خلا کی تسخیر
مسلم ممالک میں خلائی تحقیق کاکوئی شعور نہیں۔ ہم محض چندسیارے خلامیں بھیجنے تک محدود ہیں۔
KARACHI:
ڈاکٹر پرندس تاج بخش بین الاقوامی سطح کی وہ واحد مسلمان خاتون ہیں جو خلا (Space) اور مختلف ممالک کے خلائی منصوبوں کے متعلق مسلسل ریسرچ کررہی ہیں۔ان کے مقالات اور مضامین انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر تاج بخش کینیڈا میں مقیم ہیں اور آسٹروفزکس (Astrophysics) میں پی ایچ ڈی ٹورنٹو یونیورسٹی سے کی ہے۔وہ سائنس اور اسلام پرکسی بھی موجودہ مذہبی عالم سے بلندپایہ کام کرنے میں مصروف ہیں۔
امریکا اورروس اس میدان میںدنیاکی قیادت کررہے ہیں۔1957ء میں سوویٹ یونین نے پہلا سیارہ سپٹنک ون (Sputnik 1)زمین کے مدارمیں داخل کیا۔امریکا اس ٹیکنالوجی میں روس سے قدرے پیچھے تھا۔امریکا کودس سال سے زیادہ کاعرصہ لگامگرانھوں نے اپولو (Apollo II) کے ذریعے پہلا خلا باز چاند پر اتارنے کااعزازحاصل کرلیا۔یہ تحقیق کی دنیا میں ایک انقلابی قدم تھا۔نیل آرمسٹرونگ (Neil Armstrong)وہ پہلا انسان تھا جس نے زمین سے باہر ایک اجنبی سیارے پرقدم رکھا۔اس کے ادا کیے ہوئے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں موجود ہیں۔
اخبار میں شائع ہونے والی وہ بلیک اینڈوائٹ تصویر یاد ہے جس میں اس نے خلائی سوٹ پہن رکھا تھا اور وہ امریکا کا قومی جھنڈا لگانے میں مصروف تھا۔ہمارے کچھ دینی حلقوں کا اس غیرمعمولی انسانی کامیابی کے متعلق بہت عجیب رویہ تھا۔اس واقعہ کو فسانہ قرار دینے کی پوری کوشش کی گئی۔ چنددینی حلقے ہرسنجیدہ تحقیق کومتنازع بنانے کی مسلسل کوشش میں آج بھی مصروف ہیں۔ مگریادرکھیے!فتح بالاخرسائنسی تحقیق اور تعصب کے بغیر جدید علوم کی ہی ہوتی ہے۔یہی قدرت کاانمٹ اصول ہے۔
اس کالم میں مختلف ممالک کی خلائی سائنس کے متعلق سیرحاصل باتیں تونہیں کرسکتا مگر چندگزارشات ضرورکروں گا۔ امریکا میں ایک مربوط اورقانونی سپیس پالیسی (Space Policy) ترتیب دی جاتی ہے۔اس کی منظوری امریکا کا صدر اپنے معاونین کی مدد سے پوری بحث کرنے کے بعددیتاہے۔ مقصدصرف ایک ہوتاہے کہ کس طرح امریکا کے" قومی مفادات"کواس سائنسی پالیسی کے تحت مزید محفوظ بنایا جائے۔ تمام معاملہ کانگریس میں پیش کیاجاتاہے اورہر سیاستدان اس پر رائے دینے کاحق رکھتاہے۔پورے پروگرام کی مالیاتی منظوری کانگریس ہی کے اختیارمیں ہے۔وائٹ ہاؤس تین انتہائی جدید تحقیقی اداروں کے ذریعے سپیس پالیسی کونافذ کرتاہے۔یہ تین ادارے,Office of Science and Technology Policy نیشنل سیکیورٹی کونسل اورOffice of Management and Budget ہیں۔
