اسلامو فوبیا کا تدارک

امریکی صدر باراک اوباما کی مذکورہ بالا باتیں دنیا میں دیرپا امن کے لیے حوصلہ افزا ہیں لیکن نئی باتیں نہیں ہیں۔


Shabbir Ahmed Arman April 21, 2015
[email protected]

''امریکا اسلام کے خلاف ہے اور نہ ہی اس کی جنگ اسلام یا عام مسلمانوں کے خلاف ہے بلکہ جنگ کا نشانہ وہ شدت پسند عناصر ہیں جنھوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے اور اس کے پیغام کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، آرمی پبلک اسکول پشاور میں بے گناہ بچوں کا قتل عام ہوا جس کی مذمت کرتے ہیں۔

طالبان نے کئی عشروں سے پاکستانیوں کے خلاف جنگ جاری رکھی ہوئی، عالمی طاقتیں تعلیم کے فروغ کے لیے کوششوں کو موثر بنائیں، مسلمان سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں'' ان خیالات کا اظہار امریکا کے صدر باراک اوباما نے وائٹ ہاؤس میں پر تشدد انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق سربراہ اجلاس سے خطاب میں کیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما کی مذکورہ بالا باتیں دنیا میں دیرپا امن کے لیے حوصلہ افزا ہیں لیکن نئی باتیں نہیں ہیں۔ 9/11 واقعے کے فوری بعد اس وقت کے امریکی صدر بش جونیئر نے صلیبی جنگ کا ذکرکیا تھا۔ لیکن حالات کی سنگینی کا احساس ہونے کے بعد انھوں نے اس کی تردید کی لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی، یورپ اور مغرب میں آباد مسلم اقلیتیں عذاب میں مبتلا ہوگئی تھیں ۔

ان کی جان ومال غیر محفوظ ہوگئے تھے، ان کے لیے خدا کی زمین تنگ کردی گئی تھی، تب سے امن پسند مسلمان یہی کہتے رہے ہیں جو آج امریکی صدر باراک اوباما کہہ رہے ہیں۔

کاش! پہلے دن ہی سے اسلام کا آفاقی پیغام ''امن پسندی'' کو سمجھ لیا جاتا تو آج تک نہ لاکھوں بے گناہ مسلمان مارے جاتے اور نہ ہی انھیں دہشت گرد جان کر تنگ کیا جاتا اور نہ ہی اسلام بدنام ہوتا اور نہ ہی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے متواتر واقعات ہوتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نہ ہی مسلمانوں کی دل آزاری کے سامان (پیغمبروں کی شان میں گستاخانہ عمل) پیدا کیے جاتے۔ میں نہیں سمجھتا یہ مکروہ عمل تہذیب یافتہ قوموں کی صفت ہے یہ اسلام سے دشمنی کی حد ہے۔

امریکا میں نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کیمپس میں مبینہ دہشت گرد کریگ ہکس کی جانب سے 3نوجوان مسلمان طلبا کو سروں پر گولیاں مار کر قتل کیا گیا جس کے بعد امریکی ریاست ٹیکساس کے 2 شہروں آرلنگٹن اور ڈینٹن کی یونیورسٹیوں میں مقامی لوگوں کی جانب سے حجاب پہننے والی طالبات کو دھمکیاں دینے اور ان پر اسلحہ دیکھا کر دھمکانے کے 2واقعات سامنے آئے۔

مسلمان طالبہ نے رپورٹ میں بتایاکہ کیمپس میں سفر کے دوران ایک گاڑی میں بیٹھے شخص نے اس کا پیچھا کیا اور جب اس نے اپنی گاڑی پارکنگ میں پارک کی تو اس شخص نے گاڑی اس کی گاڑی کے پیچھے پارک کی اور اس پر اسلحے لہراتے ہوئے دھمکی دی کہ یہ ملک (امریکا) چھوڑ دو۔ اسی طرح ایک دوسرے واقعے میں ایک نوجوان نے طالبہ کو کہا کہ تم اپنے ملک واپس جاؤ یا نارتھ کیرولینا چلی جاؤ کیوں کہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ تم لوگوں سے کس طرح کا برتاؤ کیا جائے۔ ادھر برطانیہ میں مقیم 30 لاکھ مسلمان خوف و ہراس کا شکار ہیں اور انھیں تحفظ دینے والا کوئی نہیں۔

چارلی ہیبڈو پرحملے کے بعد یورپ بھر میں مسلمان شہریوں کی جان و مال پر حملے کیے گئے برطانوی جریدے انڈی پینڈنٹ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ برطانوی اسکولوں میں زیر تعلیم مسلمان طلبہ کے خلاف جسمانی ، زبانی حملوں اور نفرت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ سیکڑوں مسلم طلبا و طالبات اور ان کے والدین نے برطانوی اساتذہ اور غیر مسلم طلبا کے نازیبا رویوں اور جسمانی حملوں کی شکایات درج کرائی ہیں۔

برطانوی تنظیم ٹیلی ماما کے ڈائریکٹر فیاض مغل کہتے ہیں کہ ''ہمیں روزانہ کی بنیاد پر برطانوی اسکولوں میں مسلم طلبا پر تشدد کے واقعات رپورٹ کیے جاتے ہیں۔ ہم نے برطانوی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ اور حکومتی افسران کو لکھا ہے کہ جلد از جلد اسکولوں کے اساتذہ کے لیے ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے جس میں انھیں ''اسلامو فوبیا'' (اسلام کے خلاف نفرت اور خوف) کے بڑھتے اثرات کو ختم کرنے کی تربیت دی جائے۔''

ادھر امریکی ریاست ارکنساس کی جیل میں قید ایک نو مسلم قیدی عبدالمالک محمد ایک انچ تک داڑھی بڑھانا چاہتے تھے، تاہم جیل انتظامیہ نے اسے اس سے منع کر رکھا۔ عبدالمالک یہ معاملہ کورٹ آف اپیل لے کر گیا تھا تاہم وہاں سے جیل انتظامیہ کے حق میں فیصلہ آیا۔ اس کے بعد عبدالمالک نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر قرار دیا ہے کہ جیل حکام کی جانب سے مسلمان قیدیوں کو داڑھی رکھنے سے روکنا ان کی مذہبی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

معروف دانشور نوم چومسکی بھی اسلام کے خلاف مغربی مہم پر برہم ہیں۔ وہ اپنے مضمون میں سوال کرتے ہیں کہ ''عیسائیت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی مذہب کی بنیاد پر لا تعداد انسانوں اور دانشوروں کو قتل کیا، یہ دوغلا پن ہے کہ ایک جانب یہی کام عیسائی کریں تو جائز ہے۔

لیکن کوئی مسلمان کرے تو اس پر آسمان سر پر اٹھالیا جائے وہ لوگ (چارلی ہیبڈو انتظامیہ) گستاخانہ خاکوں ہی کو ''آزادی اظہار'' کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا چارلی ہیبڈو نے اپنے معروف کارٹونسٹ SINE کو محض اس بات پر فارغ نہیں کردیا تھا کہ اس نے اسرائیل کے خلاف ایک کارٹون بنایا تھا جب کہ ایک اور کارٹونسٹ کو صرف اس ''جرم'' میں ملازمت سے نکال دیاگیا تھا کہ اس نے سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے بیٹے کا کارٹون بنایا تھا۔

اس وقت چارلی ہیبڈو ''آزادی اظہار'' کا واویلا کہاں تھا؟ اور کہاں تھی مغربی دنیا؟ جو اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی۔ اسرائیل نے ''آپریشن پروٹیکٹیو ایج2014'' کے دوران غزہ میں نصف درجن صحافیوں کو ہلاک کیا تھا لیکن چوں کہ وہ تمام صحافی مسلمان تھے چنانچہ مغربی میڈیا مکمل خاموش رہا۔ دوسری طرف چارلی ہیبڈو حملے کے بعد تمام مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جارہاہے۔

حال ہی میں امریکی صدر باراک اوباما کا دورہ بھارت مسلمان شہریوں کے لیے عذاب بن گیا تھا، پیشگی سیکیورٹی اقدامات کے تحت کرناٹک کے علاقے بھٹکلی میں تابڑ توڑ چھاپے مارے گئے تھے، ڈاکٹر سمیت 6بے گناہ مسلمان نوجوانوں کو ''انڈین مجاہدین'' قرار دے کر گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارت میں فسادات پھیلانے کی کوشش کرنے والے ہندو انتہا پسندوں کی طویل فہرست ہے۔

حالیہ دنوں میں بھارت میں اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے مذہبی منافرت بڑھی ہے اور حکمران جماعت سے نظریاتی مماثلت رکھنے والی ہندو تنظیمیں کھلے عام ان عیسائیوں اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کررہی ہیں جو ان کے مطابق پہلے ہندو تھے۔

ان حالات کے پیش نظر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہاکہ ملک میں ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس پر عمل کی مکمل آزادی ہے، میں کسی بھی مذہب کے خلاف تشدد کی مذمت کرتاہوں، واضح رہے کہ دہلی میں گزشتہ چند ہفتوں میں 5گرجا گھروں کو نشانہ بنایاگیا ہے۔

امریکی صدر اوباما نے بھی اپنے دورہ بھارت میں انتباہ کیا تھا کہ بھارت کی ترقی کی راز اس کے مذہبی تفریق کے معاملات پر قابو پانے اور اقلیتوں سے انصاف میں مضمر ہے یاد رہے کہ گجرات میں مودی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں مسلم کش فسادات میں ایک ہزار سے زائد مسلمان شہید کردیے گئے تھے جس پر مغربی ممالک نے برسوں مودی گریز پالیسی اختیار کیے رکھی۔

الغرض دنیا بھر میں ''اسلام فوبیا'' پھیلا ہوا ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے آزادی اظہار کے نام پر مقدس ہستیوں کی توہین کی اجازت نہیں دینی چاہیے ہر قسم کی دہشت گردی اور اسلامو فوبیا کی مذمت ہونی چاہیے۔

مسلمانوں کو آج جرم، خوف اور تشویش کا ذریعہ خیال کیا جارہاہے، انتہا پسند اور دہشت گرد مسلم اقوام، ان کی تنظیموں اور عوام کے لیے دوسری قوموں کے سامنے سبکی کا سبب بنے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے دشمنوں کو نقصان پہنچانے کا موقع دیا ہوا ہے ایسے میں اسلام کی رواداری، اعتدال پسندی اور عفو و درگزر کی تعلیمات اجاگر کرنے اور تہذیبی مکالمے کی ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں