حسینہ واجد ماضی سے سبق حاصل کریں
بنگلہ دیش یقیناً ایک آزاد ملک ہے، مگر خودمختار نہیں کہلایا جاسکتا، کیوں کہ بھارتی اشاروں پر ہی چل رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما قمر الزمان کو 1971 میں پاکستان کا ساتھ دینے اور جنگی جرائم کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ حسینہ واجد کی قائم کردہ جنگی جرائم کی متنازعہ عدالت کے قیام کے بعد سے سزائے موت پانے والے جماعت اسلامی کے یہ دوسرے مرکزی رہنما تھے۔
اس سے قبل دسمبر 2013 میں اس جماعت کے نائب سیکریٹری جنرل عبدالقادر ملا کو بھی پاکستان کا ساتھ دینے کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ حسینہ واجد کی قائم کردہ اس غیر قانونی جنگی جرائم کی عدالت کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر تمام عالمی حقوق انسانی سے متعلق تنظیموں اور سرکردہ صحافیوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے مگر حسینہ واجد صرف اپنی انا کو تسکین دینے اور بھارت کو خوش کرنے کے لیے انتہائی ڈھٹائی سے ظلم و ستم اور بربریت کا یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے قیام کے 45 سال بعد اپنے ہی شہریوں پر ظلم کہاں کا انصاف ہے؟ حسینہ واجد کے اس ظلم و زیادتی کے خونیں کھیل نے ہٹلر کی یاد تازہ کردی ہے، انھیں شاید یاد نہیں کہ چند سال قبل کچھ بنگلہ دیشی نوجوانوں نے عوام پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کی پاداش میں ان کے والد اور پورے خاندان کو قتل کرکے ملک کو ان سے نجات دلادی تھی۔
افسوس کہ وہ ماضی کو بھول کر اپنے لیے نئی مصیبت کھڑی کررہی ہیں۔ عبدالقادر ملا کو پھانسی کے بعد پاکستان کی قومی اسمبلی میں ان کی پھانسی کی مذمت میں پاس ہونے والی قرارداد کے جواب میں حسینہ واجد نے انتہائی نفرت اور حقارت سے کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت رکھنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
لگتا ہے پاکستان سے نفرت حسینہ واجد کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ پاکستان سے اس لیے نفرت کرتی ہوں کہ ان کے والد کو ایوب خان نے ملک توڑنے کے اگر تلہ سازش کیس کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا پھر بعد میں 1971 میں ان کے والد کو یحییٰ خان نے ملک کو دولخت کرنے کی سازش میں اہم مجرم کے طور پر گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کردیا تھا مگر انھیں تو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کے والد کو ملک توڑنے جیسے سنگین جرم کے باوجود موت کی سزا دینے کے بجائے عزت سے رہا کردیا گیا تھا جب کہ پوری دنیا میں غداروں کو پھانسی دینا معمول کی بات ہے۔
حکومت پاکستان نے بعد میں فراخدلی سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا تھا، پھر وزیراعظم نواز شریف اور صدر پرویز مشرف نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1971 میں پاکستانی فوج کے بنگالیوں پر مبینہ زیادتیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی، اس کے علاوہ پاکستان نے علیحدگی کے باوجود بنگلہ دیش کی ہر برے وقت میں مدد کی، جس کا اعتراف خالدہ ضیا نے ضرور کیا ہے مگر افسوس کہ حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی سمجھ سے بالاتر ہے۔
مشرقی پاکستان کے ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے کئی سال بعد تک وہاں مرکز سے علیحدگی کا کوئی ایشو موجود نہ تھا لیکن جب قائداعظم نے بڑے خلوص سے اردو کو پورے پاکستان کی قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تو بھارتی ایجنٹوں کو علیحدگی کی تحریک چلانے کا مواد فراہم ہوگیا، پھر وہ اس نکتے کو لے کر آگے بڑھتے گئے اور بنگلہ زبان کے سہارے بنگالی قومیت کو اچھال کر مرکز سے نفرت کو ہوا دینے لگے۔
بعد میں بنگلہ زبان کو اس کا جائز مقام دلانے کے بہانے صوبہ گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا گیا، پولیس سے جھڑپیں بھی مول لی گئیں، جس سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے چند طلبا ہلاک و زخمی ہوئے۔ بس اصل میں یہیں سے علیحدگی کا نعرہ شروع ہوا، جو 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکا پر منتج ہوا۔ علیحدگی کی تحریک کو ہوا دینے میں مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ کا بھی کلیدی کردار تھا جو قیام پاکستان کے بعد سے ہی بھارت کے اشارے پر بنگالی طلبا کے اذہان میں مغربی پاکستان سے نفرت کا زہر گھول رہے تھے۔