خلائی تحقیق کے لیے بارہ ادارے مختص ہیں۔ ہر ادارے میں درجنوں ذیلی ادارے بھی موجود ہیں۔ہمارے ذہن میں صرف ناسا(NASA) کا نام آتاہے۔ مگر آپ حیران ہوںگے کہ اس کے علاوہ،اسی سطح کے بے شمار ادارے مسلسل کام میں مصروف ہیں۔ ان کے نام اردو میں ترجمہ کرنے سے قاصرہوں۔مگرچندنام لینا چاہتا ہوں۔ جیسے (NOAA) National Oceanic and Atmospheric Administration,(NGA) National Geospatial Intelligence Agency,(N.R.O) National Reconnaissance Office۔ یہ محض چنداداروں کے نام ہیں۔یہ اپنی اپنی جگہ مکمل کائنات ہیں۔ صرف ناسا میں دس ماتحت ذیلی ادارے ہیں۔جسے ایمس ریسرچ سینٹر (Ames Research Centre) یا جانسن سپیس سینٹر (Johnson Space Centre)۔ان تمام اداروں کے مکمل بجٹ کاکسی کو اندازہ نہیں۔2009ء میں یہ چونسٹھ بلین ڈالر تھا۔گمان غالب ہے کہ اب یہ 100 سے 150 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہوگا۔
NOAA میں ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اسکا نام Office of Space Commercialization(O.S.C) ہے۔ یہ خلائی سفراورتحقیق کے کمرشل پہلوؤں کو دیکھتا ہے۔ نجی اداروں کوامریکی خلائی پروگرام میں شامل کرتاہے۔اس ایک ذیلی ادارے میں چھ مزیدمحکمے ہیں جوامریکا کے خلائی پروگرام کاہرلمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کئی محکموں کی عمرنصف صدی سے بھی زیادہ ہے۔ جیسے N.R.O پچپن سال پہلے قائم کیا تھا۔ میں یہ جزوی اصطلاحیں اس لیے استعمال کررہاہوں کہ ان کے مکمل نام پہلے رقم کرچکا ہوں۔ امریکی ائیرفورس اورفوج کے خلائی ادارے ان کے علاوہ ہیں، جن میں ائیرفورس سپیس کمانڈ(Airforce Space Command)اورآرمی سپیس اینڈ میزائل ڈیفنس کمانڈ (Army Space and Missile Defence Command)سرِفہرست ہیں۔ ان کی عسکری صلاحیت کس بلند درجہ کی ہے یا امریکا کوپوری دنیامیں حد درجہ فضائی برتری حاصل ہے،سب کچھ انھی اداروں کی مرہونِ منت ہے۔
2014ء میں ناسانے ایک محیرالعقول پروگرام کا آغاز کیاہے۔اس منصوبے کامالیاتی خرچہ سترہ بلین ڈالر ہے۔ ناسا نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ وہ خلامیں ایک ایسا جہاز بھجواسکتی ہے جوروبوٹ کے ذریعے کسی بھی شہاب ثاقب کوگرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب کو پکڑکر ایک نئے مدار میں بھی داخل کرسکتاہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ روبوٹ اب مختلف سیاروں کے مدارکوتبدیل کرنے پرقادرہوچکاہے۔محض اس اقدام سے سائنس کی دنیا میں کیا انقلاب آئیگا، اسکا کسی کو کوئی ادراک نہیں۔مثال کے طورپرایک فصل کوسال میں کئی بار کاشت کیا جانا ممکن ہوجائیگا۔ انسانی بیماریوں پرمکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی جینز(Genes)کوخلامیں دوبارہ Relocate کیا جانا بھی ممکن ہوجائیگا۔ اس تحقیق کے مکمل اثرات کاتعین ابھی ممکن نہیں ہے۔مگرایک اَمربالکل ثابت ہوچکاہے کہ خلابھی اب انسانی قدموں تلے ہے۔یہ معجزہ صرف اورصرف سائنس کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
