گلگت وبلتستان میں الیکشن کی تیاریاں مذہبی جماعتیں سرگرم
جے یو آئی، جماعت اسلامی، تحریک اسلامی، وحدت مسلمین نے خطرے کی گھنٹی بجادی
گلگت وبلتستان کو داخلی خودمختاری ملنے کے نتیجے میں پہلی منتخب اسمبلی کی 5سالہ آئینی مدت پوری ہونے کے بعداب نئے انتخابات کی تیاریاں اور سیاسی جوڑتوڑ عروج پر پہنچ گیا ہے۔
آئندہ انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدرو سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ اورحریف جماعت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدرحفیظ الرحمن اپنی آبائی نشستیں ہارنے کاخوف سرپر سوار کرکے انتخابی دنگل میں اتر رہے ہیں۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایم کیوایم اورمسلم لیگ(ق) کا گلگت وبلتستان اسمبلی اوروہاں کی سیاست سے مکمل خاتمہ ہوجائے گا جبکہ تحریک انصاف اورمجلس وحدت المسلمین کی پہلی بارگلگت وبلتستان اسمبلی اوروہاں کی سیاست میں قدم رکھے گی۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے نمائندوں نے مذہبی اور مسلکی پس منظر رکھنے والے انتخابی حلقوں اورعلاقوں پر بھرپور توجہ دے کرخالص سیاسی بنیادوں پر انتخابات لڑنے والے جماعتوں اوران کے نمائندوں کیلیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ تحریک اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اورجماعت اسلامی نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) کی نیندیں اڑادیں ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس بار اسمبلی میں کسی بھی جماعت کوواضح برتری ملنے کے امکانات بہت کم ہیں اور آئندہ مخلوط حکومت بننے کے زیادہ چانسزہیں۔ اس بار پیپلزپارٹی کی پوزیشن انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔
آئندہ انتخابات کے لئے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدرو سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ اورحریف جماعت مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدرحفیظ الرحمن اپنی آبائی نشستیں ہارنے کاخوف سرپر سوار کرکے انتخابی دنگل میں اتر رہے ہیں۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایم کیوایم اورمسلم لیگ(ق) کا گلگت وبلتستان اسمبلی اوروہاں کی سیاست سے مکمل خاتمہ ہوجائے گا جبکہ تحریک انصاف اورمجلس وحدت المسلمین کی پہلی بارگلگت وبلتستان اسمبلی اوروہاں کی سیاست میں قدم رکھے گی۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے نمائندوں نے مذہبی اور مسلکی پس منظر رکھنے والے انتخابی حلقوں اورعلاقوں پر بھرپور توجہ دے کرخالص سیاسی بنیادوں پر انتخابات لڑنے والے جماعتوں اوران کے نمائندوں کیلیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ تحریک اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اورجماعت اسلامی نے دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) کی نیندیں اڑادیں ہیں۔ مبصرین کے مطابق اس بار اسمبلی میں کسی بھی جماعت کوواضح برتری ملنے کے امکانات بہت کم ہیں اور آئندہ مخلوط حکومت بننے کے زیادہ چانسزہیں۔ اس بار پیپلزپارٹی کی پوزیشن انتہائی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