زندہ لاشیں

کیا پاکستانی یا اہل کراچی زندہ لاشیں ہیں؟ ہم اس دن زندہ لاش بنے تھے جب 11 ستمبر آیا تھا۔


[email protected]

کیا پاکستانی یا اہل کراچی زندہ لاشیں ہیں؟ ہم اس دن زندہ لاش بنے تھے جب 11 ستمبر آیا تھا۔ ریڈیو پر ایک خبر سن کر ہر پاکستانی زندہ لاش بن گیا تھا۔ قائداعظم کے انتقال نے ہر پاکستانی کو ادھ موا کردیا تھا۔ اس دن اگر فاطمہ جناح اور دینا جناح کی تصاویر دیکھیں تو وہ غم اور اداسی کی تصاویر تھیں۔ پھر پاکستانی آہستہ آہستہ سنبھلنا شروع ہوئے۔ تین سال اور پانچ ہفتے گزرے تو پاکستانی ایک بار پھر مجسم مردہ ہوگئے تھے۔ راولپنڈی میں وزیراعظم کی شہادت نے پاکستانیوں کو مبہوت کردیا، وہ حیرت کے مجسمے بن گئے۔ قائد ملت کی شہادت نے لیاقت علی خان کو تو شہید ملت بنادیا لیکن پاکستانی بے جان ہوگئے۔

جوں توں کرکے سات سال اور گزرے۔ پاکستانی زندہ لاش بن گئے لیکن بے خبر تھے۔ قائداعظم اور قائد ملت کے رخصت ہونے پر انھیں علم تھا کہ بڑا صدمہ ہے۔ ایک اور سانحہ ہوا جس پر خوشیاں منائی گئیں۔ جمہوریت لپیٹ دی گئی اور آئین کو بوٹوں تلے کچل دیا گیا۔ قوم کو نکل کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ بے حسی کا یہ عالم تھا کہ وہ چپ رہے۔ عوام تو عوام سیاستدان بھی خاموش رہے۔ سیاستدان تو سیاستدان بلکہ صحافت بھی مہر بہ لب رہی۔ صحافت تو صحافت عدالت بھی خاموش نظر آئی۔ جب کسی طرح ''ڈوسو کیس'' سامنے آیا تو علم ہوا کہ عدلیہ بھی ردعمل نہیں دے رہی۔ یہ کیفیت ایوب کے دس برسوں تک رہی۔ پنجرے میں قید طوطے کو تھوڑی بہت خوراک ملنے پر وہ خوش تھا۔ جب مردہ ہونے کا احساس ایک عشرے بعد ہوا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا لیکن آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گیا۔ کمزور فیلڈ مارشل کے بجائے طاقتور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو قبول کرلیا۔ زندہ لاشیں شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زبان رکھنے پر مجبور ہوگئیں۔ جب جاگے تو ایک بار پھر مجسم مردہ تھے کہ مشرقی حصہ ہم سے جدا ہوچکا تھا۔

بھٹو کے ساڑھے پانچ برسوں نے حوصلہ دیا تو حوصلوں کو توڑا بھی۔ امنگ دی تو مایوسی بھی پیدا کی۔ صحافت پا بہ زنجیر، عدلیہ پابند اور اپوزیشن پس زنداں کردی گئی۔ پاکستانی زندہ لاشیں اس لیے نہ کہلائے کہ آدھے پاکستانی تو بھٹو سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ بھٹو گئے تو جنرل ضیا الحق آگئے۔ اب صرف پیپلز پارٹی کے جیالے ہی مجسم مردہ تھے۔ اب آدھے پاکستانیوں کو ضیا سے روشنی پانے کی امید تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا انوکھا موقع تھا۔ قائدین کی رحلت اور سقوط ڈھاکہ پر ہر پاکستانی زندہ لاش تھا۔ ایوب و یحییٰ کے مارشل لا پر کوئی بھی ادھ موا نہ ہوا۔ تمام پاکستانی ایک ہی جانب تھے۔ ان کا غمگین ہونے اور بے حس ہونے پر اتفاق تھا۔ بھٹو کے آنے اور جانے پر ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ جغرافیائی طور پر بنگال کے الگ ہونے پر اور نظریاتی طور پر اینٹی بھٹو اور پرو بھٹو ہونے پر۔ ایک مقام پر سب کا اتفاق ہوا۔ جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو پورا پاکستان بے حرکت ہوگیا۔ جیالے رونے لگے اور بھٹو کی ذات سے نقصان اٹھانے والے غمگین خاموشی میں ڈوب گئے۔ زندہ بھٹو کے نام پر بٹی قوم ان کی پھانسی پر غم میں ایک ہوگئی۔