2017ء میں ناساایک اورپروگرام شروع کررہی ہے۔ اسکانام(Space Launch Programme) رکھا گیا ہے۔یہ بارہ بلین ڈالرکامنصوبہ ہے۔اس کے مطابق انسان کو راکٹ کے ذریعے خلاکے اس حصہ پر دسترس حاصل ہوجائیگی جسے"گہری خلا" (Deep Space) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک اورین وہیکل(Orion Vehicle) بنایا گیا ہے۔ اس میں چار خلاباز بیٹھ سکتے ہیں۔جہازمیں مریخ تک جانے کی صلاحیت ہوگی۔ یعنی انسان 2017ء تک مریخ پربھی پہنچ جائیگا۔امریکا نے اس پروگرام میں نجی شعبہ کوبھی کامیابی سے شامل کرلیاہے۔اس میں دوکمپنیاں سرِفہرست ہیں۔
آربیٹل(Orbital)اورسپیس (Space x) x۔دونوں کمپنیوں نے کئی بلین ڈالرمحض اسلیے خرچ کیے ہیں کہ وہ خلامیں قائم شدہ اسٹیشن پرسامان کی ترسیل کے حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں۔دونوں کمپنیوں نے یہ بھی اعلان کردیاہے کہ وہ مختلف سیاروں پرانسانوں کو آباد کرنے میں مددفراہم کریںگی۔یعنی انسان کے پاس اختیارحاصل ہوگاکہ وہ زمین پرزندگی گزارنا چاہتاہے یاکسی اورسیارے پررہناچاہتا ہے۔ شائد آپ کوآج یہ باتیں عجیب لگ رہی ہوں مگر مستقبل میں ایسی تمام چیزیں اتنی عام ہوجائیںگی جتنا موبائل فون،انٹرنیٹ یا کمپیوٹر۔
ڈاکٹرپرندس تاج بخش کی طرف آتاہوں۔میری ذاتی خواہش ہے کہ آپ ان کے مضامین بار بار پڑھیں۔ ایک مسلمان خاتون سائنسدان اس اعلیٰ سطح کاتحقیقی کام سرانجام دے رہی ہے کہ مجھے اس کی کوئی مثال نہیں ملی۔انھوں نے ایک نئی جہت پرکام کیاہے۔اس کانام Anthropocentrism ہے۔ اس بات پرتحقیق جاری ہے کہ زمین پرانسانی نسل اپنے آپ کو مکمل ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایٹمی جنگ،گلوبل وارمنگ(Global Warming) اور تیزی سے کم ہوتے ہوئے قدرتی ذخائر،چندصدیوں میں انسان کی زندگی ختم کرسکتے ہیں۔اس صورتحال کاادراک آج ہوناچاہیے۔اس کا ایک حل انسان کی مریخ پر منتقلی ہے۔ مریخ پرانسانی زندگی اس وجہ سے بھی ممکن ہے کہ وہاں پانی موجودہونے کے شواہد ملے ہیں۔
آج کی مریخی فضامیں انسانی زندگی پنپ نہیں سکتی۔لہذااس فضا کو انسان کے لیے کارآمد بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس منصوبہ کا نامTerraformingرکھا گیا ہے۔ یہ انتہائی سادہ سا پروگرام ہے۔مریخ پرکاربن ڈائی آکسائیڈبرف کے منجمد ڈلیوں کی طرح موجود ہے۔ اس گیس کو برف کی منجمدحیثیت سے مریخ کی فضامیں ایسے منتقل کیا جائیگا جیسے یہ زمین پر ہے۔ اس کے بعد چند جرثوموں(Bacteria)کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں تبدیل کردیاجائے گا۔اس عمل سے مریخ کی زمین پرپانی بھی وافرتعدادمیں مہیا ہوسکے گا۔ آپ کومریخ پررہنے کے لیے کسی مخصوص خلائی لباس کی ضرورت نہیں رہے گی۔آپ زمین کی طرح کھلی فضامیں سانس لے سکیں گے۔
