بڑے لوگ
سڑک پر گزرتے ایک آدمی دوسرے سے چمچماتی بلٹ پروف مرسڈیز کو جاتے دیکھ کر کہتا ہے
سڑک پر گزرتے ایک آدمی دوسرے سے چمچماتی بلٹ پروف مرسڈیز کو جاتے دیکھ کر کہتا ہے ''وہ دیکھو کوئی بڑا آدمی جا رہا ہے۔'' گاڑی کی طرف دوسرا آدمی دیکھتا ہے تو نوٹس کرتا ہے کہ گاڑی کو چاروں طرف سے آدھا درجن گارڈز سے بھری جیپ نے سیکیورٹی کے لیے کَور کر رکھا ہے۔
''ہاں یار! یقیناً کوئی بڑا آدمی ہوگا۔'' دوسرا بھی کہتا ہے۔ گاڑی نہیں تو دس لاکھ کی گھڑی، پاؤں میں ڈیڑھ لاکھ روپے کے جوتے دیکھ کر لوگ سامنے والے شخص کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ''ہاں یار! اتنی مہنگی گھڑی ہے تو کوئی بڑا آدمی ہی ہوگا۔''
جیسے پانی ملا دودھ پی پی کر ہمارے ملک کے لوگ اب اصلی دودھ کا مزہ بھول گئے ہیں ویسے ہی پاکستان میں موجود بڑے لوگوں کی پہچان ہمارے لیے مشکل ہوگئی ہے۔ ایک کروڑ کی مرسڈیز یا ایک لاکھ کی گھڑی آپ کو امیر بناتی ہے بڑا آدمی نہیں اور یہ بات ہماری سوسائٹی میں آج بیشتر لوگ نہیں سمجھتے۔ چلیے اس وقت سچ مچ کے دو ''بڑے لوگوں'' کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
1928میں بانٹوا گجرات انڈیا کے ایک خاندان میں بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام عبدالستار رکھا گیا، بچپن سے ہی اس کی والدہ نے اسے سکھایا کہ غریبوں کی مدد کرو، پارٹیشن کے بعد عبدالستار کا خاندان کراچی ہجرت کرگیا۔ عبدالستار کا تعلق میمن کمیونٹی سے تھا، وہ کمیونٹی جس نے بزنس کی دنیا میں بہت سے کمالات دکھائے ہیں۔ لڑکپن میں انسان آسمان چھونے کے خواب دیکھتا ہے۔ بڑا سا گھر، پیسہ، گاڑی بہت سی طاقت اور نہ جانے کیا کیا دنیاوی چیزیں، انیس سالہ عبدالستار اس عمر میں جو خواب دیکھنا چاہتا تھا اور ایک مضبوط کمیونٹی سے آنے کی وجہ سے یقیناً زندگی اسے کامیابی حاصل کرنے اور امیر بننے کے موقع بھی دیتی۔
انیس سالہ عبدالستار نے زندگی میں وہ راہ اختیار کی جس کی سیکھ ان کی والدہ نے بچپن میں دی تھی۔ غریب مجبور لوگوں کی مدد کرو، کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لیے آپ کو صرف اور صرف ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے جذبہ۔ اگر آپ میں جذبہ ہے تو دنیا میں بڑے سے بڑا کام کرسکتے ہیں۔ چاہے آپ کے وسائل ابتدا میں کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں، عبدالستار نے بھی زندگی کے بڑے کاموں کی ابتدا چھوٹے چھوٹے قدموں سے کی۔ وہ قدم جن سے شروعات ہوئی عبدالستار ایدھی کی۔
پہلے انھوں نے مختلف سوشل ورک آرگنائزیشنز کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور جلد ہی اپنی ڈسپنسری شروع کی جس میں غریبوں کا مفت علاج ہوتا، کچھ عرصے بعد انھوں نے ایک پرانی وین خریدی جسے نام دیا ''غریب آدمی کی وین'' اس وین میں بیٹھ کر وہ شہر بھر کی مدد کرتے، وہ وین ان کے کام کا اشتہار بن گئی، لوگ ''ایدھی'' کو ویلفیئر کے کاموں کے لیے جاننے لگے جب آپ کوئی اچھا کام کرنے کے لیے پہلا قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دس پھر سو اور پھر ہزار قدم آپ کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ لوگوں نے عبدالستار ایدھی کو چندہ دینا شروع کیا اور انھوں نے اپنی پہلی ڈسپنسری کو بڑا کرنا شروع کردیا۔ وہاں غریبوں کی مدد کرنے کے لیے نرسوں اور اسٹاف کو رکھا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں ان کی ملاقات بلقیس سے ہوئی۔
