پاک چین لازوال دوستی
چین پاکستان کے ہر شعبہ میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہا ہے بلکہ اپنے تعاون کی بھی پیش کش کرتا رہتا ہے۔
پاکستان اور چین کی دوستی ایک بے مثال دیرینہ تعلقات کہ بہترین نمونہ ہے جسے دونوں ممالک کی عوام کچھ پرجوش جملوں میں اکثر یوں بیان کرتے ہیں کہ پاک چین دوستی ہمالیہ پہاڑ سے بلند سمدر کی گہرائی سے زیادہ گہری اور شہد کی مٹھاس سے زیادہ میٹھی ہے اور یہ بات صرف لفاظی نہیں بلکہ اس کا عملی مظاہرہ چینی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران بھی دیکھنے میں آیا۔
پاکستان کی چین سے دوستی کی بنیادی وجہ آج سے 66 سال پہلے یکم اکتوبر 1949 کو طویل ترین خانہ جنگی کے چین کی آزادی ہے کہ پاکستان پوری مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے عوامی جمہوری چین کو تسلیم کیا تھا۔ بس وہ وقت تھا اور آج کا وقت ہے چین اور پاکستان کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاک چین دوستی کو قوموں کی برداری میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس کے بعد چین مختلف مراحل سے گزرتا رہا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ آج وہ معاشی طورپر دنیا کی بڑی طاقتوں کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قومیں اپنے لیڈروں کی قیادت میں منزلوں کی سمت سفر کرتی ہیں۔ چینی قوم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انہیں ماﺅزے تنگ جیسا لیڈر ملا جس نے آزادی سے لے کر 1976 تک اپنی قوم کی مخلصانہ قیادت کی اور قوم کو اس منزل تک پہنچایا جہاں سے اس کو اپنی منزل صاف نظر آنے لگی تھی۔ اس مرحلے پر ایک اور عظیم قائد ڈے نگ ژےاﺅ پنگ نے قوم کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے معاشی اصلاحات کا آغاز کیا اور اوپن ڈور پالیسی کا اختیار کرنے کے فیصلے نے چین کوعظیم اقتصادی قوت بننے کی منزل سے ہم کنار کردیا۔
جس سفر کا آغاز ماﺅزے تنگ نے کیا تھا اور قوم کو لے کر اس راستے پر ڈینگ ژےاﺅ پنگ آگے بڑھے تھے چینی قوم کی تیسری نسل بھی اسی سفر پر رواں دواں ہے اور تیسری نسل کی قیادت چین کا ایک اور انقلابی لیڈر شی چن پنگ کر رہے ہیں۔ موجودہ چینی قیادت قومی مفاہمت' امن و آشتی اور معاشی ترقی کے رہنما اصولوں کے تحت کام کر رہی ہے۔ چین دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جس نے بدترین بین الاقوامی کساد بازاری کے باوجود اپنی معیشت کو سنبھالے رکھا جو زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر اور صنعتی ترقی کی جامع پالیسی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔
پاکستان اور چین جغرافیائی لحاظ سے پڑوسی ہونے کے ناطے ہی ایک دوسرے کے قریب نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے عالمی امور' امن پسندی اور باہمی احترام کے حوالے سے خیالات بھی یکساں ہیں۔
چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ دوعشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25 اکتوبر 1971 چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں۔ چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ مراعات کی بحالی کے بعد چین چھوٹے اور کمزور اقوام کے تحفظ کے لئے موثر کردار ادا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں سیٹ کی بحالی کے بعد چین نے عالمی برادری سے تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دی۔ 1970 کے عشرے کے اختتام تک چین نے 120 ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے جن میں امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام ایک اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم' کوریا کی جوہری قوت کے حوالے سے 6 ملکی مذاکرات' چین افریقن تعاون تنظیم، بیجنگ سربراہ اجلاس، ایشیاء یورپ میٹنگ سے لے کر لندن میں جی ٹونٹی سربراہ اجلاس تک چین نے ہر فورم میں فعال کردار کیا جس وجہ سے اپنی حیثیت منوالی ہے۔
ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت ہونے کے ناطے بھی چین نے عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قوموں کی برادری میں چین کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے انسان بردار خلائی جہاز خلاءمیں بھیجے۔ 66 سال قبل جب چین آزاد ہوا تھا تو خلاء کو تسخیر کرنے سمیت وہ کامیابیاں خواب معلوم ہورہی تھیں جنہیں آج چین نے اپنی محنت کی بدولت تعبیر کاجامہ پہنایا ہے ۔