Terraforming کے منصوبہ کی بھرپور مخالفت موجودہے۔ایک طبقے کانظریہ یہ ہے کہ جتنی خطیر رقم اس منصوبہ پرصَرف ہوگی،اس سے دنیاکے ماحولیاتی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ مگراس میں یواے ای کے ایک مذہبی عالم کافتویٰ خاصا دلچسپ ہے۔ اس نے اس پروگرام کو حرام قرار دے دیا ہے۔ بنیاد یہ رکھی گئی ہے کہ کیونکہ اس میں مسافرکی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اورجان بوجھ کراپنی جان کو برباد نہیں کرناچاہیے،لہذایہ حرام ہے۔ یو اے ای میں اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ پانچ سومسلمانوں نے لکھ کر دیدیا تھا کہ وہ بھی اس منصوبہ کاحصہ بنناچاہتے ہیں۔
ڈاکٹر تاج بخش نے اپیل کی ہے کہ مسلمان علماء کویہ مسئلہ "اجتہادـ"کے ذریعے سے حل کرنا چاہیے۔ اس مسئلہ پر ڈاکٹر سلمان حمید نے بھی بہت اہم بات کی ہے۔ سلمان حمید ہیمشائر (Hampshire)کالج میں استاد ہیں۔ ان کے بقول گاڑی چلانے میں بھی جان کا خطرہ لاحق ہے، کیونکہ روز حادثے ہوتے ہیں۔مگر اس بنیاد پرہم گاڑی چلانے کوحرام قرار نہیں دے سکتے۔میں ایک مذہبی عالم نہیں ہوں۔میرامشورہ ہے کہ ہمارے علماء کو اجتہاد کے توسط سے ایک ایسا حل نکالنا چاہیے جس سے ہم سائنس کے اس اہم شعبے میں آگے کی طرف بڑھ سکیں۔
مسلم ممالک میں خلائی تحقیق کاکوئی شعور نہیں۔ ہم محض چندسیارے خلامیں بھیجنے تک محدود ہیں۔ عالم اسلام کو عبور حاصل ہے، توفرقہ کی بنیادپرایک دوسرے کا گلہ کاٹنے پر۔ خلائی تحقیق کی طرف سوچنے تک کابھی کوئی امکان نہیں۔ یہ تو شائدایک جرم ہے۔ خلا کی تسخیر تو ہماری دانست میں صرف کافروں کی ذمے داری ہے۔ ہمارا اس سے کیا واسطہ؟
ڈاکٹر پرندس تاج بخش بین الاقوامی سطح کی وہ واحد مسلمان خاتون ہیں جو خلا (Space) اور مختلف ممالک کے خلائی منصوبوں کے متعلق مسلسل ریسرچ کررہی ہیں۔ان کے مقالات اور مضامین انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر تاج بخش کینیڈا میں مقیم ہیں اور آسٹروفزکس (Astrophysics) میں پی ایچ ڈی ٹورنٹو یونیورسٹی سے کی ہے۔وہ سائنس اور اسلام پرکسی بھی موجودہ مذہبی عالم سے بلندپایہ کام کرنے میں مصروف ہیں۔
امریکا اورروس اس میدان میںدنیاکی قیادت کررہے ہیں۔1957ء میں سوویٹ یونین نے پہلا سیارہ سپٹنک ون (Sputnik 1)زمین کے مدارمیں داخل کیا۔امریکا اس ٹیکنالوجی میں روس سے قدرے پیچھے تھا۔امریکا کودس سال سے زیادہ کاعرصہ لگامگرانھوں نے اپولو (Apollo II) کے ذریعے پہلا خلا باز چاند پر اتارنے کااعزازحاصل کرلیا۔یہ تحقیق کی دنیا میں ایک انقلابی قدم تھا۔نیل آرمسٹرونگ (Neil Armstrong)وہ پہلا انسان تھا جس نے زمین سے باہر ایک اجنبی سیارے پرقدم رکھا۔اس کے ادا کیے ہوئے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں موجود ہیں۔
