پاکستان سے ہاکی کا خاتمہ
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہی نہیں بلکہ اس کی پہچان بھی ہے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہی نہیں بلکہ اس کی پہچان بھی ہے، جو آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ شاید کچھ عرصے بعد نوجوان نسل کو یہ سوال بھی کافی مشکل لگے کہ پاکستان کا قومی کھیل کون سا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس قوم کے کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں اس کے اسپتال ویران ہوتے ہیں اور جس کے میدان ویران ہوں اس کے اسپتال آباد ہوتے ہیں۔ اختر رسول نے بہت صحیح کہا ہے کہ کھیل ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے دہشتگردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی ضرورت ہے کہ کھیلوں کی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ مگر ہمارے ارباب اختیار کی توجہ اس جانب بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔
وہ قومی کھلاڑیوں یا ٹیم کی جانب سے خاص معرکہ سر کرنے کی صورت میں مبارکباد کے پیغامات دینے یا کھلاڑیوں کو دعوت پر بلانے اور انعامات دینے تک ہی محدود رہتے ہیں، ورنہ کھیلوں کے میدانوں پر قبضے ہو رہے ہوں یا کھیلوں میں سیاست، اقربا پروری، بدعنوانی، نااہل افراد کی تعیناتی کی شکایتیں آرہی ہوں، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اس میں ملوث افراد کو ان ھی کی سرپرستی و آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ نااہل، غیر متعلقہ اور سیاسی پشت پناہی کے حامل افراد کی تعیناتی کی وجہ سے کھیل، کھلاڑیوں اور کھیل کی سرگرمیوں کو بہت نقصان پہنچا ہے جس نے کھلاڑیوں میں مایوسی، بددلی اور گروہ بندی کو جنم دے کر ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان کے پاس ہاکی، کرکٹ اور اسکواش کے بین الاقوامی اعزازات ہوتے تھے، اس کے علاوہ انفرادی کھیلوں میں بھی کھلاڑی اپنے طور پر کارنامہ انجام دیتے رہے ہیں۔ اسکواش کے کھیل میں بھی انفرادی کوششوں سے پاکستان نے آسمان کی بلندیوں کو چھو کر تاریخی ریکارڈ قائم کیے۔ لیکن منصوبہ بندی و سرپرستی نہ ہونے، اقربا پروری، سفارش اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ایک ایک کرکے تمام اعزازات گنوائے جاچکے ہیں۔ کھیلوں میں ہاکی سب سے زیادہ بدقسمتی اور زبوں حالی کا شکار ہے جس میں پاکستانی کھلاڑی درجنوں مرتبہ ورلڈ کپ، چیمپئن ٹرافی، ایشین ٹرافی اور سلطان اذلان شاہ کپ جیسے اعزازات حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ کھیل ناقص منصوبہ بندی، بدعنوانی اور حکومتی عدم توجہی کی بنا پر نزع کے عالم میں ہے۔
ہاکی کے کھلاڑی اور شایقین پہلے اس بات پر حیران و افسردہ تھے کہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ سے قومی ٹیم کا نام واپس لے لیا گیا ہے، دوسری خبر یہ آئی کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے فنڈ کی کمی کے باعث اسلام آباد میں اولپمک گیمز کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے منعقدہ قوم ہاکی ٹیم کا کیمپ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ختم کردیا ہے، اس خبر نے نہ صرف کھلاڑیوں، کھیلوں کے شایقین اور عوام کو مایوس و مغموم کر ڈالا ہے۔ جس ملک میں ایوان صدر و وزیراعظم ہاؤس کا یومیہ خرچہ کروڑوں روپے ہو، جس کی اسمبلیوں اور ارکان اسمبلی پر اربوں روپے خرچ کردیے جاتے ہوں، ملک کے چھوٹے سے چھوٹے اداروں کے افسران اور افسر شاہی پروٹوکول اور تعیشات کے لیے یک جنبش قلم سے اپنے لیے کروڑوں کی گاڑیاں اور مراعات حاصل کرتی ہوں، وہاں ہاکی جیسے کھیل کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ان کی معمولی تنخواہیں اور یومیہ الاؤنس تک سے محروم کردیا جائے اور ایشین گیمز اور چیمپئن ٹرافی میں سلور میڈلز جیتنے پر اعلان کردہ رقم سے بھی محروم رکھ کر اپنا پیٹ پالنے سے بھی محروم کردیا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس صورتحال میں وزیراعظم پاکستان جو ہاکی فیڈریشن کے چیف پیٹرن بھی ہیں، خود بھی کھلاڑی ہیں اور کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے کچھ وقت ہاکی کے معاملات کے لیے بھی نکالنا چاہیے تاکہ پاکستان میں ہاکی کے کھیل کو مٹنے سے بچایا جاسکے۔
پاکستان کی طرف سے فنڈ کی کمی کے باعث کھلاڑیوں کے تربیتی کیمپ ختم کیے جانے پر بھارتی ہاکی فیڈریشن نے یہ پیشکش کی ہے کہ اگر پی ایچ ایف کو فنڈ کی کمی کا سامنا ہے تو وہ اس کی مالی امداد کے لیے تیار ہیں، اس بھارتی پیشکش کے بعد پی ایچ ایف کی طرف سے بیان سامنے آیا ہے کہ انھوں نے بھارتی پیشکش کو شکریہ کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔ بھارتی امداد کی پیشکش کے بعد عوام میں حکومت اور پی ایچ ایف کے عہدیداروں کے خلاف نفرت و اشتعال پایا جاتا ہے، بعض اس پیشکش کو بھارتی طنز و طعنہ اور سازش قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقتاً اس کی تمام تر ذمے داری حکومت اور پی ایچ ایف کے عہدیداروں پر عائد ہوتی ہے کہ ان کی غفلت و نااہلیت کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے اس صورتحال اور بھارتی امداد کی پیشکش پر کھلاڑی اور عام لوگ تو مضطرب و متفکر نظر آتے ہیں مگر ہمارے ارباب اقتدار و اختیار، مخیر و نیک نام لوگوں کو کوئی جھرجھری تک نہیں آئی جو ذرا ذرا سی بات پر پارلیمنٹ میں پریس کانفرنسوں میں اور عوامی اجتماعات میں تنقید کرنے اور شہرت و نیک نامی حاصل کرنے کا کوئی ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں اس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔
وفاقی سیکریٹری کھیل نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور اسپورٹس بورڈ پنجاب کے زیر اہتمام انٹرنیشنل اسپورٹ ڈے فار ڈیولپمنٹ اینڈ پیس کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہاکی فیڈریشن بین الاقوامی ٹورنامنٹ کی تیاری کے لیے اپنے تربیتی کیمپس لگائے، حکومت اپنا بھرپور تعاون جاری رکھے گی، دنیا کھیلوں کو ترجیحی بنیادوں پر لاکر ان کے بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے تاکہ صحت کے شعبے پر آنے والے اخراجات بچائے جاسکیں۔ معلوم نہیں ہم حقیقتوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے، خودفریبی، خوش فہمی اور مبالغوں کے گورکھ دھندوں میں پھنسے رہتے ہیں اور اسی کیفیت سے دوچار رہنا چاہتے ہیں، یہی ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کا مطمع نظر اور ان کی کامیابی کا راز ہے۔ سیمینار، ورکشاپ، مذاکرے، تقاریر اور اعلانات محض وقتی، نمائشی اور علامتی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
سیکریٹری موصوف نے اپنے خطاب میں جب ہاکی فیڈریشن سے کہا کہ وہ اپنے تربیتی کیمپ لگائے، حکومت بھرپور تعاون جاری رکھے گی تو کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ فنڈ کی کمی اور حکومتی تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے تو اسلام آباد میں قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کا کیمپ ختم کردیا گیا ہے اور کیا انھیں پی ایچ ایف کے عہدیداروں نے یہ بات گوش گزار کرائی کہ حکومتی تعاون نہ ملنے کی وجہ سے کھیلوں کے رقیب ملک کی ہاکی فیڈریشن نے انھیں تعاون اور امداد کی پیشکش کی ہے؟ کیا انھوں نے بورڈ کے ڈی جی کو ان تحفظات سے آگاہ کیا کہ جب ہماری ٹیمیں ہی نہیں ہوں تو ہم ایشین، اولمپک اور سیف گیمز کی میزبانی کرنے کے اہل کیونکر ہوں گے۔ خوش آمد پسندوں اور خوشامدیوں کے درمیان اس قسم کے مکالمے بعیدازقیاس ہیں۔ اس کے لیے خوش آمد پسندی و خوشامد پرستی اور اقربا پروری زدہ سیاسی ماحول ختم کرکے اہلیت کو معیار بنانا ہوگا، تب ہی کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ہاکی کی حالیہ بحرانی صورتحال میں شہباز شریف کا کردار لائق تحسین و تعریف ہے جنھوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی اتنی مالی و انتظامی امداد کردی ہے کہ پی ایچ ایف لاہور میں دوبارہ قومی ہاکی کیمپ شروع کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس قومی کھیل کے مستقبل اور بقا کی ذمے داری وزیر اعظم پر جاتی ہے جوکہ پی ایچ ایف کے چیف پیٹرن اور خود بھی کھلاڑی رہے کہ وہ فنڈ کی کمی اور فیڈریشن میں پائی جانے والی انتظامی و بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، فیڈریشن طویل عرصے سے کھلاڑیوں اور سابقہ اولمپکس کی جانب سے تنقید کا شکار ہے جو اس کے مالی معاملات اور اخراجات پر اعتراضات اور ان کے آڈٹ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جب کہ فیڈریشن کے سابقہ سیکریٹری کا کہنا ہے کہ سابقہ کھلاڑیوں کی نکتہ چینی اور بے جا تنقید اور اعتراضات کی وجہ سے حکومت ہاکی فیڈریشن کو فنڈ فراہم نہیں کر رہی ہے۔ فیڈریشن نے اپنی پوزیشن صاف کرنے اور معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک 4 رکنی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں فیڈریشن کے دو ممبران کے علاوہ نیب اور بین الصوبائی رابطہ وزارت کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ پی ایچ ایف نے اپنے تئیں ایک اچھا فیصلہ کیا ہے لیکن ہاکی کے معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں جو اعلیٰ سطح قسم کے اقدامات اور تعاون کے متقاضی ہیں جس کے لیے حکومتی توجہ اور تعاون ناگزیر ہے۔ اب ہاکی کے کھیل کی بقا یا ذبح حکومت کے ہاتھ میں ہے۔
وہ قومی کھلاڑیوں یا ٹیم کی جانب سے خاص معرکہ سر کرنے کی صورت میں مبارکباد کے پیغامات دینے یا کھلاڑیوں کو دعوت پر بلانے اور انعامات دینے تک ہی محدود رہتے ہیں، ورنہ کھیلوں کے میدانوں پر قبضے ہو رہے ہوں یا کھیلوں میں سیاست، اقربا پروری، بدعنوانی، نااہل افراد کی تعیناتی کی شکایتیں آرہی ہوں، انھیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اس میں ملوث افراد کو ان ھی کی سرپرستی و آشیرباد حاصل ہوتی ہے۔ نااہل، غیر متعلقہ اور سیاسی پشت پناہی کے حامل افراد کی تعیناتی کی وجہ سے کھیل، کھلاڑیوں اور کھیل کی سرگرمیوں کو بہت نقصان پہنچا ہے جس نے کھلاڑیوں میں مایوسی، بددلی اور گروہ بندی کو جنم دے کر ان کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ایک زمانے میں پاکستان کے پاس ہاکی، کرکٹ اور اسکواش کے بین الاقوامی اعزازات ہوتے تھے، اس کے علاوہ انفرادی کھیلوں میں بھی کھلاڑی اپنے طور پر کارنامہ انجام دیتے رہے ہیں۔ اسکواش کے کھیل میں بھی انفرادی کوششوں سے پاکستان نے آسمان کی بلندیوں کو چھو کر تاریخی ریکارڈ قائم کیے۔ لیکن منصوبہ بندی و سرپرستی نہ ہونے، اقربا پروری، سفارش اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ایک ایک کرکے تمام اعزازات گنوائے جاچکے ہیں۔ کھیلوں میں ہاکی سب سے زیادہ بدقسمتی اور زبوں حالی کا شکار ہے جس میں پاکستانی کھلاڑی درجنوں مرتبہ ورلڈ کپ، چیمپئن ٹرافی، ایشین ٹرافی اور سلطان اذلان شاہ کپ جیسے اعزازات حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ کھیل ناقص منصوبہ بندی، بدعنوانی اور حکومتی عدم توجہی کی بنا پر نزع کے عالم میں ہے۔
ہاکی کے کھلاڑی اور شایقین پہلے اس بات پر حیران و افسردہ تھے کہ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ سے قومی ٹیم کا نام واپس لے لیا گیا ہے، دوسری خبر یہ آئی کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے فنڈ کی کمی کے باعث اسلام آباد میں اولپمک گیمز کے کوالیفائنگ راؤنڈ کے لیے منعقدہ قوم ہاکی ٹیم کا کیمپ فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے ختم کردیا ہے، اس خبر نے نہ صرف کھلاڑیوں، کھیلوں کے شایقین اور عوام کو مایوس و مغموم کر ڈالا ہے۔ جس ملک میں ایوان صدر و وزیراعظم ہاؤس کا یومیہ خرچہ کروڑوں روپے ہو، جس کی اسمبلیوں اور ارکان اسمبلی پر اربوں روپے خرچ کردیے جاتے ہوں، ملک کے چھوٹے سے چھوٹے اداروں کے افسران اور افسر شاہی پروٹوکول اور تعیشات کے لیے یک جنبش قلم سے اپنے لیے کروڑوں کی گاڑیاں اور مراعات حاصل کرتی ہوں، وہاں ہاکی جیسے کھیل کے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ان کی معمولی تنخواہیں اور یومیہ الاؤنس تک سے محروم کردیا جائے اور ایشین گیمز اور چیمپئن ٹرافی میں سلور میڈلز جیتنے پر اعلان کردہ رقم سے بھی محروم رکھ کر اپنا پیٹ پالنے سے بھی محروم کردیا جائے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس صورتحال میں وزیراعظم پاکستان جو ہاکی فیڈریشن کے چیف پیٹرن بھی ہیں، خود بھی کھلاڑی ہیں اور کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے کچھ وقت ہاکی کے معاملات کے لیے بھی نکالنا چاہیے تاکہ پاکستان میں ہاکی کے کھیل کو مٹنے سے بچایا جاسکے۔
پاکستان کی طرف سے فنڈ کی کمی کے باعث کھلاڑیوں کے تربیتی کیمپ ختم کیے جانے پر بھارتی ہاکی فیڈریشن نے یہ پیشکش کی ہے کہ اگر پی ایچ ایف کو فنڈ کی کمی کا سامنا ہے تو وہ اس کی مالی امداد کے لیے تیار ہیں، اس بھارتی پیشکش کے بعد پی ایچ ایف کی طرف سے بیان سامنے آیا ہے کہ انھوں نے بھارتی پیشکش کو شکریہ کے ساتھ مسترد کردیا ہے۔ بھارتی امداد کی پیشکش کے بعد عوام میں حکومت اور پی ایچ ایف کے عہدیداروں کے خلاف نفرت و اشتعال پایا جاتا ہے، بعض اس پیشکش کو بھارتی طنز و طعنہ اور سازش قرار دے رہے ہیں لیکن حقیقتاً اس کی تمام تر ذمے داری حکومت اور پی ایچ ایف کے عہدیداروں پر عائد ہوتی ہے کہ ان کی غفلت و نااہلیت کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا ہے اس صورتحال اور بھارتی امداد کی پیشکش پر کھلاڑی اور عام لوگ تو مضطرب و متفکر نظر آتے ہیں مگر ہمارے ارباب اقتدار و اختیار، مخیر و نیک نام لوگوں کو کوئی جھرجھری تک نہیں آئی جو ذرا ذرا سی بات پر پارلیمنٹ میں پریس کانفرنسوں میں اور عوامی اجتماعات میں تنقید کرنے اور شہرت و نیک نامی حاصل کرنے کا کوئی ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ہیں اس معاملے پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔
وفاقی سیکریٹری کھیل نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور اسپورٹس بورڈ پنجاب کے زیر اہتمام انٹرنیشنل اسپورٹ ڈے فار ڈیولپمنٹ اینڈ پیس کے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہاکی فیڈریشن بین الاقوامی ٹورنامنٹ کی تیاری کے لیے اپنے تربیتی کیمپس لگائے، حکومت اپنا بھرپور تعاون جاری رکھے گی، دنیا کھیلوں کو ترجیحی بنیادوں پر لاکر ان کے بجٹ میں اضافہ کر رہی ہے تاکہ صحت کے شعبے پر آنے والے اخراجات بچائے جاسکیں۔ معلوم نہیں ہم حقیقتوں کا سامنا کیوں نہیں کرتے، خودفریبی، خوش فہمی اور مبالغوں کے گورکھ دھندوں میں پھنسے رہتے ہیں اور اسی کیفیت سے دوچار رہنا چاہتے ہیں، یہی ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کا مطمع نظر اور ان کی کامیابی کا راز ہے۔ سیمینار، ورکشاپ، مذاکرے، تقاریر اور اعلانات محض وقتی، نمائشی اور علامتی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
سیکریٹری موصوف نے اپنے خطاب میں جب ہاکی فیڈریشن سے کہا کہ وہ اپنے تربیتی کیمپ لگائے، حکومت بھرپور تعاون جاری رکھے گی تو کیا ان کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ فنڈ کی کمی اور حکومتی تعاون حاصل نہ ہونے کی وجہ سے تو اسلام آباد میں قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں کا کیمپ ختم کردیا گیا ہے اور کیا انھیں پی ایچ ایف کے عہدیداروں نے یہ بات گوش گزار کرائی کہ حکومتی تعاون نہ ملنے کی وجہ سے کھیلوں کے رقیب ملک کی ہاکی فیڈریشن نے انھیں تعاون اور امداد کی پیشکش کی ہے؟ کیا انھوں نے بورڈ کے ڈی جی کو ان تحفظات سے آگاہ کیا کہ جب ہماری ٹیمیں ہی نہیں ہوں تو ہم ایشین، اولمپک اور سیف گیمز کی میزبانی کرنے کے اہل کیونکر ہوں گے۔ خوش آمد پسندوں اور خوشامدیوں کے درمیان اس قسم کے مکالمے بعیدازقیاس ہیں۔ اس کے لیے خوش آمد پسندی و خوشامد پرستی اور اقربا پروری زدہ سیاسی ماحول ختم کرکے اہلیت کو معیار بنانا ہوگا، تب ہی کسی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔
ہاکی کی حالیہ بحرانی صورتحال میں شہباز شریف کا کردار لائق تحسین و تعریف ہے جنھوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے پاکستان ہاکی فیڈریشن کی اتنی مالی و انتظامی امداد کردی ہے کہ پی ایچ ایف لاہور میں دوبارہ قومی ہاکی کیمپ شروع کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ اس قومی کھیل کے مستقبل اور بقا کی ذمے داری وزیر اعظم پر جاتی ہے جوکہ پی ایچ ایف کے چیف پیٹرن اور خود بھی کھلاڑی رہے کہ وہ فنڈ کی کمی اور فیڈریشن میں پائی جانے والی انتظامی و بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، فیڈریشن طویل عرصے سے کھلاڑیوں اور سابقہ اولمپکس کی جانب سے تنقید کا شکار ہے جو اس کے مالی معاملات اور اخراجات پر اعتراضات اور ان کے آڈٹ کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، جب کہ فیڈریشن کے سابقہ سیکریٹری کا کہنا ہے کہ سابقہ کھلاڑیوں کی نکتہ چینی اور بے جا تنقید اور اعتراضات کی وجہ سے حکومت ہاکی فیڈریشن کو فنڈ فراہم نہیں کر رہی ہے۔ فیڈریشن نے اپنی پوزیشن صاف کرنے اور معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک 4 رکنی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں فیڈریشن کے دو ممبران کے علاوہ نیب اور بین الصوبائی رابطہ وزارت کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ پی ایچ ایف نے اپنے تئیں ایک اچھا فیصلہ کیا ہے لیکن ہاکی کے معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں جو اعلیٰ سطح قسم کے اقدامات اور تعاون کے متقاضی ہیں جس کے لیے حکومتی توجہ اور تعاون ناگزیر ہے۔ اب ہاکی کے کھیل کی بقا یا ذبح حکومت کے ہاتھ میں ہے۔