کتابوں کی سبیل مفت مفت مفت
’’یہ بجائے خود ایک نئی علمی مثال ہو گی علمی تعاون کی۔ مگر آپ کی دعاؤں کے بغیر یہ کام نہیں ہو پائے گا۔
ISLAMABAD/لاہور:
نیشنل بک فاؤنڈیشن کا کتاب میلہ سر پر کھڑا ہے۔ بس شروع ہوا چاہتا ہے۔ اسی ہنگام ہمیں ایک کتاب موصول ہوئی۔ اچھے وقت میں موصول ہوئی۔ یہاں بھی تو ایک بک فاؤنڈیشن سے تعارف کی تقریب ہے۔ اس کتاب کا نام ہے 'وہاب نامہ'۔ کبھی کبھی کوئی ایک فرد بھی تو اس طرح بڑھتا پھیلتا ہے کہ اچھا خاصا ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ اور جس فرد کا اس کتاب میں تذکرہ ہے وہ تو اردو کے جملہ اداروں سے بڑھ کر ایک ادارہ ہے۔ اب ہم گلوبل عہد میں رہتے ہیں۔
اردو بھی گلوبلائز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تو اس وقت قریب و دور کے جس شہر میں بھی لندن میں، نیو یارک میں، ٹورنٹو میں، ٹمبکٹو میں، چیچو کی ملیاں میں اردو کا کوئی سنجیدہ قاری بیٹھا ہے اور پریشان ہے کہ فلاں فلاں کتاب مجھے کیسے دستیاب ہو سکتی ہے۔ اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بزرگ جو کہیں امریکا میں چھپا بیٹھا ہے اسے زود یا بدیر اس قاری کی ضرورت کا پتہ چل جائے گا اور وہ کتاب بذریعہ ڈاک یا کسی شریف آدمی کی معرفت اسے پہنچ جائے گی۔ ان کا نام عبدالوہاب سلیم ہے۔
کتنے برسوں کی بات ہے۔ ہمیں ایک اجنبی فون موصول ہوا۔ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔ پوچھ رہے ہیں کہ یہ جو آپ کا کالم لاہور نامہ ہے۔ کیا یہ کالم یک جا ہو کر کتابی شکل میں آ رہے ہیں۔ آ رہے ہیں تو کب اور کیسے۔ ارے ہم تو اپنے ادب کے نشہ میں مگن تھے۔ اس اخباری تحریر کو سبزہ بیگانہ جانتے تھے۔ مگر پھر شاید انھیں کے ٹیلی فونی تقاضوں سے ہمیں اس کالم کی افادیت یا معنویت جو کچھ بھی کہو نظر آنے لگی۔ اور ایک نہیں آگے پیچھے دو مجموعے چھپوا ڈالے۔
اب ان کے ٹیلی فون آنا تو بند ہو گئے تھے۔ مگر پردہ اخفا سے ایک نیا چہرہ نمودار ہوا۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی۔ عبدالوہاب سلیم کا بدل جو وقتاً فوقتاً کتابوں کا بنڈل لے کر نمودار ہوتے تھے۔ اور اس کے ساتھ شربت کی بوتلیں۔ چپڑی اور دو دو ہماری چھوڑو۔ ذرا دوسروں کے تجربات سنو۔ اس مجموعہ میں کسی مضمون میں مشفق خواجہ کا ایک خط درج ہے۔ لکھتے ہیں ''دونوں کتابیں مل گئیں۔... یہ عبدالوہاب خاں صاحب انسان نہیں، فرشتہ معلوم ہوتے ہیں۔ اتنی دور بیٹھ کر اتنا خیال رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اور یہ سلوک دو چار افراد کے ساتھ نہیں بے شمار لوگوں کے ساتھ ہے۔ معلوم نہیں انھیں یہ کیسے علم ہو گیا کہ میری تاریخ پیدائش 19 دسمبر ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ 19 دسمبر کی صبح کو میرے گھر ایک گلدستہ ایک کوریر سروس کے ذریعہ آگیا''۔
وقار مانوی جو اس کتاب کے مرتب ہیں اعجاز بٹالوی سے ملاقات کا احوال یوں بیان کرتے ہیں۔
''وہاب صاحب کے نام کا حوالہ دینا تھا کہ بس وہ اچھل پڑے۔ فرمانے لگے کیا شخصیت پائی ہے انھوں نے۔ ہزاروں میل دور بیٹھ کر احباب نادیدہ کو تحائف بھیجتے رہنے کا سلسلہ نایاب و نادر کتابیں بھجوانا، وہ بھی سب کے ذوق طبع کا خیال رکھتے ہوئے۔ نہ معلوم کس کس ذرائع سے ہم تک کتابیں اور تحائف پہنچتے رہتے ہیں۔ کمال حیرت ہے کہ یہ سارے تعلقات قطعی بے لوث اور بے غرض ہیں''۔
اب ذرا رشید حسن خاں کی سنئے۔ وہاب صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں
آفا قہا گردیدہ ام، مہر تباں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام، لیکن تو چیزے دیگری
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بیش تر علاقوں کو دیکھا اور بار بار دیکھا ہے لیکن آپ جیسا علم دوست' کتاب دوست اور غم گسار نہیں دیکھا۔ کسی تمنا اور کسی طرح کے لگاؤ کے بغیر جو سلوک آپ روا رکھتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ بے مثال ہے''۔
اب مختار مسعود صاحب کی سنئے۔ کہتے ہیں ''اس عہد میں بھی علم دوستی اور ادب نوازی کی سابقہ روایت کی پاسداری عنقا نہیں ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی کئی ایسے علم دوست موجود ہیں جو اپنے ذاتی شوق اور صرفے سے کتب دوستی کی ہماری سابقہ روایت کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ ہم بیرونی دنیا میں کتابی سطح پر ڈاکٹر تقی عابدی کو متمول سنتے آئے تھے کہ ایک اور نام سننے میں آیا اور وہ نام ہے عبدالوہاب خاں سلیم کا۔ وہاب صاحب کی علم دوستی و ادب نوازی کا اعتراف تحقیق، تنقید و تخلیق کے رمز شناس و طباع حضرات نے بڑی فراخ دلی سے کیا ہے۔ ایک ایسے عہد میں جب کہ ہر کس و ناکس کو وقت کی قلت کا شکوہ ہو اور لوگ اپنے سروں پر لامتناہی اشغال کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہوں کسی کا اپنے وقت کو فارغ کر کے اپنے صرفے سے کتابوں کو خریدنا، اپنی ذاتی لائبریری میں محفوظ کرنا' مزید ان کے نسخے ادب کے قدر دانوں تک پہنچانا یقیناً قابل تعریف و لایق تحسین عمل ہے''۔
ہاں رشید حسن خاں کے ایک پروگرام کا ذکر تو ہو ہی نہیں پایا۔ وہ یوں ہے کہ انھوں نے کلیات اقبال (اردو) کو اصول تحقیق کے مطابق مرتب کرنے کی ایک تجویز انجمن ترقی اردو (ہند) کو بھیجی تھی۔ اس کام میں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے اشتراک کو بھی شامل کیا تھا۔ انجمن نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اس کے بعد وہاب صاحب کو لکھتے ہیں۔
''یہ بجائے خود ایک نئی علمی مثال ہو گی علمی تعاون کی۔ مگر آپ کی دعاؤں کے بغیر یہ کام نہیں ہو پائے گا۔ یہ میری زندگی کا آخری بڑا کام ہو گا۔ اس کا اعتراف مقدمہ کتاب میں واضح لفظوں میں کیا جائے گا کہ اگر عبدالوہاب خاں سلیم کی دعائیں شامل حال نہ ہوئیں اور ان کی مسلسل غم گساری ان کا اصرار، ان کی ہمت افزائی میری معاونت نہ کرتی تو یہ کام نہیں ہو سکتا تھا''۔
علم و ادب کی ایسی مستند شخصیتوں کے چیدہ بیانات ہم نے یہ سوچ کر نقل کیے ہیں کہ کیسے کیسے اہل علم اور کیسا کیسا ادب کا رسیا اس شخصیت کے قدر دانوں میں شامل ہے۔ ہمیں آپ کو اور ہم سے بڑھ کر ایسے اداروں کو جو واقعی کتاب کے فروغ کے مدعی ہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ سب سے بڑھ کر یہ ایک شخص تن تنہا اپنے ذاتی وسائل کے زور پر کتاب کے فروغ کا علم لے کر نکلا ہوا ہے۔ اس کے بدلے میں وہ کچھ نہیں چاہتا ع
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلہ کی پروا
فیض کا دریا جاری ہے۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے کہ علم کی جستجو ہے اور کتاب پڑھنے کی لگن ہے تو شتابی سے آؤ اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو۔
اس شخصیت سے ہمارا جیسا کہ شروع میں بیان کیا پہلے ہی تعارف تھا۔ اب یہ کتاب وہاب نامہ جو وقار مانوی نے مرتب کی ہے اور دلی سے شائع ہوئی ہے نظر سے گزری تو پتہ چلا کہ ہم ایسے ہی نہیں اردو دنیا کے سب ہی اہل علم اور ادب کے رسیا اس کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں ع
