حرف کی حُرمت

ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں قلم کے خریدار بہت ہیں، وہاں قلم کے محافظ اور حرف کی حُرمت کے پاسبان بھی موجود رہے...



لاہور: اتنا بڑا صاحب ِ نظر کہتا ہے تو ٹھیک ہی کہتا ہے کہ ہمارے بحرانوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم حرف کی حرمت قائم نہ رکھ سکے۔ بولے ہوئے لفظ کا اعتبار ہے نہ لکھے ہوئے کا ۔ گفتار بے وقار اور تحریر بے توقیرہے ۔ حرف اور صوت دونوں سچائی کے جو ہر سے محروم ہیں۔

قلم کے تقدّس کی خود خالق ِ کون و مکاں نے قسم کھائی اور پھر کہا کہ"کیوں کہتے ہو ایسی بات جس پر خود عمل نہیں کرتے"مطلب یہ کہ Don't preach which you don't practice

قلم جس کی عزّت و عصمت کو صاحبانِ دانش نے ماںا ور بیٹی کی عزّت و عصمت کے برابر قرار دیا ، اسے ہم نے ادنیٰ ترین مقاصد کا نگہبان بنا لیا۔

حرف حقائق کا تاج سر پر سجائے ہوئے سچائی کے نور میں لپٹا ہوا، وقار اور اعتبار کے لبادے میں ہو تو یہی اس کی شان ہے۔ حرف کا اعتبار ہی قلم کو طاقت بخشتاہے۔ ایسی طاقت جس سے قلم مقتدر افراد اور اداروں کا احتساب بھی کر تا ہے اورا ن کی رہنمائی بھی۔

مگر ہم حرف کی حرمت کی پاسبانی نہ کرسکے، حرف کو ہوس کا غلام بنالیااور قلم کے تقدّس کو ہوسِ لقمہ ء تر پر قربان کردیا۔

حرف کی حرمت کے دشمن جگہ جگہ گھات لگائے بیٹھے ہیں ۔کہیں تعصّبات، کہیں تعلقات اور زیادہ تر مفادات ۔ حرف اور بول کے تقدس کو کہیں تعصبّات نے برباد کیا ،کہیں تعلقّات نے داغدار کیا اور اکثر مفادات نے پامال کیا۔

ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں قلم کے خریدار بہت ہیں، وہاں قلم کے محافظ اور حرف کی حُرمت کے پاسبان بھی موجود رہے جوسینہ تان کر کھڑے رہے اور حرف کی حُرمت قائم رکھنے کے لیے گولیاں اور کوڑے کھاتے رہے اور مالی نقصانات برداشت کرتے رہے۔

لاہور کا بزرگ صحافی کئی دہائیوں تک جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق بلند کرنے کا فریضہ ادا کرتا رہا اور صحافت کی آبرو کہلایا، روشنیوں کے شہر کراچی میں بسنے والا صحافی اپنی جان کے درپے قاتلوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا اور حق اور سچ کی تکبیر بلند کرتا رہا جب تک زندہ رہا قلم کے تقدّس پر آنچ نہ آنے دی۔ حرف کی حُرمت کی خاطر جان دے دی اور شہید ِ صحافت کہلایا۔

ایک جابر ڈکٹیٹر نے احمد فراز کا قلم خریدنے کے لیے ہرکارے بھیجے تو گل وبلبل اور لب ورخسار کی شاعری کرنے والے شاعر نے یہ کہہ کر انھیں حیران کردیا کہ یہ قلم برائے فروخت نہیں، یہ تو میرے عوام کی امانت ہے۔ ؎

مرا قلم تو امانت مرے عوام کی ہے
مرا قلم توعدالت مرے ضمیر کی ہے

فیض! متاعِ لوح و قلم کے تحفّظ کے لیے انگلیاں خونِ دل میں ڈبوتا رہا اور حلقہء زنجیر میں زبان رکھ دینے پر پُر عزم رہا۔

اور شاعرِ اعظم ا قبالؒ کی ساری شاعری کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے سچ کی غماّز رہی ۔ ا قبالؒنے کہ دانائے راز بھی تھے ، ساتھ راز کی بات بتا دی کہ سخنوری کے لیے سینے کا منوّر ہوناشر ط ِاوّل ہے۔سینہ روشن نہ ہو توحرف موت کا پیغامبر ہے۔ ؎

سینہ روشن ہو تو ہے سوز و سخن عین حیات
ہو نہ روشن تو سخن مر گ ِ دوام اے ساقی ٔ

بلاشبہ ہمارے سینے تاریک ہو گئے اور ہم نے قلم کو قصیدے کی راہ پر لگا دیا۔ قلمبردار تو ضمیر کے علمبردار ہوتے تھے مگرصد حیف کہ اکثریت نے اپنے لیے یہی پسند کیا کہ بد کردار سیاسی لیڈروں، آئین شکن جرنیلوں اور کرپٹ افسروں کے قصیدے لکھیں یا قلم میں روشنائی کے بجائے کیچڑ بھر کر چند بچے کھچے روشن ضمیر اشخاص کے دامن پر پھینکیں ۔

تحریروں اور تقریروں میں سقراط اور منصور کی سچائی کا ذکر ہو اورعملی زندگی میں ایک حرف اور ایک بول کی قیمت وصول کی جائے تو سمجھ لیں کہ معاشرہ زوال کی پستیوں میں گر رہا ہے۔ اس لیے کہ آج کا قلمکار مجید نظامی ، صلاح الدین شہید، آغا شورش ؔکاشمیری ، چراغ حسن حسرت ؔ، ظفر علی خان، فراز ؔ اور فیض ؒ کے سادہ طرز ِزندگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ بڑی گاڑیاں ،وسیع بنگلے اور فارم ہاؤسز اس کی منزل ہیں۔

اس بات سے سب کے کان کھڑے ہونے چاہئیں کہ حرف طاقت کھو رہا ہے اور سچائی پسپا ہور ہی ہے۔ ''آوازِ دوست''کے صاحب ِدانش مصنّف نے بہت پہلے کہا اور ٹھیک کہا کہ ''پہلے جھوٹ کے لیے خلوت کا استعمال ہوتا تھا، اب راست گوئی کو صرف تنہائی راست آتی ہے۔ غلط گوئی علی لاعلان اور برسرِعام کی جاتی ہے''۔

سچائی حرف کا حسُن ہے۔ حرف حقائق کے نور میں لپٹا ہو گا تو با وقار اور با اعتبار ہوگا ۔اس میں طاقت ہوگی دبدبہ ہوگا ، وہ محتسب بھی ہو گا اور رہنما بھی اور اگر وہی حرف جھوٹ اور ملاوٹ کے لبادے میں لپٹا ہوگا یا مفادات کی زنجیروں میں جکڑا ہوگا تو بے وقار اور رسوا ہوگا ۔

صادق جذبہ اور خلوص تحریر کو منور کر دیتا ہے اور حرفوں کی فصل کو نکھاربخشتاہے جب کہ عناد اور مفاد اس لہلہاتی فصل کو اجاڑ دیتا ہے اور تحریر کو بے روح اور بد صورت بنا دیتا ہے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ ہم نے حرف کا سَتر قائم نہیں رہنے دیا، اس کی حرمت پامال کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ایسا قلم جو مردہ لفظ تخلیق کرے یا جس سے نکلے ہوئے لفظوں کا محرّک دام اور دنیاداری ہو اُسے بزرگوں کے بقول صرف ازاربند ڈالنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔

قلم اٹھانا ہے تو اس کے آداب سیکھنا ہوں گے، حرف لکھنا ہے تو اس کے تقا ضے نبھانا ہوں گے، اگر ہم افراد اور اداروں کا موّثر احتساب چاہتے ہیں ، اگر ہم سیاسی قیادت کابلند معیار دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر ہم دل سے چاہتے ہیں کہ ملکی وسائل لوٹنے والا ہر لٹیرا کٹہرے میں کھڑا ہواور قانون کی حکمرانی قائم ہو تو اہلِ قلم کو قلم کے تقدّس کی قسم اٹھانا ہوگی، وہ مزار ِ قائد ؒ پر جا کر عہد کریں کہ وہ حرف کی حرُمت پر حرف نہیں آنے دیں گے!

جس روز اخبارمیں لکھا جانے والا اور اسکرین پر بولا جانے والا لفظ بااعتبار قرار پایا، وہ قوم کے لیے مبارک ترین دن ہو گا کہ پھر حرف خود قوم کی سمت متعین کرے گا اور قلم خود وطنِ عزیز کا تحفّظ کرے گا۔

کتاب میلہ
پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ میرے لیے حیران کن حد تک ایک خوشگوار نظارہ تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر ناسازگار، ناموافق بلکہ مخاضمانہ ماحول میں سیکڑوں اسٹالوں پر لاکھوں کتابیں رکھی ہوںگی اور ہزاروں طلبا وطالبات پروانہ وار اسٹالوں پر اس طرح اُمڈ پڑیں گے کہ کھوے سے کھوا چھل رہاہوگا ۔

کتاب میلے میں گھومتے ہوئے اُتنا ہی لطف آیا جتنا بچپن میں دیہاتی میلہ دیکھنے کاآتا تھا۔ طلبا وطالبات مجھ سے کتابوں پر دستخط بھی کرواتے رہے اورساتھ فوٹو بھی بنواتے رہے۔ رئیس الجامعہ ڈاکٹر مجاہد کامران(جو پُر مسّرت بھی تھے اور پُر عزم بھی) اور ان کی ٹیم بلاشبہ اس کارنامے پر مبارکباد کی مستحق ہے۔

معروف شاعر اور ماوراء پبلشرز کے مہتمم خالد شریف صاحب نے یہ بتا کر دل خوش کردیا کہ کسی طالب علم کے پاس کتاب خریدنے کے لیے دام کم بھی ہوں تو بھی ہم اسے کتاب ضروردے دیتے ہیں ۔ جامعہ پنجاب کے اس کتاب میلے نے کتاب کے مستقبل سے مایوس ہر شخص کو امید اور حوصلہ دیا ہے۔ شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھنے والے سابق جسٹس نذیر غازی صاحب کی دلآویز کمپنی بڑی پُر لطف رہی۔

دو ڈاکٹروں یعنی ڈاکٹر مجاہد کامران اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے متحّرک منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے ہوتے ہوئے کتاب کا زوال ممکن نہیں ۔ ڈاکٹر انعام الحق نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو ایسا متحرکّ ادارہ بنادیا ہے جو علم کے فروغ اور کتب بینی کا کلچر پروان چڑھانے کے لیے ہروقت سرگرمِ عمل رہتا ہے۔

وہ بھی آج سے اسلام آباد میں ایک بھرپور بک فیئر کا اہتمام کررہے ہیں۔ ان کی کوششیں کامیاب کرے۔ اﷲکرے اس ملک میں زیادہ سے زیادہ کتابیں لکھی اور پڑھی جائیں او ران میں لکھے جانے والے حرف سچّے ، کھرے اور دوٹوک ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں