بھارت ایک خطرناک راستے پر
کلدیپ نیئر بھی اس حوالے سے بہت متفکر ہیں اور مودی حکومت کی پالیسیوں سے نالاں بھی ہیں،
بھارت بی جے پی حکومت میں کس تیزی سے ایک متعصب ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے اس کا اندازہ وہاں سے آنے والی خبروں سے کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جس راہ پر بھارت کو لے جا رہے ہیں وہ اس قدر پر خطر ہے کہ اس خطے میں مذہبی انتہاپسندی اور مذہبی ریاستوں کا ایک ایسا خطرناک کلچر فروغ پا سکتا ہے ۔اطلاع کے مطابق ہندو انتہاپسند تنظیم شیو سینا نے بھارتی مسلمانوں کے ووٹ ڈالنے کے حق پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ووٹ بینک کو سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
آل انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق آل انڈیا یا ہندو مہاسبھا کی نائب صدر سادھوی دیوی ٹھاکرے نے مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پوری طاقت سے روکنے اور ان کی نس بندی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سادھوی دیوی کہتی ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہندوؤں اور ہندوستان کے لیے خطرہ ہے، اس خطرے کو روکنے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے ان کمیونٹیز کی زبردستی نس بندی کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ہندوؤں میں زیادہ بچے پیدا کرنے کی تبلیغ کرنا چاہیے، مساجد اور چرچوں میں دیوی دیوتاؤں کے بت رکھے جانے چاہئیں۔ راشٹریہ سیوک سنگھ اور ہندو مہاسبھا بھارت کی وہ انتہاپسند تنظیمیں ہیں جو بی جے پی حکومت کی سرپرستی کرتی ہیں اور اسے گائیڈ لائن فراہم کرتی ہیں، بھارت کے سیکولر حلقے مودی حکومت اور اس کی سرپرست انتہاپسند ہندو تنظیموں کے کردار سے بہت ہراساں ہیں۔
کلدیپ نیئر بھی اس حوالے سے بہت متفکر ہیں اور مودی حکومت کی پالیسیوں سے نالاں بھی ہیں، کلدیپ نیئر نے ایکسپریس میں جو کالم لکھا ہے اس کا عنوان ہے ''سیکولرزم پر ہندوتوا کا لبادہ''۔ نیئر لکھتے ہیں ''اپنی ناکامی کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم عوام کے ذہنوں میں سیکولر اقتدار راسخ نہیں کرسکے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو متعصب ہندو تنظیم آر ایس ایس کی طرف سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں اور بہت سے ہندو بیوروکریٹس جو متعصبانہ ماحول میں رہ رہے ہیں وہ اس صورتحال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمارے آئین کے دیباچے میں سیکولرزم کا نقطہ اب بھی موجود ہے لیکن اس کو آئین سے نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اقلیتیں ڈر اور خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں، انتہاپسند طاقتیں سمجھتی ہیں کہ ہندوتوا کے نظریے پر عملدرآمد کرنا ان کا فرض ہے۔
مودی حکومت نے ملک کی سیکولر قدروں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہریانہ میں سنسکرت زبان اور گیتا کی تدریس لازمی قرار دے دی گئی ہے جو ایک ایسی بدشگونی ہے جس کے مضر اثرات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مودی حکومت حالات کا جائزہ لے رہی ہے، جیسے ہی اسے اندازہ ہو جائے گا کہ حالات اس کے حق میں ہیں وہ ہندوتوا کو بھارت پر مسلط کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔'' کلدیپ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ مودی کے حقیقی عزائم اب کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ اس حقیقت کے بعد بھی آزاد خیال طاقتوں کا غیر فعال رہنا بہت تشویشناک ہے۔ ملک پر کسی ایک مذہب کا غلبہ ملک کے مستقبل کے لیے بہت تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
کلدیپ نیئر کا تعلق اگرچہ ہندو مذہب سے ہے لیکن وہ مذہبی انتہاپسندی کے سخت خلاف ہیں، اسے صرف ہندوستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے وہ بی جے پی حکومت اور اس کے سربراہ نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مودی حکومت کو بھارت کے مستقبل کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہیں۔ بھارت کا حکمران طبقہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کا سخت مخالف ہے اور ممبئی حملوں کے حوالے سے اس حملے کے ملزموں کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس طبقے کو بالکل یہ احساس نہیں کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کا ایک بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے، اس مسئلے کو اگر پرامن طریقے سے حل کر لیا جائے تو نہ صرف پاکستان میں بلکہ اس پورے خطے سے مذہبی انتہاپسندی کے فروغ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا لیکن بھارت کی کسی حکومت کو اس مسئلے کے خطرناک مضمرات کا ادراک و احساس نہیں رہا اور وہ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتی رہیں۔
پاکستان بلاشبہ مذہبی انتہاپسند طاقتوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک پر مذہبی انتہاپسند طاقتوں کی اجارہ داری ہے اور وہ جب چاہیں اس ملک کے ڈھانچے کو تہہ و بالا کر سکتی ہیں، یہ غلط تصور اس لیے مضبوط ہوا ہے کہ ان انتہاپسند طاقتوں کے پاس سادہ لوح کارکنوں کا ایک ہجوم ہے جو بے سوچے سمجھے اپنی عاقبت نااندیش قیادت کے حکم پر لبیک کہتا ہے، لیکن اس فرضی طاقت کو خطرہ سمجھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کی اصل طاقت اور طاقت کا مرکز 18 کروڑ عوام ہیں جو عملاً سیکولر اور اعتدال پسند ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1970ء سے 2013ء تک ہونے والے ہر الیکشن میں انھوں نے مذہبی انتہاپسند ہی نہیں بلکہ مذہبی اعتدال پسند طاقتوں کو بھی مسترد کر دیا اور آج یہ جماعتیں ایک ضمنی انتخاب جیتنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔
پاکستان میں مذہبی انتہاپسند طاقتوں کے فروغ کا دوسرا بڑا سبب ہماری حکومتوں کا وہ رویہ ہے جو ذاتی جماعتی اور سیاسی مفادات کے لیے نہ صرف مذہبی انتہاپسند طاقتوں کی سرپرستی کرتی آئی ہیں بلکہ سیاست میں ان طاقتوں کو استعمال بھی کرتی آئی ہیں۔ یہ سیاست جہاں ملک کے مستقبل کے لیے تباہ کن ہے وہیں ملک کے اندر مذہبی انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن رہی ہے۔ ضرورت خواہ حکومتوں کی ہو یا بالادست طاقتوں کی سب کو کسی حوالے سے بھی مذہبی انتہاپسندی کی سرپرستی سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
ہماری مسلح افواج ضرب عضب کے حوالے سے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف سخت اور بامعنی آپریشن تو کر رہی ہیں لیکن ملک بھر میں وہ مذہبی انتہاپسند جماعتیں جنھیں خود حکومت نے کالعدم قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی ہے وہ مختلف ناموں کے ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ دھڑلے سے بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں، جلوس نکال رہی ہیں اور بھاری سرمائے کے ساتھ عوام کے ذہنوں کو زہر آلود بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کیا سرکار کو ان کی سرگرمیوں کا علم نہیں، اگر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار ان کی آج بھی سرپرستی کر رہی ہے۔ یہ ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے جس کا عوام اور میڈیا کو نوٹس لینا چاہیے، ورنہ ہمارا ملک بھی بھارت کے نقش قدم پر چل پڑے گا، جس کا انجام خطرناک ہو گا۔