بوڑھوں کےساتھ وقت گزارنے پر نوجوانوں کو بلامعاوضہ رہائش کی فراہمی
ہالینڈ کے اولڈ ہوم کی عمارت میں 160 بوڑھوں کے ساتھ چھے طالب علم رہائش پذیر ہیں۔
تنہائی گھر کے بزرگوں کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ ہے جہاں ہالینڈ میں بوڑھوں کےساتھ وقت گزارنے کی پرنوجوانوں کوبلامعاوضہ رہائش کی فراہمی دی جا رہی ہے۔
اولاد اپنی زندگی میں مصروف ہوگئی ہے،جودو گھڑی اپنے والدین کے ساتھ بیٹھنے کی بھی روادار نہیں رہی۔ مغربی معاشرے میں اس حوالے سے صورت حال زیادہ خراب ہے جہاں اولاد بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز کے سپرد کرکے تمام ذمہ داریوں سے بری ہوجاتی ہے۔
اولڈ ہومز کے بوڑھے مکین ایک دوسرے کو اپنے دُکھ درد، اپنی داستان حیات سُنا کر وقت گزارنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ مگر آخر کب تک؟ اولڈ ہوم کی مختصر سی دنیا کے باسیوں کے پاس کرنے کے لیے، بالآخر کوئی نئی بات نہیں رہتی۔ وہ ٹھنڈی سانسیں بھرتے اور ماضی کو یاد کرتے ہوئے آخری گھڑی کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔
ہالینڈ کے ایک اولڈ ہوم کی انتظامیہ نے بوڑھے افرادکی تنہائی دورکرنے کا ایک منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ دفنتر شہر میں واقع اولڈ ہوم کی عمارت میں کالج اور یونی ورسٹی کے طالب علموں کو رہائش مفت فراہم کی جارہی ہے۔
بلامعاوضہ رہائش کے عوض طالب علموں سے صرف یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم 30 گھنٹے، یعنی اوسطاً ایک گھنٹہ یومیہ عمارت کے بوڑھے مکینوں کے ساتھ گزاریں گے۔ اولڈ ہوم کے منتظمین کے مطابق نوجوان طالب علم اپنے بوڑھے پڑوسیوں کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔
ان کی سال گرہ مناتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، گیم کھیلتے ہیں، انھیں خریداری کے لیے لے جاتے ہیں اور بیماری میں ان کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ اولڈ کرایہ کے کئی بوڑھے مکین نوجوانوں کی وجہ سے ہوم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ چلانا بھی سیکھ گئے ہیں۔
طلبا کو مفت رہائش فراہم کرنے کا اقدام، طالب علموں اور بوڑھے افراد، دونوں ہی کے لیے مفید ثابت ہورہا ہے۔ طالب علموں کو کرایے ادا نہیں کرنا پڑتا، اور بوڑھے افراد کی تنہائی سے جان بھی چھوٹ جاتی ہے۔ اولڈ ہوم کے سربراہ Gea Sijpkes کہتے ہیں یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم بزرگوں کا رابطہ، بیرونی دنیا سے ٹوٹنے نہ دیں۔ یہ طالب علم بیرونی دنیا کو اپنے بوڑھے ساتھیوں کے لیے اندر لے آتے ہیں، جس سے مل کر وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
اس وقت اولڈ ہوم کی عمارت میں 160 بوڑھوں کے ساتھ چھے طالب علم رہائش پذیر ہیں۔ ان نوجوانوں کو آنے جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ انھیں اپنے دوستوں کو بھی یہاں لانے کی اجازت ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ شوروغل نہ ہو۔ نوجوانوں کی آمد سے بوڑھوں کی تنہائی کا بڑی حد تک مداوا ہوگیا ہے۔ اور اب ہمیشہ رنجیدہ رہنے والے چہروں پر بھی مسکراہٹ نظر آنے لگی ہے۔
Gea Sijpkes کو بوڑھوں کی تنہائی دور کرنے کا یہ خیال دو سال پہلے آیا تھا جب یونی ورسٹی کے ہاسٹل کی رہائش سے تنگ ایک طالب علم نے یہاں رہنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
Gea نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس شرط پر بلامعاوضہ رہائش فراہم کردی تھی کہ وہ روزانہ ایک گھنٹہ اولڈ ہوم کے مکینوں کے ساتھ گزارے گا۔ رفتہ رفتہ پانچ اور طالب علم یہاں رہائش پذیر ہوگئے۔ Gea کا کہنا ہے مزید طالب علموں کی آمد کے بعد بوڑھے مکینوں کے لیے زندگی کے بقیہ ایام بسر کرنا اور بھی آسان ہوجائے گا۔
اولاد اپنی زندگی میں مصروف ہوگئی ہے،جودو گھڑی اپنے والدین کے ساتھ بیٹھنے کی بھی روادار نہیں رہی۔ مغربی معاشرے میں اس حوالے سے صورت حال زیادہ خراب ہے جہاں اولاد بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز کے سپرد کرکے تمام ذمہ داریوں سے بری ہوجاتی ہے۔
اولڈ ہومز کے بوڑھے مکین ایک دوسرے کو اپنے دُکھ درد، اپنی داستان حیات سُنا کر وقت گزارنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ مگر آخر کب تک؟ اولڈ ہوم کی مختصر سی دنیا کے باسیوں کے پاس کرنے کے لیے، بالآخر کوئی نئی بات نہیں رہتی۔ وہ ٹھنڈی سانسیں بھرتے اور ماضی کو یاد کرتے ہوئے آخری گھڑی کی آمد کے منتظر رہتے ہیں۔
ہالینڈ کے ایک اولڈ ہوم کی انتظامیہ نے بوڑھے افرادکی تنہائی دورکرنے کا ایک منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ دفنتر شہر میں واقع اولڈ ہوم کی عمارت میں کالج اور یونی ورسٹی کے طالب علموں کو رہائش مفت فراہم کی جارہی ہے۔
بلامعاوضہ رہائش کے عوض طالب علموں سے صرف یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ مہینے میں کم از کم 30 گھنٹے، یعنی اوسطاً ایک گھنٹہ یومیہ عمارت کے بوڑھے مکینوں کے ساتھ گزاریں گے۔ اولڈ ہوم کے منتظمین کے مطابق نوجوان طالب علم اپنے بوڑھے پڑوسیوں کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔
ان کی سال گرہ مناتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، گیم کھیلتے ہیں، انھیں خریداری کے لیے لے جاتے ہیں اور بیماری میں ان کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ اولڈ کرایہ کے کئی بوڑھے مکین نوجوانوں کی وجہ سے ہوم کمپیوٹر اور انٹرنیٹ چلانا بھی سیکھ گئے ہیں۔
طلبا کو مفت رہائش فراہم کرنے کا اقدام، طالب علموں اور بوڑھے افراد، دونوں ہی کے لیے مفید ثابت ہورہا ہے۔ طالب علموں کو کرایے ادا نہیں کرنا پڑتا، اور بوڑھے افراد کی تنہائی سے جان بھی چھوٹ جاتی ہے۔ اولڈ ہوم کے سربراہ Gea Sijpkes کہتے ہیں یہ بے حد ضروری ہے کہ ہم بزرگوں کا رابطہ، بیرونی دنیا سے ٹوٹنے نہ دیں۔ یہ طالب علم بیرونی دنیا کو اپنے بوڑھے ساتھیوں کے لیے اندر لے آتے ہیں، جس سے مل کر وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
اس وقت اولڈ ہوم کی عمارت میں 160 بوڑھوں کے ساتھ چھے طالب علم رہائش پذیر ہیں۔ ان نوجوانوں کو آنے جانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ انھیں اپنے دوستوں کو بھی یہاں لانے کی اجازت ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ شوروغل نہ ہو۔ نوجوانوں کی آمد سے بوڑھوں کی تنہائی کا بڑی حد تک مداوا ہوگیا ہے۔ اور اب ہمیشہ رنجیدہ رہنے والے چہروں پر بھی مسکراہٹ نظر آنے لگی ہے۔
Gea Sijpkes کو بوڑھوں کی تنہائی دور کرنے کا یہ خیال دو سال پہلے آیا تھا جب یونی ورسٹی کے ہاسٹل کی رہائش سے تنگ ایک طالب علم نے یہاں رہنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
Gea نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس شرط پر بلامعاوضہ رہائش فراہم کردی تھی کہ وہ روزانہ ایک گھنٹہ اولڈ ہوم کے مکینوں کے ساتھ گزارے گا۔ رفتہ رفتہ پانچ اور طالب علم یہاں رہائش پذیر ہوگئے۔ Gea کا کہنا ہے مزید طالب علموں کی آمد کے بعد بوڑھے مکینوں کے لیے زندگی کے بقیہ ایام بسر کرنا اور بھی آسان ہوجائے گا۔