اخبار میں شائع ہونے والی وہ بلیک اینڈوائٹ تصویر یاد ہے جس میں اس نے خلائی سوٹ پہن رکھا تھا اور وہ امریکا کا قومی جھنڈا لگانے میں مصروف تھا۔ہمارے کچھ دینی حلقوں کا اس غیرمعمولی انسانی کامیابی کے متعلق بہت عجیب رویہ تھا۔اس واقعہ کو فسانہ قرار دینے کی پوری کوشش کی گئی۔ چنددینی حلقے ہرسنجیدہ تحقیق کومتنازع بنانے کی مسلسل کوشش میں آج بھی مصروف ہیں۔ مگریادرکھیے!فتح بالاخرسائنسی تحقیق اور تعصب کے بغیر جدید علوم کی ہی ہوتی ہے۔یہی قدرت کاانمٹ اصول ہے۔
اس کالم میں مختلف ممالک کی خلائی سائنس کے متعلق سیرحاصل باتیں تونہیں کرسکتا مگر چندگزارشات ضرورکروں گا۔ امریکا میں ایک مربوط اورقانونی سپیس پالیسی (Space Policy) ترتیب دی جاتی ہے۔اس کی منظوری امریکا کا صدر اپنے معاونین کی مدد سے پوری بحث کرنے کے بعددیتاہے۔ مقصدصرف ایک ہوتاہے کہ کس طرح امریکا کے" قومی مفادات"کواس سائنسی پالیسی کے تحت مزید محفوظ بنایا جائے۔ تمام معاملہ کانگریس میں پیش کیاجاتاہے اورہر سیاستدان اس پر رائے دینے کاحق رکھتاہے۔پورے پروگرام کی مالیاتی منظوری کانگریس ہی کے اختیارمیں ہے۔وائٹ ہاؤس تین انتہائی جدید تحقیقی اداروں کے ذریعے سپیس پالیسی کونافذ کرتاہے۔یہ تین ادارے,Office of Science and Technology Policy نیشنل سیکیورٹی کونسل اورOffice of Management and Budget ہیں۔
خلائی تحقیق کے لیے بارہ ادارے مختص ہیں۔ ہر ادارے میں درجنوں ذیلی ادارے بھی موجود ہیں۔ہمارے ذہن میں صرف ناسا(NASA) کا نام آتاہے۔ مگر آپ حیران ہوںگے کہ اس کے علاوہ،اسی سطح کے بے شمار ادارے مسلسل کام میں مصروف ہیں۔ ان کے نام اردو میں ترجمہ کرنے سے قاصرہوں۔مگرچندنام لینا چاہتا ہوں۔ جیسے (NOAA) National Oceanic and Atmospheric Administration,(NGA) National Geospatial Intelligence Agency,(N.R.O) National Reconnaissance Office۔ یہ محض چنداداروں کے نام ہیں۔یہ اپنی اپنی جگہ مکمل کائنات ہیں۔ صرف ناسا میں دس ماتحت ذیلی ادارے ہیں۔جسے ایمس ریسرچ سینٹر (Ames Research Centre) یا جانسن سپیس سینٹر (Johnson Space Centre)۔ان تمام اداروں کے مکمل بجٹ کاکسی کو اندازہ نہیں۔2009ء میں یہ چونسٹھ بلین ڈالر تھا۔گمان غالب ہے کہ اب یہ 100 سے 150 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہوگا۔
NOAA میں ایک ذیلی ادارہ ہے۔ اسکا نام Office of Space Commercialization(O.S.C) ہے۔ یہ خلائی سفراورتحقیق کے کمرشل پہلوؤں کو دیکھتا ہے۔ نجی اداروں کوامریکی خلائی پروگرام میں شامل کرتاہے۔اس ایک ذیلی ادارے میں چھ مزیدمحکمے ہیں جوامریکا کے خلائی پروگرام کاہرلمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں۔اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کئی محکموں کی عمرنصف صدی سے بھی زیادہ ہے۔ جیسے N.R.O پچپن سال پہلے قائم کیا تھا۔ میں یہ جزوی اصطلاحیں اس لیے استعمال کررہاہوں کہ ان کے مکمل نام پہلے رقم کرچکا ہوں۔ امریکی ائیرفورس اورفوج کے خلائی ادارے ان کے علاوہ ہیں، جن میں ائیرفورس سپیس کمانڈ(Airforce Space Command)اورآرمی سپیس اینڈ میزائل ڈیفنس کمانڈ (Army Space and Missile Defence Command)سرِفہرست ہیں۔ ان کی عسکری صلاحیت کس بلند درجہ کی ہے یا امریکا کوپوری دنیامیں حد درجہ فضائی برتری حاصل ہے،سب کچھ انھی اداروں کی مرہونِ منت ہے۔
2014ء میں ناسانے ایک محیرالعقول پروگرام کا آغاز کیاہے۔اس منصوبے کامالیاتی خرچہ سترہ بلین ڈالر ہے۔ ناسا نے یہ صلاحیت حاصل کرلی ہے کہ وہ خلامیں ایک ایسا جہاز بھجواسکتی ہے جوروبوٹ کے ذریعے کسی بھی شہاب ثاقب کوگرفت میں لے سکتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب کو پکڑکر ایک نئے مدار میں بھی داخل کرسکتاہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ روبوٹ اب مختلف سیاروں کے مدارکوتبدیل کرنے پرقادرہوچکاہے۔محض اس اقدام سے سائنس کی دنیا میں کیا انقلاب آئیگا، اسکا کسی کو کوئی ادراک نہیں۔مثال کے طورپرایک فصل کوسال میں کئی بار کاشت کیا جانا ممکن ہوجائیگا۔ انسانی بیماریوں پرمکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی جینز(Genes)کوخلامیں دوبارہ Relocate کیا جانا بھی ممکن ہوجائیگا۔ اس تحقیق کے مکمل اثرات کاتعین ابھی ممکن نہیں ہے۔مگرایک اَمربالکل ثابت ہوچکاہے کہ خلابھی اب انسانی قدموں تلے ہے۔یہ معجزہ صرف اورصرف سائنس کی بدولت ممکن ہوا ہے۔
2017ء میں ناساایک اورپروگرام شروع کررہی ہے۔ اسکانام(Space Launch Programme) رکھا گیا ہے۔یہ بارہ بلین ڈالرکامنصوبہ ہے۔اس کے مطابق انسان کو راکٹ کے ذریعے خلاکے اس حصہ پر دسترس حاصل ہوجائیگی جسے"گہری خلا" (Deep Space) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک اورین وہیکل(Orion Vehicle) بنایا گیا ہے۔ اس میں چار خلاباز بیٹھ سکتے ہیں۔جہازمیں مریخ تک جانے کی صلاحیت ہوگی۔ یعنی انسان 2017ء تک مریخ پربھی پہنچ جائیگا۔امریکا نے اس پروگرام میں نجی شعبہ کوبھی کامیابی سے شامل کرلیاہے۔اس میں دوکمپنیاں سرِفہرست ہیں۔
آربیٹل(Orbital)اورسپیس (Space x) x۔دونوں کمپنیوں نے کئی بلین ڈالرمحض اسلیے خرچ کیے ہیں کہ وہ خلامیں قائم شدہ اسٹیشن پرسامان کی ترسیل کے حقوق حاصل کرنا چاہتی ہیں۔دونوں کمپنیوں نے یہ بھی اعلان کردیاہے کہ وہ مختلف سیاروں پرانسانوں کو آباد کرنے میں مددفراہم کریںگی۔یعنی انسان کے پاس اختیارحاصل ہوگاکہ وہ زمین پرزندگی گزارنا چاہتاہے یاکسی اورسیارے پررہناچاہتا ہے۔ شائد آپ کوآج یہ باتیں عجیب لگ رہی ہوں مگر مستقبل میں ایسی تمام چیزیں اتنی عام ہوجائیںگی جتنا موبائل فون،انٹرنیٹ یا کمپیوٹر۔
ڈاکٹرپرندس تاج بخش کی طرف آتاہوں۔میری ذاتی خواہش ہے کہ آپ ان کے مضامین بار بار پڑھیں۔ ایک مسلمان خاتون سائنسدان اس اعلیٰ سطح کاتحقیقی کام سرانجام دے رہی ہے کہ مجھے اس کی کوئی مثال نہیں ملی۔انھوں نے ایک نئی جہت پرکام کیاہے۔اس کانام Anthropocentrism ہے۔ اس بات پرتحقیق جاری ہے کہ زمین پرانسانی نسل اپنے آپ کو مکمل ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایٹمی جنگ،گلوبل وارمنگ(Global Warming) اور تیزی سے کم ہوتے ہوئے قدرتی ذخائر،چندصدیوں میں انسان کی زندگی ختم کرسکتے ہیں۔اس صورتحال کاادراک آج ہوناچاہیے۔اس کا ایک حل انسان کی مریخ پر منتقلی ہے۔ مریخ پرانسانی زندگی اس وجہ سے بھی ممکن ہے کہ وہاں پانی موجودہونے کے شواہد ملے ہیں۔
آج کی مریخی فضامیں انسانی زندگی پنپ نہیں سکتی۔لہذااس فضا کو انسان کے لیے کارآمد بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس منصوبہ کا نامTerraformingرکھا گیا ہے۔ یہ انتہائی سادہ سا پروگرام ہے۔مریخ پرکاربن ڈائی آکسائیڈبرف کے منجمد ڈلیوں کی طرح موجود ہے۔ اس گیس کو برف کی منجمدحیثیت سے مریخ کی فضامیں ایسے منتقل کیا جائیگا جیسے یہ زمین پر ہے۔ اس کے بعد چند جرثوموں(Bacteria)کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں تبدیل کردیاجائے گا۔اس عمل سے مریخ کی زمین پرپانی بھی وافرتعدادمیں مہیا ہوسکے گا۔ آپ کومریخ پررہنے کے لیے کسی مخصوص خلائی لباس کی ضرورت نہیں رہے گی۔آپ زمین کی طرح کھلی فضامیں سانس لے سکیں گے۔
Terraforming کے منصوبہ کی بھرپور مخالفت موجودہے۔ایک طبقے کانظریہ یہ ہے کہ جتنی خطیر رقم اس منصوبہ پرصَرف ہوگی،اس سے دنیاکے ماحولیاتی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ مگراس میں یواے ای کے ایک مذہبی عالم کافتویٰ خاصا دلچسپ ہے۔ اس نے اس پروگرام کو حرام قرار دے دیا ہے۔ بنیاد یہ رکھی گئی ہے کہ کیونکہ اس میں مسافرکی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اورجان بوجھ کراپنی جان کو برباد نہیں کرناچاہیے،لہذایہ حرام ہے۔ یو اے ای میں اس کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ پانچ سومسلمانوں نے لکھ کر دیدیا تھا کہ وہ بھی اس منصوبہ کاحصہ بنناچاہتے ہیں۔
ڈاکٹر تاج بخش نے اپیل کی ہے کہ مسلمان علماء کویہ مسئلہ "اجتہادـ"کے ذریعے سے حل کرنا چاہیے۔ اس مسئلہ پر ڈاکٹر سلمان حمید نے بھی بہت اہم بات کی ہے۔ سلمان حمید ہیمشائر (Hampshire)کالج میں استاد ہیں۔ ان کے بقول گاڑی چلانے میں بھی جان کا خطرہ لاحق ہے، کیونکہ روز حادثے ہوتے ہیں۔مگر اس بنیاد پرہم گاڑی چلانے کوحرام قرار نہیں دے سکتے۔میں ایک مذہبی عالم نہیں ہوں۔میرامشورہ ہے کہ ہمارے علماء کو اجتہاد کے توسط سے ایک ایسا حل نکالنا چاہیے جس سے ہم سائنس کے اس اہم شعبے میں آگے کی طرف بڑھ سکیں۔
مسلم ممالک میں خلائی تحقیق کاکوئی شعور نہیں۔ ہم محض چندسیارے خلامیں بھیجنے تک محدود ہیں۔ عالم اسلام کو عبور حاصل ہے، توفرقہ کی بنیادپرایک دوسرے کا گلہ کاٹنے پر۔ خلائی تحقیق کی طرف سوچنے تک کابھی کوئی امکان نہیں۔ یہ تو شائدایک جرم ہے۔ خلا کی تسخیر تو ہماری دانست میں صرف کافروں کی ذمے داری ہے۔ ہمارا اس سے کیا واسطہ؟