چین پاکستان سے اپنی دوستی روز بروز مضبوط کررہا ہے۔ نت نئے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔ چین پاکستان کے ہر شعبہ میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہا ہے بلکہ اپنے تعاون کی بھی پیش کش کرتا رہتا ہے۔ جس کی ایک کڑی چین کے صدر کا موجودہ دورہ پاکستان ہے۔ چین پاکستانی اور چینی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیئے بھی کوشاں ہے جس کی ایک جیتی جاگتی مثال چائیناء ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس بھی ہے جو پاکستانی سامعین کے لئے اردو زبان میں روزانہ کئی پروگرام نشر کرتا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق بہت سی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
چین میں کئی علاقوں میں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ جن میں لاکھوں تعداد ان چینی مسلمانوں کی بھی ہے جو پیدائشی مسلمان ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں مسلمانوں کے وسیع کاروبار ہیں جن میں حلال اشیاء کے بڑی مارکیٹیں ہیں اور کئی مساجد بھی شامل ہیں، صرف بیجنگ میں 70 مساجد ہیں جس میں سب سے بڑی اور مشہور مسجد نیو جے کی جامع مسجد ہے۔ مسجد کے قریب ہی نیو جے مارکیٹ ہے جس میں حلال گوشت اور دیگر حلال اشیاء کے علاوہ مسلمانوں کے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء دستیاب ہیں۔
لیکن تمام تر تاریخی پس منظر کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند ایک ممالک کو پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی لیکن ان دونوں ممالک کی دوستی اب دونوں ممالک کی عوام میں گہرائی کے ساتھ سرائیت کرگئی ہے اور اس میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہی ہوگا۔ اِس لیے جلنے والے کا منہ کالا اور پاک چین دوستی زندہ باد پاکستان پائیندہ باد۔
[poll id="367"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پاکستان کی چین سے دوستی کی بنیادی وجہ آج سے 66 سال پہلے یکم اکتوبر 1949 کو طویل ترین خانہ جنگی کے چین کی آزادی ہے کہ پاکستان پوری مسلم دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے سب سے پہلے عوامی جمہوری چین کو تسلیم کیا تھا۔ بس وہ وقت تھا اور آج کا وقت ہے چین اور پاکستان کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں۔ پاک چین دوستی کو قوموں کی برداری میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
اس کے بعد چین مختلف مراحل سے گزرتا رہا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ آج وہ معاشی طورپر دنیا کی بڑی طاقتوں کی صف میں شامل ہوچکا ہے۔ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قومیں اپنے لیڈروں کی قیادت میں منزلوں کی سمت سفر کرتی ہیں۔ چینی قوم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انہیں ماﺅزے تنگ جیسا لیڈر ملا جس نے آزادی سے لے کر 1976 تک اپنی قوم کی مخلصانہ قیادت کی اور قوم کو اس منزل تک پہنچایا جہاں سے اس کو اپنی منزل صاف نظر آنے لگی تھی۔ اس مرحلے پر ایک اور عظیم قائد ڈے نگ ژےاﺅ پنگ نے قوم کی رہنمائی کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے معاشی اصلاحات کا آغاز کیا اور اوپن ڈور پالیسی کا اختیار کرنے کے فیصلے نے چین کوعظیم اقتصادی قوت بننے کی منزل سے ہم کنار کردیا۔
جس سفر کا آغاز ماﺅزے تنگ نے کیا تھا اور قوم کو لے کر اس راستے پر ڈینگ ژےاﺅ پنگ آگے بڑھے تھے چینی قوم کی تیسری نسل بھی اسی سفر پر رواں دواں ہے اور تیسری نسل کی قیادت چین کا ایک اور انقلابی لیڈر شی چن پنگ کر رہے ہیں۔ موجودہ چینی قیادت قومی مفاہمت' امن و آشتی اور معاشی ترقی کے رہنما اصولوں کے تحت کام کر رہی ہے۔ چین دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جس نے بدترین بین الاقوامی کساد بازاری کے باوجود اپنی معیشت کو سنبھالے رکھا جو زرمبادلہ کے محفوظ ذخائر اور صنعتی ترقی کی جامع پالیسی کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔
پاکستان اور چین جغرافیائی لحاظ سے پڑوسی ہونے کے ناطے ہی ایک دوسرے کے قریب نہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کے عالمی امور' امن پسندی اور باہمی احترام کے حوالے سے خیالات بھی یکساں ہیں۔
چین اقوام متحدہ کے بانی ممالک میں شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج چین کو سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق بھی حاصل ہے۔ دوعشروں تک مغرب کی چین دشمنی کی وجہ سے اسے اقوام متحدہ میں اپنے جائز مقام سے محروم رہنا پڑا۔ 25 اکتوبر 1971 چین کی سفارتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اُس روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت کے ساتھ عالمی ادارے میں چین کی مراعات بحال کردیں۔ چین کی اقوام متحدہ میں یہ غیر معمولی کامیابی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ چین ہر فورم پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتا رہا ہے۔ مراعات کی بحالی کے بعد چین چھوٹے اور کمزور اقوام کے تحفظ کے لئے موثر کردار ادا کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں سیٹ کی بحالی کے بعد چین نے عالمی برادری سے تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ دی۔ 1970 کے عشرے کے اختتام تک چین نے 120 ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے تھے جن میں امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام ایک اہم پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم' کوریا کی جوہری قوت کے حوالے سے 6 ملکی مذاکرات' چین افریقن تعاون تنظیم، بیجنگ سربراہ اجلاس، ایشیاء یورپ میٹنگ سے لے کر لندن میں جی ٹونٹی سربراہ اجلاس تک چین نے ہر فورم میں فعال کردار کیا جس وجہ سے اپنی حیثیت منوالی ہے۔
ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت ہونے کے ناطے بھی چین نے عالمی معاملات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور قوموں کی برادری میں چین کی اہمیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ چین دنیا کا تیسرا ملک ہے جس نے انسان بردار خلائی جہاز خلاءمیں بھیجے۔ 66 سال قبل جب چین آزاد ہوا تھا تو خلاء کو تسخیر کرنے سمیت وہ کامیابیاں خواب معلوم ہورہی تھیں جنہیں آج چین نے اپنی محنت کی بدولت تعبیر کاجامہ پہنایا ہے ۔
چین پاکستان سے اپنی دوستی روز بروز مضبوط کررہا ہے۔ نت نئے منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔ چین پاکستان کے ہر شعبہ میں نہ صرف سرمایہ کاری کررہا ہے بلکہ اپنے تعاون کی بھی پیش کش کرتا رہتا ہے۔ جس کی ایک کڑی چین کے صدر کا موجودہ دورہ پاکستان ہے۔ چین پاکستانی اور چینی عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیئے بھی کوشاں ہے جس کی ایک جیتی جاگتی مثال چائیناء ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس بھی ہے جو پاکستانی سامعین کے لئے اردو زبان میں روزانہ کئی پروگرام نشر کرتا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق بہت سی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
چین میں کئی علاقوں میں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ جن میں لاکھوں تعداد ان چینی مسلمانوں کی بھی ہے جو پیدائشی مسلمان ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں مسلمانوں کے وسیع کاروبار ہیں جن میں حلال اشیاء کے بڑی مارکیٹیں ہیں اور کئی مساجد بھی شامل ہیں، صرف بیجنگ میں 70 مساجد ہیں جس میں سب سے بڑی اور مشہور مسجد نیو جے کی جامع مسجد ہے۔ مسجد کے قریب ہی نیو جے مارکیٹ ہے جس میں حلال گوشت اور دیگر حلال اشیاء کے علاوہ مسلمانوں کے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء دستیاب ہیں۔
لیکن تمام تر تاریخی پس منظر کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چند ایک ممالک کو پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی لیکن ان دونوں ممالک کی دوستی اب دونوں ممالک کی عوام میں گہرائی کے ساتھ سرائیت کرگئی ہے اور اس میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہی ہوگا۔ اِس لیے جلنے والے کا منہ کالا اور پاک چین دوستی زندہ باد پاکستان پائیندہ باد۔
[poll id="367"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