14 اگست 1947 کے روز برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان ملا اور بلقیس پیدا ہوئیں، ویلفیئر کے کاموں میں یقین رکھنے والی پہلی کچھ نرسوں میں سے ایک بلقیس تھیں جو ایدھی فاؤنڈیشن میں کام کرنے آئیں اور جی جان سے کام کیا، 1966 میں بلقیس کی شادی عبدالستار ایدھی سے ہوگئی جس کے بعد بھی انھوں نے ویلفیئر کا کام جاری رکھا۔
ہزار روپے کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہونے والی ایدھی فاؤنڈیشن کچھ ہی سال میں کراچی شہر اور دیگر ممالک میں شہرت پانے لگی۔ لوگ ایدھی فاؤنڈیشن کو اچھے کاموں کی وجہ سے جاننے لگے۔
1973 کراچی میں ایک پرانی بلڈنگ گر جانے پر سب سے پہلے ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس اور کارکن پہنچے تھے۔ یہ پہلی بار تھا اور یہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ کراچی ہو یا ملک میں کہیں بھی کوئی سانحہ ہوتا تو ایدھی کی مدد وہاں فوراً موجود ہوتی۔ یہ وہاں بھی پہنچ جاتے جہاں حکومتی کارکن بھی جانے سے ہچکچاتے۔
ایدھی فاؤنڈیشن ایشیا میں ایسی واحد ویلفیئر آرگنائزیشن ہے جس کی اپنی ایئرایمبولینس ہے، ملک میں کہیں بھی ٹرین کا حادثہ ہو یا بم بلاسٹ ایدھی والے سب سے پہلے وہاں موجود ہوتے ہیں، عبدالستار ایدھی اور بلقیس چلے تو اکیلے تھے لیکن آج ان کے ساتھ 3500 سے زیادہ مستقل کام کرنے والے اور ہزاروں والنٹیئرز ہیں، ان کے بیٹے بہو سب ان کے ساتھ ہیں۔
آج تک ایدھی ٹرسٹ کو کروڑوں روپے چندے کی صورت دیے گئے ہیں، پاکستان کی سب سے بڑی اور کامیاب ویلفیئر آرگنائزیشن ہے اس کے باوجود عبدالستار ایدھی اور بیگم بلقیس ایدھی نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں، کراچی کی تنگ گلیوں والے پرانے علاقے میٹھا در میں رہائش جہاں صرف ایک کمرہ انھوں نے اپنے لیے رکھا ہے باقی گھر وہ دفتر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اپنے گھر میں خود جھاڑو لگانا اور باقی سب ہی کام کرنا یہاں تک کہ گٹر بند ہوجائے تو بھی خود ہی صحیح کرنا۔ چھوٹا سا کچن جس میں بلقیس ایدھی خود کھانا پکاتی ہیں۔
جب ایدھی سفر نہیں کر رہے ہوتے تو ان کا دن گھر میں فجر کی نماز سے شروع ہوتا ہے۔ نماز کے بعد وہ حاجت مند لوگوں کی کالز چیک کرتے ہیں۔ دوپہر میں اپنے مختلف سینٹرز میں جاکر میٹنگز کرتے ہیں شام میں ایدھی لنگر دیکھتے ہیں۔ جمعے کے دن معذور بچوں کو نماز پڑھوانے لے جاتے ہیں ، کبھی کبھی ان بچوں کو پکنک پر بھی لے جاتے ہیں۔ صرف کراچی میں ہی ایدھی فاؤنڈیشن آٹھ اسپتالوں میں لوگوں کا مفت علاج کر رہی ہے اس کے علاوہ آنکھوں کا اسپتال، ڈائبیٹک سینٹر، کینسر اسپتال، موبائل ڈسپنسریاں، ایدھی فاؤنڈیشن چلا رہی ہے۔ دو بلڈ بینک بھی کراچی شہر میں موجود ہیں۔ ان کا لیگل ایڈ ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جو مفت قانونی سہولت پہنچاتا ہے۔
انھوں نے ان گنت بے گناہ لوگوں کو جیل سے رہائی بھی دلوائی ہے۔ بلقیس ایدھی کے بنائے اپنا گھر میں بیس ہزار سے زیادہ بچے پل رہے ہیں اور ایک ملین سے زیادہ بچوں کی پیدائش وہاں کروائی گئی ہے۔
ایک آدمی ''بڑا'' اپنی سوچ اپنے عمل سے بنتا ہے کسی مرسڈیز یا دس لاکھ کی گھڑی لگا کر نہیں۔ دو پٹی کی چپل، سر پر ٹوپی اور سادہ سا سرمئی رنگ کا کرتا پاجامہ پہننے والے عبدالستار ایدھی اور بغیر کسی ڈیزائنز کپڑوں، جیولری یا بیگ کے بیگم بلقیس ایدھی پاکستان کے سب سے ''بڑے لوگوں'' میں سے ہیں۔
''ہاں یار! یقیناً کوئی بڑا آدمی ہوگا۔'' دوسرا بھی کہتا ہے۔ گاڑی نہیں تو دس لاکھ کی گھڑی، پاؤں میں ڈیڑھ لاکھ روپے کے جوتے دیکھ کر لوگ سامنے والے شخص کے بارے میں ایسی ہی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ''ہاں یار! اتنی مہنگی گھڑی ہے تو کوئی بڑا آدمی ہی ہوگا۔''
جیسے پانی ملا دودھ پی پی کر ہمارے ملک کے لوگ اب اصلی دودھ کا مزہ بھول گئے ہیں ویسے ہی پاکستان میں موجود بڑے لوگوں کی پہچان ہمارے لیے مشکل ہوگئی ہے۔ ایک کروڑ کی مرسڈیز یا ایک لاکھ کی گھڑی آپ کو امیر بناتی ہے بڑا آدمی نہیں اور یہ بات ہماری سوسائٹی میں آج بیشتر لوگ نہیں سمجھتے۔ چلیے اس وقت سچ مچ کے دو ''بڑے لوگوں'' کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
1928میں بانٹوا گجرات انڈیا کے ایک خاندان میں بیٹا پیدا ہوا، جس کا نام عبدالستار رکھا گیا، بچپن سے ہی اس کی والدہ نے اسے سکھایا کہ غریبوں کی مدد کرو، پارٹیشن کے بعد عبدالستار کا خاندان کراچی ہجرت کرگیا۔ عبدالستار کا تعلق میمن کمیونٹی سے تھا، وہ کمیونٹی جس نے بزنس کی دنیا میں بہت سے کمالات دکھائے ہیں۔ لڑکپن میں انسان آسمان چھونے کے خواب دیکھتا ہے۔ بڑا سا گھر، پیسہ، گاڑی بہت سی طاقت اور نہ جانے کیا کیا دنیاوی چیزیں، انیس سالہ عبدالستار اس عمر میں جو خواب دیکھنا چاہتا تھا اور ایک مضبوط کمیونٹی سے آنے کی وجہ سے یقیناً زندگی اسے کامیابی حاصل کرنے اور امیر بننے کے موقع بھی دیتی۔
انیس سالہ عبدالستار نے زندگی میں وہ راہ اختیار کی جس کی سیکھ ان کی والدہ نے بچپن میں دی تھی۔ غریب مجبور لوگوں کی مدد کرو، کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لیے آپ کو صرف اور صرف ایک چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے جذبہ۔ اگر آپ میں جذبہ ہے تو دنیا میں بڑے سے بڑا کام کرسکتے ہیں۔ چاہے آپ کے وسائل ابتدا میں کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں، عبدالستار نے بھی زندگی کے بڑے کاموں کی ابتدا چھوٹے چھوٹے قدموں سے کی۔ وہ قدم جن سے شروعات ہوئی عبدالستار ایدھی کی۔
پہلے انھوں نے مختلف سوشل ورک آرگنائزیشنز کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور جلد ہی اپنی ڈسپنسری شروع کی جس میں غریبوں کا مفت علاج ہوتا، کچھ عرصے بعد انھوں نے ایک پرانی وین خریدی جسے نام دیا ''غریب آدمی کی وین'' اس وین میں بیٹھ کر وہ شہر بھر کی مدد کرتے، وہ وین ان کے کام کا اشتہار بن گئی، لوگ ''ایدھی'' کو ویلفیئر کے کاموں کے لیے جاننے لگے جب آپ کوئی اچھا کام کرنے کے لیے پہلا قدم آگے بڑھاتے ہیں تو دس پھر سو اور پھر ہزار قدم آپ کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ لوگوں نے عبدالستار ایدھی کو چندہ دینا شروع کیا اور انھوں نے اپنی پہلی ڈسپنسری کو بڑا کرنا شروع کردیا۔ وہاں غریبوں کی مدد کرنے کے لیے نرسوں اور اسٹاف کو رکھا اور یہی وہ جگہ تھی جہاں ان کی ملاقات بلقیس سے ہوئی۔