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
نیشنل بک فاؤنڈیشن کا کتاب میلہ سر پر کھڑا ہے۔ بس شروع ہوا چاہتا ہے۔ اسی ہنگام ہمیں ایک کتاب موصول ہوئی۔ اچھے وقت میں موصول ہوئی۔ یہاں بھی تو ایک بک فاؤنڈیشن سے تعارف کی تقریب ہے۔ اس کتاب کا نام ہے 'وہاب نامہ'۔ کبھی کبھی کوئی ایک فرد بھی تو اس طرح بڑھتا پھیلتا ہے کہ اچھا خاصا ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ اور جس فرد کا اس کتاب میں تذکرہ ہے وہ تو اردو کے جملہ اداروں سے بڑھ کر ایک ادارہ ہے۔ اب ہم گلوبل عہد میں رہتے ہیں۔
اردو بھی گلوبلائز ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تو اس وقت قریب و دور کے جس شہر میں بھی لندن میں، نیو یارک میں، ٹورنٹو میں، ٹمبکٹو میں، چیچو کی ملیاں میں اردو کا کوئی سنجیدہ قاری بیٹھا ہے اور پریشان ہے کہ فلاں فلاں کتاب مجھے کیسے دستیاب ہو سکتی ہے۔ اسے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بزرگ جو کہیں امریکا میں چھپا بیٹھا ہے اسے زود یا بدیر اس قاری کی ضرورت کا پتہ چل جائے گا اور وہ کتاب بذریعہ ڈاک یا کسی شریف آدمی کی معرفت اسے پہنچ جائے گی۔ ان کا نام عبدالوہاب سلیم ہے۔
کتنے برسوں کی بات ہے۔ ہمیں ایک اجنبی فون موصول ہوا۔ جان نہ پہچان بڑی خالہ سلام۔ پوچھ رہے ہیں کہ یہ جو آپ کا کالم لاہور نامہ ہے۔ کیا یہ کالم یک جا ہو کر کتابی شکل میں آ رہے ہیں۔ آ رہے ہیں تو کب اور کیسے۔ ارے ہم تو اپنے ادب کے نشہ میں مگن تھے۔ اس اخباری تحریر کو سبزہ بیگانہ جانتے تھے۔ مگر پھر شاید انھیں کے ٹیلی فونی تقاضوں سے ہمیں اس کالم کی افادیت یا معنویت جو کچھ بھی کہو نظر آنے لگی۔ اور ایک نہیں آگے پیچھے دو مجموعے چھپوا ڈالے۔
اب ان کے ٹیلی فون آنا تو بند ہو گئے تھے۔ مگر پردہ اخفا سے ایک نیا چہرہ نمودار ہوا۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی۔ عبدالوہاب سلیم کا بدل جو وقتاً فوقتاً کتابوں کا بنڈل لے کر نمودار ہوتے تھے۔ اور اس کے ساتھ شربت کی بوتلیں۔ چپڑی اور دو دو ہماری چھوڑو۔ ذرا دوسروں کے تجربات سنو۔ اس مجموعہ میں کسی مضمون میں مشفق خواجہ کا ایک خط درج ہے۔ لکھتے ہیں ''دونوں کتابیں مل گئیں۔... یہ عبدالوہاب خاں صاحب انسان نہیں، فرشتہ معلوم ہوتے ہیں۔ اتنی دور بیٹھ کر اتنا خیال رکھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اور یہ سلوک دو چار افراد کے ساتھ نہیں بے شمار لوگوں کے ساتھ ہے۔ معلوم نہیں انھیں یہ کیسے علم ہو گیا کہ میری تاریخ پیدائش 19 دسمبر ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ 19 دسمبر کی صبح کو میرے گھر ایک گلدستہ ایک کوریر سروس کے ذریعہ آگیا''۔
وقار مانوی جو اس کتاب کے مرتب ہیں اعجاز بٹالوی سے ملاقات کا احوال یوں بیان کرتے ہیں۔
''وہاب صاحب کے نام کا حوالہ دینا تھا کہ بس وہ اچھل پڑے۔ فرمانے لگے کیا شخصیت پائی ہے انھوں نے۔ ہزاروں میل دور بیٹھ کر احباب نادیدہ کو تحائف بھیجتے رہنے کا سلسلہ نایاب و نادر کتابیں بھجوانا، وہ بھی سب کے ذوق طبع کا خیال رکھتے ہوئے۔ نہ معلوم کس کس ذرائع سے ہم تک کتابیں اور تحائف پہنچتے رہتے ہیں۔ کمال حیرت ہے کہ یہ سارے تعلقات قطعی بے لوث اور بے غرض ہیں''۔
اب ذرا رشید حسن خاں کی سنئے۔ وہاب صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں
آفا قہا گردیدہ ام، مہر تباں ورزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام، لیکن تو چیزے دیگری
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بیش تر علاقوں کو دیکھا اور بار بار دیکھا ہے لیکن آپ جیسا علم دوست' کتاب دوست اور غم گسار نہیں دیکھا۔ کسی تمنا اور کسی طرح کے لگاؤ کے بغیر جو سلوک آپ روا رکھتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ بے مثال ہے''۔
اب مختار مسعود صاحب کی سنئے۔ کہتے ہیں ''اس عہد میں بھی علم دوستی اور ادب نوازی کی سابقہ روایت کی پاسداری عنقا نہیں ہوئی۔ برصغیر پاک و ہند میں آج بھی کئی ایسے علم دوست موجود ہیں جو اپنے ذاتی شوق اور صرفے سے کتب دوستی کی ہماری سابقہ روایت کو زندہ کیے ہوئے ہیں۔ ہم بیرونی دنیا میں کتابی سطح پر ڈاکٹر تقی عابدی کو متمول سنتے آئے تھے کہ ایک اور نام سننے میں آیا اور وہ نام ہے عبدالوہاب خاں سلیم کا۔ وہاب صاحب کی علم دوستی و ادب نوازی کا اعتراف تحقیق، تنقید و تخلیق کے رمز شناس و طباع حضرات نے بڑی فراخ دلی سے کیا ہے۔ ایک ایسے عہد میں جب کہ ہر کس و ناکس کو وقت کی قلت کا شکوہ ہو اور لوگ اپنے سروں پر لامتناہی اشغال کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہوں کسی کا اپنے وقت کو فارغ کر کے اپنے صرفے سے کتابوں کو خریدنا، اپنی ذاتی لائبریری میں محفوظ کرنا' مزید ان کے نسخے ادب کے قدر دانوں تک پہنچانا یقیناً قابل تعریف و لایق تحسین عمل ہے''۔
ہاں رشید حسن خاں کے ایک پروگرام کا ذکر تو ہو ہی نہیں پایا۔ وہ یوں ہے کہ انھوں نے کلیات اقبال (اردو) کو اصول تحقیق کے مطابق مرتب کرنے کی ایک تجویز انجمن ترقی اردو (ہند) کو بھیجی تھی۔ اس کام میں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے اشتراک کو بھی شامل کیا تھا۔ انجمن نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اس کے بعد وہاب صاحب کو لکھتے ہیں۔
''یہ بجائے خود ایک نئی علمی مثال ہو گی علمی تعاون کی۔ مگر آپ کی دعاؤں کے بغیر یہ کام نہیں ہو پائے گا۔ یہ میری زندگی کا آخری بڑا کام ہو گا۔ اس کا اعتراف مقدمہ کتاب میں واضح لفظوں میں کیا جائے گا کہ اگر عبدالوہاب خاں سلیم کی دعائیں شامل حال نہ ہوئیں اور ان کی مسلسل غم گساری ان کا اصرار، ان کی ہمت افزائی میری معاونت نہ کرتی تو یہ کام نہیں ہو سکتا تھا''۔
علم و ادب کی ایسی مستند شخصیتوں کے چیدہ بیانات ہم نے یہ سوچ کر نقل کیے ہیں کہ کیسے کیسے اہل علم اور کیسا کیسا ادب کا رسیا اس شخصیت کے قدر دانوں میں شامل ہے۔ ہمیں آپ کو اور ہم سے بڑھ کر ایسے اداروں کو جو واقعی کتاب کے فروغ کے مدعی ہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ سب سے بڑھ کر یہ ایک شخص تن تنہا اپنے ذاتی وسائل کے زور پر کتاب کے فروغ کا علم لے کر نکلا ہوا ہے۔ اس کے بدلے میں وہ کچھ نہیں چاہتا ع
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلہ کی پروا
فیض کا دریا جاری ہے۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے کہ علم کی جستجو ہے اور کتاب پڑھنے کی لگن ہے تو شتابی سے آؤ اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لو۔
اس شخصیت سے ہمارا جیسا کہ شروع میں بیان کیا پہلے ہی تعارف تھا۔ اب یہ کتاب وہاب نامہ جو وقار مانوی نے مرتب کی ہے اور دلی سے شائع ہوئی ہے نظر سے گزری تو پتہ چلا کہ ہم ایسے ہی نہیں اردو دنیا کے سب ہی اہل علم اور ادب کے رسیا اس کے نام کا کلمہ پڑھتے ہیں ع
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