مائیکروویواوون نے کئی برس تک سائنس دانوں کو چکرائے رکھا
خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے کی غرض سے زمین سے بھی کئی بار خلا میں سگنلز بھیجے جاچکے ہیں،ماہرین
خلائی مخلوق کا سُراغ لگانے اور اس سے رابطہ کرنے کے لیے سائنس داں برادری عشروں سے بے چین ہے۔
اس مقصد کے لیے جہاں انھوں نے خلائی جہاز مریخ اوردیگر سیاروں کی جانب روانہ کیے ہیں، وہیں خلائی مخلوق کی جانب سے آنے والے ممکنہ ریڈیائی سگنلز کو پکڑنے کے لیے رصد گاہوں میں خصوصی آلات بھی نصب کیے گئے ہیں,خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے کی غرض سے زمین سے بھی کئی بار خلا میں سگنلز بھیجے جاچکے ہیں۔ ماہرین فلکیات کو یقین ہے کہ خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے گئے سگنلزایک نہ ایک دن زمین تک ضرور پہنچیں گے۔
آسٹریلیا میں قائم پارکس آبزرویٹری نامی رصدگاہ میں نصب آلات کئی برس سے عجیب وغریب ریڈیائی سگنلز موصول ہورہے تھے جنہیں سائنسی اصطلاح میں perytons کہا جاتا ہے۔ یہ سگنلز وقفے وقفے سے موصول ہوتے تھے مگر ان کی شدت یا طاقت کافی زیادہ ہوتی تھی۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ سگنلز خلا سے موصول ہورہے ہیں۔کچھ کا کہنا تھا کہ ان سگنلز کا مخرج خلا میں نہیں بلکہ یہیں زمین پر، اورکہیں آس پاس ہے کیوں کہ یہ سگنلز کسی ایک ماخذ کے بجائے مختلف مآخذ سے آتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ آلات یہ ظاہر کرتے تھے کہ ان مآخذ کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ مگر وہ یہ تعین نہیں کرپارہے تھے کہ سگنلز آ کہاں سے رہے ہیں۔ یہ تو ان کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ کئی برس سے انھیں پریشان کرنے والے ' پُراسرار' سگنلز کا ماخذ کہیں اور نہیں، بلکہ ان کے لنچ روم میں ہے۔
اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب پُراسرار سگنلز کے ہاتھوں پریشان ماہرفلکیات، ایملی پیٹروف نے رصدگاہ میں نصب دوربین کے ساتھ ریئل ٹائم ریڈیوانٹرفیئرنس مانیٹر منسلک کرنے کا فیصلہ کیا۔رواں برس جنوری میں دوربین نے تین پریٹون سگنل پکڑے۔ سائنس دانوں نے دوربین سے منسلک خصوصی مانیٹر پرنمودار ہونے والی انٹرلوپ فریکوئنسیز کا مطالعہ کیا تو ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ فریکوئنسیز تو مائیکروویو اوون سے خارج ہوتی ہیں۔
جب ایملی اور اس کے ساتھی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ سگنلز لنچ روم میں رکھے ہوئے کئی مائیکروویواوونز سے خارج ہورہے تھے۔ اس 'دریافت' نے جہاں سائنس دانوں کو زچ کردینے والی صورت حال سے نجات دلائی، وہیں وہ یہ جان کر شرمندہ بھی ہوئے ہوں گے کہ ' بغل ' میں رکھی ہوئی مشین نے کئی برس تک انھیں پریشان کیے رکھا۔
ماہرین کہتے ہیں اگر مائیکروویو کا بزر بجنے یعنی مقررکردہ وقت ختم ہونے سے پہلے اس کا دروازہ کھول دیا جائے تو اس کے اندر لگا ہوا magnetron ( ریڈیائی لہریں پیدا کرنے والا آلہ ) مکمل طور پر غیرفعال یا آف نہیں ہوتا۔ اس سے لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں۔ ان ہی لہروں کو آسٹریلوی ماہرین فلکیات خلائی مخلوق کی جانب سے آنے والے سگنلز سمجھ بیٹھے تھے۔
اس مقصد کے لیے جہاں انھوں نے خلائی جہاز مریخ اوردیگر سیاروں کی جانب روانہ کیے ہیں، وہیں خلائی مخلوق کی جانب سے آنے والے ممکنہ ریڈیائی سگنلز کو پکڑنے کے لیے رصد گاہوں میں خصوصی آلات بھی نصب کیے گئے ہیں,خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے کی غرض سے زمین سے بھی کئی بار خلا میں سگنلز بھیجے جاچکے ہیں۔ ماہرین فلکیات کو یقین ہے کہ خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجے گئے سگنلزایک نہ ایک دن زمین تک ضرور پہنچیں گے۔
آسٹریلیا میں قائم پارکس آبزرویٹری نامی رصدگاہ میں نصب آلات کئی برس سے عجیب وغریب ریڈیائی سگنلز موصول ہورہے تھے جنہیں سائنسی اصطلاح میں perytons کہا جاتا ہے۔ یہ سگنلز وقفے وقفے سے موصول ہوتے تھے مگر ان کی شدت یا طاقت کافی زیادہ ہوتی تھی۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال تھا کہ یہ سگنلز خلا سے موصول ہورہے ہیں۔کچھ کا کہنا تھا کہ ان سگنلز کا مخرج خلا میں نہیں بلکہ یہیں زمین پر، اورکہیں آس پاس ہے کیوں کہ یہ سگنلز کسی ایک ماخذ کے بجائے مختلف مآخذ سے آتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ آلات یہ ظاہر کرتے تھے کہ ان مآخذ کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ مگر وہ یہ تعین نہیں کرپارہے تھے کہ سگنلز آ کہاں سے رہے ہیں۔ یہ تو ان کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ کئی برس سے انھیں پریشان کرنے والے ' پُراسرار' سگنلز کا ماخذ کہیں اور نہیں، بلکہ ان کے لنچ روم میں ہے۔
اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب پُراسرار سگنلز کے ہاتھوں پریشان ماہرفلکیات، ایملی پیٹروف نے رصدگاہ میں نصب دوربین کے ساتھ ریئل ٹائم ریڈیوانٹرفیئرنس مانیٹر منسلک کرنے کا فیصلہ کیا۔رواں برس جنوری میں دوربین نے تین پریٹون سگنل پکڑے۔ سائنس دانوں نے دوربین سے منسلک خصوصی مانیٹر پرنمودار ہونے والی انٹرلوپ فریکوئنسیز کا مطالعہ کیا تو ان پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ فریکوئنسیز تو مائیکروویو اوون سے خارج ہوتی ہیں۔
جب ایملی اور اس کے ساتھی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ سگنلز لنچ روم میں رکھے ہوئے کئی مائیکروویواوونز سے خارج ہورہے تھے۔ اس 'دریافت' نے جہاں سائنس دانوں کو زچ کردینے والی صورت حال سے نجات دلائی، وہیں وہ یہ جان کر شرمندہ بھی ہوئے ہوں گے کہ ' بغل ' میں رکھی ہوئی مشین نے کئی برس تک انھیں پریشان کیے رکھا۔
ماہرین کہتے ہیں اگر مائیکروویو کا بزر بجنے یعنی مقررکردہ وقت ختم ہونے سے پہلے اس کا دروازہ کھول دیا جائے تو اس کے اندر لگا ہوا magnetron ( ریڈیائی لہریں پیدا کرنے والا آلہ ) مکمل طور پر غیرفعال یا آف نہیں ہوتا۔ اس سے لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں۔ ان ہی لہروں کو آسٹریلوی ماہرین فلکیات خلائی مخلوق کی جانب سے آنے والے سگنلز سمجھ بیٹھے تھے۔