14 اگست 1947 کے روز برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان ملا اور بلقیس پیدا ہوئیں، ویلفیئر کے کاموں میں یقین رکھنے والی پہلی کچھ نرسوں میں سے ایک بلقیس تھیں جو ایدھی فاؤنڈیشن میں کام کرنے آئیں اور جی جان سے کام کیا، 1966 میں بلقیس کی شادی عبدالستار ایدھی سے ہوگئی جس کے بعد بھی انھوں نے ویلفیئر کا کام جاری رکھا۔
ہزار روپے کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں شروع ہونے والی ایدھی فاؤنڈیشن کچھ ہی سال میں کراچی شہر اور دیگر ممالک میں شہرت پانے لگی۔ لوگ ایدھی فاؤنڈیشن کو اچھے کاموں کی وجہ سے جاننے لگے۔
1973 کراچی میں ایک پرانی بلڈنگ گر جانے پر سب سے پہلے ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس اور کارکن پہنچے تھے۔ یہ پہلی بار تھا اور یہاں سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ کراچی ہو یا ملک میں کہیں بھی کوئی سانحہ ہوتا تو ایدھی کی مدد وہاں فوراً موجود ہوتی۔ یہ وہاں بھی پہنچ جاتے جہاں حکومتی کارکن بھی جانے سے ہچکچاتے۔
ایدھی فاؤنڈیشن ایشیا میں ایسی واحد ویلفیئر آرگنائزیشن ہے جس کی اپنی ایئرایمبولینس ہے، ملک میں کہیں بھی ٹرین کا حادثہ ہو یا بم بلاسٹ ایدھی والے سب سے پہلے وہاں موجود ہوتے ہیں، عبدالستار ایدھی اور بلقیس چلے تو اکیلے تھے لیکن آج ان کے ساتھ 3500 سے زیادہ مستقل کام کرنے والے اور ہزاروں والنٹیئرز ہیں، ان کے بیٹے بہو سب ان کے ساتھ ہیں۔
آج تک ایدھی ٹرسٹ کو کروڑوں روپے چندے کی صورت دیے گئے ہیں، پاکستان کی سب سے بڑی اور کامیاب ویلفیئر آرگنائزیشن ہے اس کے باوجود عبدالستار ایدھی اور بیگم بلقیس ایدھی نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں، کراچی کی تنگ گلیوں والے پرانے علاقے میٹھا در میں رہائش جہاں صرف ایک کمرہ انھوں نے اپنے لیے رکھا ہے باقی گھر وہ دفتر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اپنے گھر میں خود جھاڑو لگانا اور باقی سب ہی کام کرنا یہاں تک کہ گٹر بند ہوجائے تو بھی خود ہی صحیح کرنا۔ چھوٹا سا کچن جس میں بلقیس ایدھی خود کھانا پکاتی ہیں۔
جب ایدھی سفر نہیں کر رہے ہوتے تو ان کا دن گھر میں فجر کی نماز سے شروع ہوتا ہے۔ نماز کے بعد وہ حاجت مند لوگوں کی کالز چیک کرتے ہیں۔ دوپہر میں اپنے مختلف سینٹرز میں جاکر میٹنگز کرتے ہیں شام میں ایدھی لنگر دیکھتے ہیں۔ جمعے کے دن معذور بچوں کو نماز پڑھوانے لے جاتے ہیں ، کبھی کبھی ان بچوں کو پکنک پر بھی لے جاتے ہیں۔ صرف کراچی میں ہی ایدھی فاؤنڈیشن آٹھ اسپتالوں میں لوگوں کا مفت علاج کر رہی ہے اس کے علاوہ آنکھوں کا اسپتال، ڈائبیٹک سینٹر، کینسر اسپتال، موبائل ڈسپنسریاں، ایدھی فاؤنڈیشن چلا رہی ہے۔ دو بلڈ بینک بھی کراچی شہر میں موجود ہیں۔ ان کا لیگل ایڈ ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جو مفت قانونی سہولت پہنچاتا ہے۔
انھوں نے ان گنت بے گناہ لوگوں کو جیل سے رہائی بھی دلوائی ہے۔ بلقیس ایدھی کے بنائے اپنا گھر میں بیس ہزار سے زیادہ بچے پل رہے ہیں اور ایک ملین سے زیادہ بچوں کی پیدائش وہاں کروائی گئی ہے۔
ایک آدمی ''بڑا'' اپنی سوچ اپنے عمل سے بنتا ہے کسی مرسڈیز یا دس لاکھ کی گھڑی لگا کر نہیں۔ دو پٹی کی چپل، سر پر ٹوپی اور سادہ سا سرمئی رنگ کا کرتا پاجامہ پہننے والے عبدالستار ایدھی اور بغیر کسی ڈیزائنز کپڑوں، جیولری یا بیگ کے بیگم بلقیس ایدھی پاکستان کے سب سے ''بڑے لوگوں'' میں سے ہیں۔