ضیا الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا تو قوم ایک بار پھر بٹ گئی۔ زندہ لاش تو کوئی نہ بنا لیکن اندرونی خوشی جیالوں کی اور اندرونی غم ضیا کے حامیوں کا صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ اب قوم نے بے جان بننے کا عمل چھوڑ دیا تھا۔ وہ پہلے بے حس اور پھر بے گانے ہوگئے۔ وہ مردہ بننے کے عمل سے اس لیے انکاری ہوگئے کہ کسی عمل میں ان کی رائے کی کوئی اہمیت ہی نہ تھی۔ وہ ایوب کو ہٹانے گئے تو یحییٰ آگئے اور بھٹو کو ہٹانے گئے تو ضیا تشریف لے آئے۔ وہ اب بیگانی شادی میں عبداللہ کی طرح دیوانہ بننے کو تیار نہ تھے۔

زندہ لاشوں نے اپنے اپنے قبرستان الگ الگ کرلیے۔ یہ پرانی صدی ختم ہونے سے بارہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین والوں کو یہاں کا گورا چٹا گبرو جوان پسند آیا تو کراچی کے لوگوں کو شہر قائد کے باسیوں کے لیے نوکریاں دلانے کا دعویدار بھا گیا۔ سندھیوں کو بھٹو کی بیٹی کے ذریعے بھٹو کے احسانات چکانے کا موقع ملا تو پختون کو راشہ راشہ سمجھنے والے پسند آئے۔ صرف سرائیکی بیلٹ تھی جس نے زندہ درگور ہونے کا الزام اپنے سر سے جھٹکا۔ نمائندے ان کے بھی لغاری،گیلانی، مزاری، کھوسے اور قریشی تھے لیکن اوپر کی قیادت ان کی ہم زبان نہ تھی۔ وہ مردوں کے قبرستان میں زندہ یا اندھوں میں کانے راجہ تھے۔

زندہ لاشیں اور الگ الگ قبرستان کے الزام کہنے والوں کے سامنے مشرف آئے۔ لاہور اور لاڑکانے کے وزرائے اعظم کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا گیا۔ ایسے میں سن دو ہزار سات کا مارچ آگیا۔ صدر نے چیف جسٹس سے استعفیٰ لینے کی کوشش کی۔ آٹھ سال تک فوجی وردی والے صدر ہونے کے باوجود آزادی دینے والے کا امتحان شروع ہوگیا۔ خواب غفلت میں پڑے لوگوں کے ہجوم میں سے وکلا باہر نکل آئے۔ کالا کوٹ اور کالی ٹائی کے نعروں سے پہلے عدالتیں اور پھر پورا ملک گونج اٹھا۔ ایوب، یحییٰ اور ضیا کے بعد مشرف کا دور دیکھنے والے محتاط تھے۔ آہستہ آہستہ مشرف کو رخصت کیا گیا اور ہولے ہولے جمہوریت لائی گئی۔

وفاق و سندھ میں زرداری تو پنجاب میں شریف تو خیبرپختون خوا میں ولی خان کے وارثین تو کراچی کے لیے الطاف حسین کے حامی۔ پاکستانی سمجھے کہ اب ہم بے جان نہیں ہیں۔ ایسے میں دو ہزار گیارہ کا سرد موسم آگیا۔ لاہور کا مینار پاکستان اور تحریک انصاف کا جلسہ۔ عمران خان نے احساس دلایا کہ پاکستانی خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ سب کی حکومتیں اور مفاہمت کی پالیسی دھندلانے لگی۔ کرپشن کی کہانیاں اور ٹیکس نہ دینے کے قصے سنائے گئے۔ بیرونی ممالک میں اربوں کی جائیدادیں اور کئی سو بلین ڈالرز کے بینک اکاؤنٹس کی بات کی گئی۔ بیس سال پہلے اسکوٹر پر پھرنے والوں سے امپائر کھڑی کرنے کا حساب مانگا گیا۔ قوم ایک بار پھر کنفیوز ہوگئی۔ سلسلہ آگے بڑھا تو ایک سیاسی پارٹی کے جلسوں میں آنے والوں کو زندہ لاشیں کہا گیا۔ ہم پاکستانی کیا ہیں؟ سوال ہے کہ ہماری میڈیکل رپورٹ کیا کہتی ہے؟

واقعی جب ہمارے قائدین رخصت ہوئے تو ہم بے جان ہوگئے تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے موقعے پر ہم خواب غفلت میں تھے۔ بھٹو کی پھانسی کے موقعے پر کیا جیالا اور کیا غیر جیالا، ہر کوئی مجسم مردہ تھا۔ یہ تو تاریخی صدمات تھے۔ کیا حقیقتاً ہم زندہ بھی ہیں؟ اگر کوئی پاکستانی بھوک و ننگ کا مارا ہے تو ہر پاکستانی زندہ لاش ہے۔ کسی محلے میں کوئی خاندان رات بھر کچھ کھائے بغیر سو گیا ہے تو پورا محلہ زندہ لاش ہے۔ دھوم دھام اور فضول خرچی سے بچوں کی شادی کرنے والا زندہ لاش ہے اگر غریب کی کوئی بیٹی پیسے نہ ہونے کی مجبوری سے بالوں میں چاندی دیکھ رہی ہے۔ اگر اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی پاکستان ایک فلاحی ریاست بننے کی جانب قدم نہیں بڑھا رہا تو ہم سب کیا ہیں؟ زندہ لاشیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں