کراچی کا سیاسی میدان…

ایم کیو ایم کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسے ہوم گراؤنڈ سے شکست دینے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔


محمد عارف شاہ April 20, 2015

KARACHI: این اے 246 نے پورے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ اس وقت کراچی کی سیاست میں تلاطم ہے، محاذ جنگ میں تبدیل ہونے والے اس حلقے میں انتخابی گرماگرمی نے شہر کا درجہ حرارت بڑھادیا ہے۔ جذبات کی لہریں فلائی اوورز، سائن بورڈز اور عمارتوں کو کراس کررہی ہیں۔ ہر جگہ یہی بحث چل رہی ہے، چائے، کولڈ ڈرنک اور کھانے سے لے کر بڑی بڑی شرطیں لگ رہی ہیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی سوال ہے، ضمنی انتخاب کون جیتے گا؟ بیشتر لوگ اسے یک طرفہ مقابلہ کہہ رہے ہیں، کئی اسے کراچی میں اہم تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں تو بعض نے کہا کہ یہ الیکشن تحریک انصاف کے کراچی میں سیاسی داخلے کا ٹکٹ ہے۔

نائن زیرو پر چھاپے اور صولت مرزا کی ویڈیو سے پیدا شدہ صورتحال نے ایم کیو ایم کو بیک فٹ پر دھکیل دیا تھا، اس لیے وہ اس قدر جذباتی ماحول نہیں پیدا کرسکی، جس کی الیکشن میں ضرورت ہوتی ہے۔

عمران خان کہتے ہیں کہ اہل کراچی قید ہیں، ہم انھیں آزاد کرائیں گے۔ سمجھ نہیں آتا تحریک انصاف انھیں کس سے آزاد کرانا چاہتی ہے؟ تحریک انصاف نے کچھ باتیں سیاسی کیں اور کچھ انتخابی۔ 2013 کے عام انتخابات میں شہباز شریف کی وہ تقریریں بھی سب کو یاد ہیں جب وہ آصف زرداری کو گھسیٹ رہے تھے، پہلے تین اور پھر چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کررہے تھے لیکن سب نے دیکھا کہ حبیب جالب کے اشعار سناکر عوام کو گرمانے والے شہباز شریف خود ٹھنڈے پڑ گئے۔

این اے 246 میں کل ووٹرز تین لاکھ ستاون ہزار آٹھ سو ایک ہیں، جن میں ایک لاکھ چھیانوے ہزار دو سو تیس مرد اور ایک لاکھ اکسٹھ ہزار پانچ سو اکہتر خواتین ہیں۔ کل پولنگ اسٹیشن 213 ہیں، جن میں پندرہ مرد، پندرہ خواتین اور 183 مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہیں۔ مردوں کے 402 اور خواتین کے 367 پولنگ بوتھ قائم کیے گئے ہیں۔211 مرد، 2 خواتین پریزائیڈنگ افسران اور 769 پولنگ افسران ڈیوٹی انجام دیں گے۔ الیکشن کمیشن نے رینجرز کو پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر تعینات کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلوں پر پہرہ دینے والے اہلکار کہاں سے لائے جائیں گے۔

کسی کے آبائی حلقے میں جاکر اسے چیلنج کرنا بلاشبہ ایک جرأت مندانہ فکر اور صحتمندانہ جمہوری اقدام ہے مگر پذیرائی کی مخصوص آوازوں کو نقارہ فتح سمجھ لینادرست نہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد سے پی ٹی آئی کے امیدواروں نے NA246 میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا جب کہ ایم کیو ایم کا یہاں پورا مرکز موجود ہے۔

NA246کی نشست ایم کیو ایم سے یوں چھین لینا کہ جیسے بکری کے بچے کو بھاگ کر پکڑ لیا ایک تصوراتی فکر ہے، جس کی سچے مناظر میں کوئی جگہ نہیں۔ تحریک انصاف کے امیدوار کو ایسا ''ہوا'' بناکر پیش کیا جارہا ہے کہ آج سے پہلے اس شہر میں گویا ایم کیو ایم کا کسی نے مقابلہ کیا ہی نہیں تھا۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی، جے یو پی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر عبدالغفور احمد جیسے اصول پسند انسان، مولانا شاہ احمد نورانی جیسی بے مثال ہستی، اصغر خان جیسے سیاستدان، تاج حیدر جیسے روشن خیال، ان سب ہی نے اور ان جیسے دیگر کئی معتبر سیاستدانوں نے ہمیشہ ایم کیو ایم کا مقابلہ کیا اور ڈٹے رہے۔ علاقوں میں مہم بھی چلائی، دفاتر کا افتتاح کیا، لوگوں سے ملاقاتیں کیں، چھوٹے بڑے جلسے کیے اور شکست کے باوجود کراچی پر اپنے حق سے دستبردار نہیں ہوئے۔