بھارت کی شروع سے ہی مشرقی پاکستان کو ہڑپ کرنے پر نظریں لگی ہوئی تھیں، قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی اس کی فوج نے نامور جنرل چوہدری کی سرکردگی میں مشرقی پاکستان پر حملہ کردیا تھا، اس وقت مشرقی پاکستان کی فوجی کمان جنرل ایوب خان کے ہاتھ میں تھی، انھوں نے حکمت عملی سے بھارتی فوج کو گھیرے میں لے لیا اور گولیوں سے بھون ڈالا، البتہ جنرل چوہدری کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا تھا، اس شکست فاش کے بعد بھارت نے جارحانہ کارروائیوں کے بجائے سازشوں کے ذریعے مشرقی پاکستان کو ہتھیانے کا منصوبہ تیار کیا۔
اس سازشی جال میں کوئی اور تو نہ پھنس سکا البتہ مجیب الرحمن ان کے ہتھے چڑھ گئے، بھارت کا اگرتلہ سازش منصوبہ صدر ایوب خان کے دور میں بے نقاب ہوا، اس کے سرخیل مجیب الرحمن تھے جنھیں گرفتار کرلیا گیا، مغربی پاکستان کے بعض لبرل لیڈر اسے ایوب خان کا آمرانہ حربہ سمجھے۔ انھوں نے مجیب الرحمن کو بے قصور اور اگرتلہ سازش کو ڈھونگ قرار دے دیا جو کہ درحقیقت بہت بڑی غلطی تھی۔
اس وقت ایوب خان کی حکومت آخری سانسیں لے رہی تھی، ان لیڈروں نے ایوب خان کی بلائی گئی گول میز کانفرنس میں مجیب الرحمن کی شرکت کے بغیر شریک ہونے سے انکار کردیا، چنانچہ مغربی پاکستان کے لیڈروں کے شور شرابے کی وجہ سے حکومت کو مجیب الرحمن کو رہا کرنا پڑا۔ جو اپریل 1969 کا زمانہ تھا، مجیب الرحمن رہائی کے بعد سیدھے لندن گئے جہاں حسینہ واجد کے مطابق انھوں نے بھارتی ''را'' کے حکام اور بھارتی سفیر کے ساتھ مل کر پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی تھی۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش میں اگر صرف بھارت شریک ہوتا تو شاید پاکستانی حکومت کسی نہ کسی طرح اسے مات دے دیتی مگر بدقسمتی سے اس سازش میں روس سمیت کئی مغربی ممالک شامل تھے۔ بھارتی حکومت نے مجیب الرحمن کے ذریعے مشرقی پاکستان میں گڑبڑ شروع کرا دی۔ پاکستانی فوج اور مغربی پاکستانیوں پر کھلے عام حملے ہونے لگے، جس پر قابو پانے کے لیے پولیس نے حتی المقدور کوششیں کی، مگر وہ ناکام ہوگئی تو فوجی آپریشن کرنا ناگزیر ہوگیا۔
بھارت نے موقع غنیمت جان کر کلکتہ میں پہلے سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی ٹریننگ دیے گئے مکتی باہنی کے غنڈوں اور اپنے فوجیوں کو مشرقی پاکستان میں داخل کردیا۔ مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے بھارتی منصوبے کے مطابق مغربی پاکستانیوں اور پاک فوج پر حملے شروع کردیے جب کہ بھارتی فوجیوں نے پاکستانی فوج کی وردیوں میں ملبوس عام بنگالیوں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری اور انھیں ہلاک کرنا شروع کردیا۔
بھارت کی اس گھناؤنی سازش نے بنگالیوں کو پاکستان سے بدظن کردیا۔ یہ بات اب راز نہیں رہی ہے کہ جس مکتی باہنی کا بھارت نے بہت چرچا کیا تھا اس میں اس کے اپنے فوجی بڑی تعداد میں شامل ہے۔
بنگلہ دیش یقیناً ایک آزاد ملک ہے، مگر خودمختار نہیں کہلایا جاسکتا، کیوں کہ بھارتی اشاروں پر ہی چل رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو پاکستان اور چین سے اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ اس سے بھارتی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔
اس وقت بنگلہ دیش بھارتی مال کی ایک کھلی مارکیٹ ہے، بھارت کا وہ گھٹیا مال جو کہیں اور نہیں بکتا وہ اسے بنگلہ دیش میں فروخت کرلیتا ہے، بنگلہ دیش کی پوری معیشت پر وہ چھایا ہوا ہے، بنگلہ دیش کے مالی وسائل بہت محدود ہیں چنانچہ مغربی ممالک کا ایک کنسورشیم شروع سے ہی اس کی مالی امداد کررہا ہے۔ بھارتی نامور بزرگ صحافی کلدیپ نیئر کے مطابق اگر پھر کنسورشیم بھی اپنا ہاتھ کھینچ لے تو بنگلہ دیش کی معیشت تباہ ہوکر رہ جائے۔
بھارت ایک طرف بنگلہ دیش کا خیر خواہ بنا ہوا ہے تو دوسری جانب فرخا بیراج تعمیر کرکے بنگلہ دیش کا پانی روک رہا ہے، اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے سابق وزیراعظم خالدہ ضیا نے ضرور کچھ پیش رفت کی تھی لیکن بھارت پانی کی اپنی ضروریات کو ابھی بھی اولیت دے رہا ہے، وہ اکثر بنگلہ دیش میں آسام اور دوسری شمالی مشرقی ریاستوں کے حریت پسندوں کے وہاں چھپے ہونے کا واویلا کرتا رہتا ہے۔
حسینہ واجد بھارتی حکم پر ان حریت پسندوں کے ٹھکانے تلاش کرتی رہتی ہیں تاکہ بھارت کا حق نمک ادا ہوسکے۔ حسینہ واجد اس وقت ایک مطلق العنان حکمران کے طور پر بنگلہ دیش میں حکومت کررہی ہیں، بنگلہ دیش کی تمام سیاسی پارٹیاں ان کے جابرانہ طرز حکمرانی سے نالاں ہیں۔ حسینہ واجد کو ماضی سے سبق حاصل کرنا ہوگا۔