یورپی یونین کی مثال کو سامنے رکھا جانا چاہیے۔

یورپی یونین کے ممالک کے درمیان بھی جنگیں ہوتی رہی ہیں ۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم بھی یورپی یونین کے ممالک کے درمیان ہی ہوئی تھی لیکن انھوں نے ماضی کی سنگین غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی ۔یہاں تک کہ یورپی یونین کے ممالک کے درمیان سرحدی جھڑپ تک بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی ملک نے قوم یا مذہب کے نام پر کسی دوسرے ملک میں مداخلت کی ہے۔ مسلم ممالک کو بھی یہی اصول اپنانا ہو گا۔اگر انھوں نے ایسا نہ کیا اور ماضی کے تعصبات اور نفرتوں کے اسیر رہے تو پھر انتشار اور خلفشار مسلم ممالک کا مقدر ہو گا۔یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے ،اگر یہ جاری رہا تو پھر یہاں امریکا اور یورپی طاقتیں داخل ہوجائیں گی اور حالات یمن کے ہمسایہ ممالک کے لیے مزید خطرناک ہو جائیں گے۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران باہمی مذاکرات کا ڈول ڈالنے اور یمن کا بحران حل کرے۔
Load Next Story