ایران اور مشرق وسطیٰ
عرب بادشاہتوں کا وجود واقعی خطرے میں ہے۔ وہ بادشاہتیں جو برطانیہ نے قائم کیں اور جن کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمنی باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی اور امریکا نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ حوثی باغیوں پر لگائی گئی اقوام متحدہ کی پابندیوں کی پاسداری کرے۔ یمن کے بحران میں شدت اس وقت آئی جب عرب بہار کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ عرب بہار مشرق وسطیٰ میں امریکا کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ عرب بہار کے ذریعے امریکا مشرق وسطیٰ کے عوام میں اپنا جمہوریت پسند چہرہ پیش کرنا چاہتا تھا۔ وہ عرب عوام جو امریکی سرپرستی میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے بے پناہ مظالم سے عاجز تھے اور دوسری طرف وہ اس بات سے بھی نالاں تھے کہ امریکی سرپرستی میں قائم عرب بادشاہتوں، آمریتوں نے ان کو سیاسی جمہوی حقوق سے محروم کیا ہوا ہے۔
عرب بہار کا امریکی تجربہ مکمل ناکام رہا۔ اس نے خطے میں قائم چالیس سالہ پرانی آمریتوں کا خاتمہ تو کر دیا لیکن اس کے نتیجے میں خطہ عدم استحکام سے دوچارہو گیا جو اس سے پہلے مصنوعی طور پر مستحکم نظر آتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے وہ سبق پوشیدہ ہو جو ایرانی انقلاب سے امریکا نے حاصل کیا کہ اگر کسی ملک کے عوام پر ناپسندیدہ بادشاہتیںیا آمریتیں ایک طویل عرصے تک مسلط رکھی جائیں تو اس ملک میں پھر ایسی تبدیلی آتی ہے جو وہاں پر اس کے مفادات کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ عرب بہار کی سب سے بڑی ناکامی امریکا کو مصر میں ہوئی۔ جہاں حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ کر کے اخوان المسلمین کو اقتدار میں لانے میں مددگار ہوا جنھیں ویسے بھی مصری عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل تھی لیکن اخوان کی جلد بازی اور بے تابی نے امریکا کو بدحواس کر دیا جس کے نتیجے میں حسنی مبارک آمریت کے خاتمے کے بعد جنرل الفتح السیسی کی آمریت نے اس کی جگہ لے لی۔
اس تمام صورت حال نے عرب بادشاہتوں پر سراسمیگی اور بدحواسی طاری کر دی۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں آخر چاہتا کیا ہے۔ ابھی وہ اس عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہی تھے کہ شام کے عوام بشارالاسد کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ عرب بادشاہتوں نے موقع غنیمت جانا اور شام میں شدت پسند مذہبی گروہوں کی ہر طرح کی اسلحی اور مالی مدد شروع کر دی۔ ردعمل میں ایران بھی بشارالاسد کی حمایت میں آ گیا۔ کیونکہ یہ صورت حال اس کی سلامتی کے لیے خطرہ تھی۔ عراق میں شیعہ اکثریتی حکومت کے خلاف مذہبی شدت پسند گروہ پہلے ہی سرگرم تھے جس کا نتیجہ سیکڑوں لوگوں کے روزانہ قتل عام میں نکلا۔ اس تمام صورتحال کا بھر پور فائدہ اسرائیل کو پہنچا کہ وہ بشارالاسد اور ایران کی حکومتوں سے انتقام لینا چاہتا تھا کہ یہ دونوں اسرائیل کے ظلم کے خلاف فلسطینیوں کی مسلسل کیوں حمایت کر رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی ناکامی سے دوچار ہے تو دوسری طرف عرب بادشاہتوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے کیوں کہ عراق و شام میں مذہبی شدت پسندوں کی ہر طرح کی سرپرستی کے باوجود داعش جیسی دہشت گرد تنظیم وجود میں آ گئی جو امریکی اتحادی عرب بادشاہتوں کا ہر صورت خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔
عرب بادشاہتوں کا وجود واقعی خطرے میں ہے۔ وہ بادشاہتیں جو برطانیہ نے قائم کیں اور جن کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے۔ ان بادشاہتوں کو اصل خطرہ اپنے عوام سے ہے کسی اور سے نہیں۔ خاندانی بادشاہتیں جنھوں نے اپنے عوام کے حقوق غضب کیے ہوئے ہیں۔ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایران امریکا ڈیل اس کا واضح ثبوت ہے۔ عرب بادشاہتیں برطانیہ اور امریکا نے اس لیے قائم کیں کہ سستے تیل اور اس کی سپلائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ عرب بادشاہتیں اور اسرائیل لازم و ملزوم ہیں ۔دونوں نے ایک دوسرے کی بقا اور ساتھ ہی ساتھ مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر امریکی قبضہ ممکن بنایا۔ اب تو اسرائیل کا توسیع پسندانہ کردار بھی مسقبل میں وہ نہیں رہے گا جو ماضی تھا۔ ایران امریکا ڈیل اس بات کا ثبوت ہے کہ طویل مدت تاریخی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ ماضی کا خاتمہ نئے عہد کا آغاز بنے گا۔
اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کی ذہنی ہم آہنگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دونوں ہی ایران امریکا ڈیل کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔ اندازہ کریں کہ عرب بادشاہتوں کو اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں جس کے پاس سیکڑوں ایٹم بم ہیں جب کہ اسے ایران سے خطرہ ہے جس کا ایٹم بم ابھی وجود میں ہی نہیں آیا۔۔۔۔ ہے ناحیرت کی بات۔
ایران کے حوالے سے تاریخی حقائق یہ ہیں کہ اس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی طیارے بھارتی ہوائی اڈوں پر بمباری کے بعد ایرانی ہوائی اڈوں پر اترتے تھے جہاں وہ محفوظ تھے۔
ایران امریکا ڈیل سے ایران مخالف عناصر اسرائیل سمیت سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کی تو دلی خواہش تھی کہ امریکا اور اسرائیل ایران پر ایٹم بم پھینک کر اسے نیست و نابود کر دیتے۔ ان بے چاروں کو یہ نہیں پتہ کہ ملکوں کے درمیان نہ دشمنی مستقل ہوئی ہے نہ دوستی۔ مقدر کا ان دیکھا ہاتھ تاریخ کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایران نے یہ عظیم الشان تاریخی کامیابی خیرات میں حاصل نہیں کی۔ اس کے لیے انھوں نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دی۔ کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔
ایران کا خطے میں نیا کردار عرب عوام کے مفاد میں ہو گا۔
اگست ستمبر سے مشرق وسطیٰ میں تاریخی تبدیلی کا آغازہو جائے گا۔
عرب بہار کا امریکی تجربہ مکمل ناکام رہا۔ اس نے خطے میں قائم چالیس سالہ پرانی آمریتوں کا خاتمہ تو کر دیا لیکن اس کے نتیجے میں خطہ عدم استحکام سے دوچارہو گیا جو اس سے پہلے مصنوعی طور پر مستحکم نظر آتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے وہ سبق پوشیدہ ہو جو ایرانی انقلاب سے امریکا نے حاصل کیا کہ اگر کسی ملک کے عوام پر ناپسندیدہ بادشاہتیںیا آمریتیں ایک طویل عرصے تک مسلط رکھی جائیں تو اس ملک میں پھر ایسی تبدیلی آتی ہے جو وہاں پر اس کے مفادات کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ عرب بہار کی سب سے بڑی ناکامی امریکا کو مصر میں ہوئی۔ جہاں حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ کر کے اخوان المسلمین کو اقتدار میں لانے میں مددگار ہوا جنھیں ویسے بھی مصری عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل تھی لیکن اخوان کی جلد بازی اور بے تابی نے امریکا کو بدحواس کر دیا جس کے نتیجے میں حسنی مبارک آمریت کے خاتمے کے بعد جنرل الفتح السیسی کی آمریت نے اس کی جگہ لے لی۔
اس تمام صورت حال نے عرب بادشاہتوں پر سراسمیگی اور بدحواسی طاری کر دی۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں آخر چاہتا کیا ہے۔ ابھی وہ اس عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہی تھے کہ شام کے عوام بشارالاسد کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ عرب بادشاہتوں نے موقع غنیمت جانا اور شام میں شدت پسند مذہبی گروہوں کی ہر طرح کی اسلحی اور مالی مدد شروع کر دی۔ ردعمل میں ایران بھی بشارالاسد کی حمایت میں آ گیا۔ کیونکہ یہ صورت حال اس کی سلامتی کے لیے خطرہ تھی۔ عراق میں شیعہ اکثریتی حکومت کے خلاف مذہبی شدت پسند گروہ پہلے ہی سرگرم تھے جس کا نتیجہ سیکڑوں لوگوں کے روزانہ قتل عام میں نکلا۔ اس تمام صورتحال کا بھر پور فائدہ اسرائیل کو پہنچا کہ وہ بشارالاسد اور ایران کی حکومتوں سے انتقام لینا چاہتا تھا کہ یہ دونوں اسرائیل کے ظلم کے خلاف فلسطینیوں کی مسلسل کیوں حمایت کر رہے ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی ناکامی سے دوچار ہے تو دوسری طرف عرب بادشاہتوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے کیوں کہ عراق و شام میں مذہبی شدت پسندوں کی ہر طرح کی سرپرستی کے باوجود داعش جیسی دہشت گرد تنظیم وجود میں آ گئی جو امریکی اتحادی عرب بادشاہتوں کا ہر صورت خاتمہ کرنا چاہتی ہے۔
عرب بادشاہتوں کا وجود واقعی خطرے میں ہے۔ وہ بادشاہتیں جو برطانیہ نے قائم کیں اور جن کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے۔ ان بادشاہتوں کو اصل خطرہ اپنے عوام سے ہے کسی اور سے نہیں۔ خاندانی بادشاہتیں جنھوں نے اپنے عوام کے حقوق غضب کیے ہوئے ہیں۔ مستقبل میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ ایران امریکا ڈیل اس کا واضح ثبوت ہے۔ عرب بادشاہتیں برطانیہ اور امریکا نے اس لیے قائم کیں کہ سستے تیل اور اس کی سپلائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ عرب بادشاہتیں اور اسرائیل لازم و ملزوم ہیں ۔دونوں نے ایک دوسرے کی بقا اور ساتھ ہی ساتھ مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر امریکی قبضہ ممکن بنایا۔ اب تو اسرائیل کا توسیع پسندانہ کردار بھی مسقبل میں وہ نہیں رہے گا جو ماضی تھا۔ ایران امریکا ڈیل اس بات کا ثبوت ہے کہ طویل مدت تاریخی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ ماضی کا خاتمہ نئے عہد کا آغاز بنے گا۔
اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کی ذہنی ہم آہنگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ دونوں ہی ایران امریکا ڈیل کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔ اندازہ کریں کہ عرب بادشاہتوں کو اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں جس کے پاس سیکڑوں ایٹم بم ہیں جب کہ اسے ایران سے خطرہ ہے جس کا ایٹم بم ابھی وجود میں ہی نہیں آیا۔۔۔۔ ہے ناحیرت کی بات۔
ایران کے حوالے سے تاریخی حقائق یہ ہیں کہ اس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی طیارے بھارتی ہوائی اڈوں پر بمباری کے بعد ایرانی ہوائی اڈوں پر اترتے تھے جہاں وہ محفوظ تھے۔
ایران امریکا ڈیل سے ایران مخالف عناصر اسرائیل سمیت سخت صدمے سے دوچار ہیں۔ ان کی تو دلی خواہش تھی کہ امریکا اور اسرائیل ایران پر ایٹم بم پھینک کر اسے نیست و نابود کر دیتے۔ ان بے چاروں کو یہ نہیں پتہ کہ ملکوں کے درمیان نہ دشمنی مستقل ہوئی ہے نہ دوستی۔ مقدر کا ان دیکھا ہاتھ تاریخ کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ ایران نے یہ عظیم الشان تاریخی کامیابی خیرات میں حاصل نہیں کی۔ اس کے لیے انھوں نے لاکھوں انسانوں کی قربانی دی۔ کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کیا۔
ایران کا خطے میں نیا کردار عرب عوام کے مفاد میں ہو گا۔
اگست ستمبر سے مشرق وسطیٰ میں تاریخی تبدیلی کا آغازہو جائے گا۔