بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
فنکار کا چہرہ ایک ایسے شیشے کی مانند ہوتا ہے جس میں معاشرے کے سارے عکس اسی طرح دکھائی دیتے ہیں جس طرح وہ حقیقت میں ہوتے ہیں اوراس دنیا میں چند فنکار ہی ایسی خصوصیت اور قابلیت کے اہل ہونگے جن کی اداکاری تصوراتی کھیل تماشے تک محدود نہیں رہتی بلکہ جب وہ معاشرتی اور ثقافتی مسائل کو اس طرح اداکاری کے رنگ میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں کہ آپ کا پہلا ردعمل تو قہقہوں پرمبنی ہوتا مگر اگلے ہی لمحہ ایک دم احساس ہوتا ہے کہ اس نے مزاح میں کیا کچھ پروکر اسے تسبیح کی ایک شکل دے کر آپکے ہاتھوں میں تھما دیا ہے۔
ایسا ہی ایک نام معین اختر تھا، وہ فقط اک ستارہ نہیں بلکہ کہکشاں کی مانند تھا جس میں بیک وقت بہت سے ستارے محو گردش رہتے ہیں اور جب پردہ سکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو یہ کرداروں کی صورت اختیار کرکے طنز و مزاح کے رنگ میں معاشرتی بیماریوں کی نہ صرف نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ضمیر کو بھی جھنجوڑ دیتے ہیں۔
اسکی مثال انکا ایک شو ''لوز ٹاک'' تھا جس میں انور مقصود کا کردار میزبان اور معین اختر کا بطور مہمان تھا، جس کے ہر شو میں وہ ایک نیا روپ دھار کر پیش ہوتے اور طنز و مزاح کے رنگ میں وہ سب کچھ بیان کردیتے جن پر عام حالات میں لوگ بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔
پھر عمران سلیم کا تحریر کردہ اور ساحرہ کاظمی کا ہدایت کردہ ٹیلی ڈرامہ ''روزی'' آج بھی معاشرے کے بہت سے مسائل پر نہ صرف گہرا طنز بکھرتا دکھائی دیتا ہے بلکہ اگر اس کردار کو کسی صد فی صد خاتون اداکارہ نے ادا کیا ہوتا تو بھی اس میں ایک کمی کا احساس ہوتا مگر معین اختر نے اپنی اداکاری سے اسے فن کی دنیا کا ایک سنگ میل بنا دیا اسکے علاوہ 'عید ٹرین'، 'اسٹوڈیو ڈھائی'، 'اسٹوڈیو پونے تین'، 'شو ٹائم'، 'یس سر نو سر'، 'معین اختر شو'، 'سچ مچ'، 'لوز ٹاک'، 'ہاف پلیٹ'، 'میرزا اور حمیداں'، 'ہیلو ہیلو'، 'انتظار فرمائیے'، 'مکان نمبر 47'، 'بندر روڈ سے کیماڑی'، 'آنگن ٹیڑھا'، 'سچ مچ کی عید'، 'سچ مچ کا الیکشن'، 'نوکر کے آگے چکر'، 'بکرا قسطوں پے' اور 'ففٹی ففٹی' شامل ہیں۔
وہ صرف ٹی وی ڈرامہ، اسٹیج ڈرامہ تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کے میوزیکل البم ''تیرا دل بھی یوں تڑپے'' نے سننے والے سے منوا ہی لیا کہ اسکے اندر کئی ستارے روشن ہیں جنہیں وہ بوقت ضرورت سامنے لا کھڑا کردیتا ہے۔ بطور میزبان بین الااقوامی شہرت حاصل کی، دلیپ کمار، مادھوری اور لتا منگیشکر نے بھی ان کی فنی صلاحیتوں کا برملا اظہار کیا۔ بہترین نقال تھے، دلیپ کمار کے مخصوص سٹائل کی نقل اتاری تو وہ بہت خوش ہوئے۔
معین اختر نے 24 دسمبر 1950ء ایک متوسط سے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اپنے بارے میں ایک انٹرویو میں بتایا:۔
''بچپن میں کوئی خاص اچھا نہیں تھا، بہت سیدھا سادہ تھا، شرارتی نہیں تھا، بہت معصوم تھا۔ اماں نے کچھ بھی کھانے کو دیا تو میں لے کر باہر نکل جاتا اور پھر آکر کھانے کو مانگنا۔ اماں کہتی کہ ابھی تو دیا تھا میں نے باہر کی طرف اشارہ کیا انہوں نے باہر جا کر دیکھا تو دوسرا بچہ وہ کھانا کھا رہا ہوتا تھا۔ اب تک وہی عادت ہے کہ سب کو ملا کر کھانا، مراد یہ کہ اپنے دوستوں، ساتھیوں کو جاننے والوں کو فائدہ پہنچے۔ پچپن میں بہت ذہین طالبعلم تھا بس دماغ میں ایک خناس بیٹھ گیا کہ ہمارے ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی اور وہ ہم کو کہاں سے پڑھائیں گے؟ بس پھر پڑھائی سے دل اچاٹ سا ہو گیا۔ 13/14 برس کی عمر تھی تو اسکول میں ولیم شیکسپئر کا ڈرامہ ''مرچنٹ آف وینس'' میں شے لک کا مرکزی کردار ادا کرکے پہلا انعام حاصل کیا۔ میرے اساتذہ نے میرے اندر کے فن کو پہچان لیا تھا۔ مگر 6 ستمبر 1966ء کو یوم دفاع پر مجھے میری پرفارمنس نے شناخت دی اور اسی دوران کچھ طالبعلم آئے اور مجھے اگلا پروگرام کرنے کا کہا اور ساتھ ہی پانچ یا دس روپے ایڈوانس میں پکڑا دئیے جسے میں گھر آکر کبھی ایک جگہ چھپا کر رکھتا تو کبھی دوسری جگہ، پھر ایک شو کے 15/20 روپے ملے اور میں نے اماں کو دئیے اور کہا کہ پارٹ ٹائم جاب مل گئی ہے نائیٹ ٹائم مگر بعد میں ابا کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ تمہارا بیٹا تو بڑا طوفان آرٹسٹ ہے بس یہ سن کر ابا نے بہت مارا کہ سارے خاندان میں ناک کٹوادی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں تعلیم حاصل کروں مگر میں عملی زندگی میں کود گیا تھا۔ میری کسی سے پہچان نہیں تھی نہ ہی کچھ پتہ تھا لیکن یہ ایک معجزہ تھا خدا کا اور اللہ تعالی نے جس طرح رہنمائی کی۔''
معین اختر نے معیاری اور بامقصد طنز و مزاح کو اس بلند مقام پر لا کھڑا کیا جس سے آگے لے جانا کسی اور کے بس میں نہیں۔ دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا اور لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں میں بسنے والا معین اختر آج ہی کے روز 22 اپریل 2011ء میں اپنے ہی دل کی دھڑکنیں رک جانے کے سبب اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور ستارہ امتیاز کے علاوہ بے شمار انعامات سے نوازا گیا۔ اپنے فن کی بدولت اس فنکار نے دل و دماغ پر وہ اثر چھوڑا ہے جو نسل در نسل قائم رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