ایم کیو ایم کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسے ہوم گراؤنڈ سے شکست دینے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔ مگر کیا ہم یہ نہیں جانتے کہ ایم کیو ایم کی جڑیں عوام میں ہیں۔ انھیں عوام ہی ووٹ دیتے ہیں، ان کے جلسوں میں لوگوں کا جمع ہونا نظروں کا دھوکا یا سراب نہیں ہوتا۔ یہ کہنا کہ لوگوں کو جبر سے جمع کیا جاتا ہے ایک فضول سی دلیل ہے۔ ایم کیو ایم کا ایک تنظیمی نظام ہے۔ ان کے کارکن کراچی کے بجائے ملک کے دیگر حصوں سے نہیں آتے۔ ان کی قیادت اپنے ورکرز کے ساتھ رابطے میں رہتی ہیں۔ مانا کہ ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی پی ٹی آئی کو مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور پی ٹی آئی این اے 246 سے ووٹ بھی لے گی مگر وہ پہلی جماعت نہیں جو یہاں عوام کے ایک حصے کو اپنی جانب راغب کرے گی، اس سے پہلے جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے امیدوار بھی یہاں سے ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی والے کچھ زیادہ ووٹ لے لیں مگر حقیقت پسندانہ نتیجہ یہی ہے کہ یہاں سے ایم کیو ایم کو ہرانا مشکل ہی نہیں فی الوقت ناممکن ہے۔

انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کو وہی پوزیشن حاصل ہے جو ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کو حاصل تھی، مبصرین پیش گوئی کرتے ہوئے اس وقت بھی یہ بھول گئے تھے کہ لیگ میچز سے سیمی فائنل تک ناقابل شکست نیوزی لینڈ کا مقابلہ اب آسٹریلیا سے نہیں بلکہ ''ہوم گراؤنڈ'' اور ''ہوم کراؤڈ'' سے ہورہا ہے، اور کرکٹ میں تو شاید ''ہوم کراؤڈ'' کو اتنی فوقیت حاصل نہ ہو مگر انتخابات میں ''ہوم کراؤڈ'' فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔

تحریک انصاف نے یوں تو کراچی کی سیاست میں ہلچل مچا رکھی ہے مگر ایک حقیقت ہے اور ایک خواب ہے، جنھوں نے خواب دیکھا ہے وہ اسے حقیقت میں بدلنے کی خاطر بھرپور زور لگارہے ہیں، یہ اور بات ہے کہ کچھ نکل نہیں رہا، اور جن کے لیے حقیقت ہے وہ اپنے روایتی انداز سے حریفوں کو ہر طرح سے تھکانے میں مصروف ہیں۔

پوری دنیا میں انتخاب لڑنے کا ایک طریقہ ہے اور وہ ہے اپنا منشور پیش کرو، اپنا پروگرام عوام کو بتاؤ، انھیں پسند آئے گا تو ووٹ دیں گے ورنہ کسی اور امیدوار کی طرف بڑھیں گے۔ الزام تراشی، بڑھکیں، دشنام طرازی اور گالم گلوچ سے آج تک کوئی انتخاب نہیں جیت سکا۔ تحریک انصاف کے پاس عوام کو پیش کرنے کے لیے کوئی منشور یا پروگرام ہے تو وہ ہم 14 اگست کو شروع ہونے والے دھرنے سے سنتے آرہے ہیں کہ ''نیا پاکستان بنائیں گے'' کیسے بنائیں گے؟ یہ فی الحال بتانا پسند نہیں فرماتے، شاید اقتدار کے مسند نشین ہونے کے بعد پروگرام بنائیں گے کہ کس طرح نیا پاکستان بنایا جائے۔ سب سے اہم بات جو ذہن نشین رہنی چاہیے وہ یہ کہ عمران خان ملک بھر میں صوبوں کے قیام کے حامی ہیں مگر سندھ میں ایسے عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے اہل کراچی لازماً یہ سوچ اپنائیں گے کہ '' تبدیلی کا بخار عمران خان کا، ووٹ بھائی جان کا''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں