متحدہ عرب امارات کا حاکمانہ رویہ

پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور پاکستانی قوم ایک باوقار قوم ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

یمن میں حوثی باغیوں کی کارروائیوں میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے عرب حکمرانوں کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عرب حکمرانوں یا بادشاہوں کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگر یمنی باغیوں کو نہ روکا گیا تو ان کا رخ دوسرے عرب ملکوں خصوصاً سعودی عرب کی طرف بھی ہوسکتا ہے غالباً اسی خوف کی وجہ سے سعودی حکمران نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے درخواست کی کہ وہ یمنی باغیوں کو روکنے کے لیے اپنی مسلح افواج سعودی عرب بھیجیں۔

پاکستان کے سنجیدہ حلقوں اور عقلمند سیاستدانوں اور قلمکاروں کو یہ احساس ہوا کہ اگر سعودی عرب میں فوج بھیجی گئی تو یہ اقدام پاکستان کو سنگین مسائل سے دوچار کردے گا، اسی خطرے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سب نے یک زبان ہوکر آواز اٹھائی کہ ایسے نازک مسئلے پر فرد واحد یا حکومت کو فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

یہ فیصلہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے۔ یہ مطالبہ اتنا معقول اور بامعنی تھا کہ حکومت کو اس کے آگے سر جھکانا پڑا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یمن کی اس لڑائی سے پاکستان کو دور رہتے ہوئے ثالث یا سہولت کارکا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ فیصلہ جو ایک قرارداد کی شکل میں پارلیمنٹ نے کیا تھا وہ پاکستان کے مفادات کے عین مطابق تھا۔

اس فیصلے سے عرب شیوخ اس قدر مشتعل ہوگئے کہ یو اے ای کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے ایک حاکمانہ بیان داغ دیا کہ ''پاکستان کو اس مبہم موقف کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی'' ساتھ ہی ساتھ موصوف نے یہ بھی فرمادیا کہ پاکستان کو ہم مالی مدد فراہم کرتے رہے لیکن اس نے ہماری ضرورت کے وقت ہماری مدد کرنے سے انکار کردیا۔

پاکستان کی حکومت پارلیمنٹ کی اس واضح قرارداد کے باوجود سعودی حکمرانوں کو یہ یقین دلاتی رہی کہ اگر سعودی عرب کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستانی حکومت اس کے ساتھ کھڑی ہوگی لیکن یہ یقین دہانی عرب حکمرانوں کو اس لیے مطمئن نہ کرسکی کہ وہ یمن کی اس جنگ میں پاکستان کی فوجی طاقت کو براہ راست استعمال کرنا چاہتے تھے۔

عرب حکمرانوں کا تعلق چونکہ جمہوریت سے نہیں ہے لہٰذا وہ پارلیمنٹ کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اپنی طرح یہ چاہتے ہیں کہ نواز شریف بھی آمرانہ انداز میں یمن کی جنگ میں کودنے کا فیصلہ کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ ''مشکل وقت'' میں سعودی حکمرانوں نے نواز شریف کی مدد کی اور پاکستان کو مالی امداد بھی فراہم کرتے رہے لیکن یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں تھا کہ ان احسانات کے جواب میں پاکستانی حکومت مسلح افواج کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیتی جو ابھی تک غیر واضح اور انتہائی پیچیدہ ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ مجبور ہوگئے کہ متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے حاکمانہ بیان کی مذمت کریں سو چوہدری نثار نے دو ٹوک انداز میں کہہ دیا کہ ''اماراتی وزیر خارجہ کی یہ دھمکی پاکستان کی توہین اور ناقابل قبول ہے۔'' چوہدری نثار نے بجا طور پر کہا ہے کہ پاکستان ایک غیرت مند قوم کا نام ہے۔

قرقاش کا یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کے خلاف ہے بلکہ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ بیان بازیوں کی تلخی اتنی شدید تھی کہ سعودی حکومت نے وزیر مذہبی امور شیخ صالح بن عبدالعزیز کو ہنگامی طور پر پاکستان بھجوایا اگرچہ موصوف نے یہ تسلیم کیا ہے کہ قرارداد پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے لیکن ساتھ ہی محترم وزیر یہ بھی کہتے رہے کہ پاکستان کے موقف سے ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔

پاکستان میں اچھی بری ایک جمہوری حکومت ہے اور پاکستان کے سنجیدہ حلقے اور سنجیدہ سیاستدان اب کسی قیمت پر پاکستان کو کسی غیر ملکی جنگ میں دھکیلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ نے اس جنگ میں شامل ہونے سے انکارکردیا ہے اور پاکستان کا یہ انکار عرب حکمرانوں کو گستاخی اور احسان فراموشی نظر آرہا ہے۔


اس نفسیات کی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ عربوں میں آمرانہ شخصی اور خاندانی حکومتیں ہیں جو جمہوری آداب سے واقف نہیں دوسرے وہ مالی مدد کے معاوضے میں پاکستان کو اپنا باج گزار بنانا چاہتے ہیں۔یمن کی جنگ کے حوالے سے عرب حکمران یہ فرما رہے ہیں کہ اس جنگ سے سعودی عرب میں موجود مقامات مقدسہ کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اس جذباتی موقف کی وجہ سے پاکستان سمیت مسلم ملکوں کے عوام میں تشویش پیدا ہونا ایک فطری بات ہے اور غالباً اسی پس منظر میں عرب بادشاہ یہ فرما رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت پاکستان کے عوام کے جذبات کے برخلاف فیصلے کر رہی ہے۔

عرب حکمرانوں کی اس منطق کا ایک مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ مقامات مقدسہ کو لاحق فرضی خطرات کا حوالہ دے کر پاکستان کے عوام کو مشتعل کیا جائے اور عوام کے دباؤ میں آکر حکومت عرب حکمرانوں کی مرضی کے مطابق پاکستان کو یمن کی جنگ میں دھکیلنے کے لیے تیار ہوجائے۔

دنیا کے غیر جانبدار مبصرین واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ یمن کی جنگ اپنے اصل میں یمن کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کی جنگ ہے اور اس خطرناکی کی وجہ یہ ہے کہ ایران یمن کے حوثی باغیوں کی حمایت کر رہا ہے اور عربوں کا یہ جھگڑا ایران سے صدیوں پرانا ہے بلاشبہ اس تنازعے کے پس منظر میں مسلکی اختلافات نظر آتے ہیں لیکن یمن کی اس جنگ میں مسلکی اختلافات سے زیادہ سیاسی مفادات کار فرما نظر آتے ہیں۔

یمن سمیت کسی بھی مسلم یا غیر مسلم ملک کی یہ ہمت نہیں ہوسکتی کہ وہ سعودی عرب میں موجود مقامات مقدسہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے کیونکہ ان مقامات مقدسہ کی حرمت برقرار رکھنے کے لیے عالم اسلام سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ عرب مسلمان جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کی حفاظت کے لیے نکل کھڑے ہوں گے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ عرب بہار نے عرب بادشاہوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ وہ ہر لڑائی کو بادشاہوں کے خلاف لڑائی سمجھتے ہیں اور اسی نفسیات کے ساتھ اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

یمن کا مسئلہ ایران کی حمایت کی وجہ سے عرب حکمرانوں کے لیے سنگین بن گیا ہے لیکن اس حوالے سے یہ شک مکمل طور پر بے جواز اور فرضی ہے کہ یمن کی جنگ سے سعودیہ میں موجود مقامات مقدسہ کو کوئی خطرہ لاحق ہے۔

پاکستان کی حکومت، سیاسی جماعتوں ، مذہبی قیادت اور عوام کو ان حقائق کا ادراک ہونا چاہیے اور اس کے پس منظر میں اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل کرنی چاہیے۔ پاکستان نے عرب امارات کے وزیر خارجہ کے حاکمانہ بیان کا جو جواب دیا ہے وہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے عین مطابق ہے اور پاکستان کی حکومت کو اپنے اس موقف پر ڈٹے رہنا چاہیے۔

پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور پاکستانی قوم ایک باوقار قوم ہے۔ عرب ممالک خصوصاً متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے وقت پڑنے پر پاکستان کی بھاری مالی مدد کی ہے لیکن کسی بھی مرحلے پر کسی عرب ملک نے پاکستان کی فوجی مدد نہیں کی حتیٰ کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی، نہ پاکستان نے کسی عرب ملک سے فوجی مدد کی درخواست کی۔

1965 اور 1971 کی جنگیں پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک حقیقی خطرہ بن گئی تھیں لیکن کسی عرب ملک نے اس نازک موقعے پر پاکستان کی فوجی مدد نہیں کی اب جب کہ بعض عرب ملکوں کے اقتدار کو خطرہ نظر آرہا ہے تو اس خطرے سے نمٹنے کے لیے پاکستان سے فوجی مدد مانگنا اور انکار پر اسے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینا ،کیا عرب ملکوں کو زیب دیتا ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے عوامی امنگوں کے مطابق ایک فیصلہ کردیا ہے۔

جس کا احترام کیا جانا چاہیے ہمارے دوستوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ پاکستانی فوج کرائے پر نہیں دی جاتی نہ وہ کسی پروکسی وار کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے اگر کوئی حکمران احسان مندی کے تحت پاکستان کے اجتماعی مفادات کے خلاف کوئی بات کرتا ہے تو یہ اس کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے، قوم کی رائے نہیں۔
Load Next Story