انسانی حقوق کی بدترین صورتحال
اسی طرح ملک بھر میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں سے 114 کے مقدمات تھانوں ...
2014 انسانی حقوق کے تناظر میں بدترین سال ثابت ہوا۔کوٹ رادھا کشن میں ایک عیسائی جوڑے کو زندہ جلا دیا گیا ۔ ملتان میں انسانی حقوق کے کارکن راشد رحمن ایڈووکیٹ کا قتل اور قاتلوں کا آزاد پھرنا سال کے بدترین واقعات تھے۔
انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والی غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) of Pakistan Human Rishts Commission کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور مزدوروں کے تحفظ، بے روزگاری، عدالتی نظام، قیدیوں کے حقوق، لاپتہ افراد کے مسائل، پولیس مقابلوں،عقیدے کی آزادی، پناہ گزینوں کے حالات، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کے اعتبار سے گزشتہ سال، گزرے 65 برسوں کی طرح تھا۔
سینئر صحافی اور HRCP کے سیکریٹری جنرل آئی اے رحمن نے انسانی حقوق کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کی ایک مثبت بات یہ تھی کہ صوبوں نے آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے استفادہ کرتے ہوئے اہم موضوعات پر قانون سازی کی۔ انسانی حقوق کی ایک اور سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
انھوں نے اس موقعے پر ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ جب حکومت اور ریاست کے ادارے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے تو پھر دیگر تنظیمیں اور ادارے اس خلاء کو پرکریں گی۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال خراب رہی۔ سندھ پولیس نے گزشتہ سال عورتوں کے اغواء کے 1261 مقدمات درج کیے۔ یہ مقدمات زبردستی شادی سے متعلق تھے۔
اسی طرح ملک بھر میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں سے 114 کے مقدمات تھانوں میں درج ہوئے۔ اسی طرح دہشت گردی کے 1206 واقعات میں 1723 افراد جاں بحق اور 3 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح خودکش حملوں کی 26 وارداتیں ہوئیں۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ گئے۔ ان واقعات میں 210 افراد جاں بحق ہوئے۔ گزشتہ سال 12 ڈاکٹر، 13وکلاء اور 14 صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں صحافیوں کو دھمکیوں کا سلسلہ جار ی رہا۔ گزشتہ سال بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شریک پیرامیڈیکل عملہ گولیوں کا نشانہ بنا۔ یوں 42 پولیو ویکسی لیٹر شہید کردیے گئے۔ HRCP کے کارکنوں نے حراست کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کے اعداد وشمار جمع کیے۔ ان افراد کی تعداد 63 ہے۔ اس ضمن میں خطرناک بات یہ ہے کہ حراست میں ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کی پولیس، مقابلوں میں ملز موں کو ہلاک کرنے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔
صوبہ سندھ میں 3392 پولیس مقابلے ریکارڈ پر آئے جب کہ 2013ء میں یہ تعداد 2616 تھی۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز کے 62 اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی میں شہید ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اقلیتیں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سندھ میں بشمول کراچی ہندوؤں اور عیسائیوں کے 11 چرچ اور مندروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ بلوچستان میں ذکریوں کی دو عبادت گاہوں کو جلا دیا گیا۔ گزشتہ سال 11 احمدیوں کو قتل کیا گیا۔
آئی اے رحمٰن صاحب کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف خیبر پختون خوا میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے دو قانون منظور کیے گئے۔ فاٹا میں آپریشن ضربِ عضب سے متاثرہ افراد پناہ لینے کے لیے خیبرپختون خوا آئے۔ ان میں سے 57 خاندانوں کا تعلق اقلیتی فرقے سے تھا۔
بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ان اقلیتی خاندانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں خواتین پر مجرمانہ حملوں کے 597 واقعات ہوئے جب کہ 36 خواتین کو لوگوں کے سامنے کوڑے مارے گئے اور تذلیل کی گئی، یوں 923 عورتیں اور 82 بچیاں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔
اس رپورٹ میں Global Gender Gap Report 2014 کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا نام صنفی برابری کے انڈکس میں آخری نمبر سے ایک نمبر پہلے پر آویزاں ہے۔ اس رپورٹ میں پنجاب میں 47 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملازمتوں کو مستقل کرنے کے فیصلے کو مثبت قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت قومی صنعتی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے مگر لاکھوں مزدور اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی یہ سالانہ رپورٹ ریاستی اداروں کا نااہلی، بدعنوانی، عام آدمی کو ترجیح نہ دینے اور معاشرے میں عدم برداشت کی نشاندگی کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہے۔ امن و امان کا معاملہ ،انتہاپسندی، پولیس اور عدالتی نظام کی بے حسی اور حکومتی ترجیحات میں عام آدمی کی اہمیت نہ ہونے کو شامل کرنا ہے۔ انتہاپسندی کا معاملہ ریاست کی بنیادی پالیسی سے منسلک ہے۔
پہلے مذہبی انتہاپسند تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جنوری 2014سے دسمبر 2014تک نہ صرف اقلیتوں اور انتہاپسندانہ نظریات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بہادر افراد کو نشانہ بنایا گیا بلکہ خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ نے مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال کو متاثر کیا۔ پھر اسلحے کی سپلائی نہ روکنے، پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کے متحرک نہ ہونے اور وکلاء اور ججوں کے عدم تحفظ کی بناء پر صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔
اسی طرح اقلیتی فرقوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری رہا۔ HRCP کی اس رپورٹ میں پولیس مقابلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سرکاری ایجنسیوں کی حراست میں قتل ہونے والے افراد کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حراست میں قتل ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پولیس مقابلوں کی ریت بہت پرانی ہے۔
پولیس حکام اور بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خطرناک ملزمان انتہائی بااثر ہوتے ہیں۔ انھیں نہ جیلوں میں بند رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ معاشرے کو ان ملزمان سے نجات دلانے کے لیے ان کا ماورائے عدالت قتل ہی مسئلے کا حل ہے۔ بھارتی فلموں میں یہ طریقہ کار خاصا مشہور ہے ، اگر قتل کے فیصلے کا اختیار چند پولیس والوں کو دے دیا جائے تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ صرف مجرموں کو ہی سزائیں دی جارہی ہیں اور کوئی مظلوم ماورائے عدالت قتل کا شکار نہیں ہوا؟ پاکستان کی پولیس کے نظام کی بنیاد بدعنوانی اور سفارش پر ہے۔
عمومی طور پر وہ افراد ہی سزا پاتے ہیں جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا بروقت سفارش کا بندوبست نہیں کرپاتے۔ کراچی میں امن و امان کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شکیل سلاوٹ کہتے ہیں کہ پولیس اور دیگر ایجنسیوں میں ملزمان کی خرید و فروخت کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ ماورائے عدالت قتل انصاف کو قتل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سرکاری ایجنسیوں کی تحویل میں ہلاکتوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی اموات ریاست کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
یہ رپورٹ گزشتہ برس دسمبر میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد نیشنل ایکشن پلان سے پہلے کی ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ اس سال انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوگی۔ مگر عاصمہ جہانگیر کی یہ بات ہی سب سے زیادہ اہم ہے کہ جب ریاستی ادارے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے تو دیگر ادارے ان کی جگہ لے لیں گے اور نئے تضادات ابھریں گے۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے ریاستی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس رپورٹ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔
انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والی غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) of Pakistan Human Rishts Commission کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں اور مزدوروں کے تحفظ، بے روزگاری، عدالتی نظام، قیدیوں کے حقوق، لاپتہ افراد کے مسائل، پولیس مقابلوں،عقیدے کی آزادی، پناہ گزینوں کے حالات، صحت اور تعلیم کی سہولتوں کے اعتبار سے گزشتہ سال، گزرے 65 برسوں کی طرح تھا۔
سینئر صحافی اور HRCP کے سیکریٹری جنرل آئی اے رحمن نے انسانی حقوق کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کی ایک مثبت بات یہ تھی کہ صوبوں نے آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے استفادہ کرتے ہوئے اہم موضوعات پر قانون سازی کی۔ انسانی حقوق کی ایک اور سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
انھوں نے اس موقعے پر ایک اہم نکتہ اٹھایا کہ جب حکومت اور ریاست کے ادارے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے تو پھر دیگر تنظیمیں اور ادارے اس خلاء کو پرکریں گی۔ انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد میں کمی ہوئی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال خراب رہی۔ سندھ پولیس نے گزشتہ سال عورتوں کے اغواء کے 1261 مقدمات درج کیے۔ یہ مقدمات زبردستی شادی سے متعلق تھے۔
اسی طرح ملک بھر میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں سے 114 کے مقدمات تھانوں میں درج ہوئے۔ اسی طرح دہشت گردی کے 1206 واقعات میں 1723 افراد جاں بحق اور 3 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ اسی طرح خودکش حملوں کی 26 وارداتیں ہوئیں۔ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ گئے۔ ان واقعات میں 210 افراد جاں بحق ہوئے۔ گزشتہ سال 12 ڈاکٹر، 13وکلاء اور 14 صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں صحافیوں کو دھمکیوں کا سلسلہ جار ی رہا۔ گزشتہ سال بھی پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شریک پیرامیڈیکل عملہ گولیوں کا نشانہ بنا۔ یوں 42 پولیو ویکسی لیٹر شہید کردیے گئے۔ HRCP کے کارکنوں نے حراست کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کے اعداد وشمار جمع کیے۔ ان افراد کی تعداد 63 ہے۔ اس ضمن میں خطرناک بات یہ ہے کہ حراست میں ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کی پولیس، مقابلوں میں ملز موں کو ہلاک کرنے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔
صوبہ سندھ میں 3392 پولیس مقابلے ریکارڈ پر آئے جب کہ 2013ء میں یہ تعداد 2616 تھی۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز کے 62 اہلکار اپنے فرائض کی انجام دہی میں شہید ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اقلیتیں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ سندھ میں بشمول کراچی ہندوؤں اور عیسائیوں کے 11 چرچ اور مندروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ بلوچستان میں ذکریوں کی دو عبادت گاہوں کو جلا دیا گیا۔ گزشتہ سال 11 احمدیوں کو قتل کیا گیا۔
آئی اے رحمٰن صاحب کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف خیبر پختون خوا میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے دو قانون منظور کیے گئے۔ فاٹا میں آپریشن ضربِ عضب سے متاثرہ افراد پناہ لینے کے لیے خیبرپختون خوا آئے۔ ان میں سے 57 خاندانوں کا تعلق اقلیتی فرقے سے تھا۔
بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے پناہ گزینوں کے کیمپوں میں ان اقلیتی خاندانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں خواتین پر مجرمانہ حملوں کے 597 واقعات ہوئے جب کہ 36 خواتین کو لوگوں کے سامنے کوڑے مارے گئے اور تذلیل کی گئی، یوں 923 عورتیں اور 82 بچیاں غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔
اس رپورٹ میں Global Gender Gap Report 2014 کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا نام صنفی برابری کے انڈکس میں آخری نمبر سے ایک نمبر پہلے پر آویزاں ہے۔ اس رپورٹ میں پنجاب میں 47 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملازمتوں کو مستقل کرنے کے فیصلے کو مثبت قرار دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومت قومی صنعتی اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے مگر لاکھوں مزدور اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی یہ سالانہ رپورٹ ریاستی اداروں کا نااہلی، بدعنوانی، عام آدمی کو ترجیح نہ دینے اور معاشرے میں عدم برداشت کی نشاندگی کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب تر ہے۔ امن و امان کا معاملہ ،انتہاپسندی، پولیس اور عدالتی نظام کی بے حسی اور حکومتی ترجیحات میں عام آدمی کی اہمیت نہ ہونے کو شامل کرنا ہے۔ انتہاپسندی کا معاملہ ریاست کی بنیادی پالیسی سے منسلک ہے۔
پہلے مذہبی انتہاپسند تنظیموں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جنوری 2014سے دسمبر 2014تک نہ صرف اقلیتوں اور انتہاپسندانہ نظریات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بہادر افراد کو نشانہ بنایا گیا بلکہ خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ نے مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال کو متاثر کیا۔ پھر اسلحے کی سپلائی نہ روکنے، پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کے متحرک نہ ہونے اور وکلاء اور ججوں کے عدم تحفظ کی بناء پر صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔
اسی طرح اقلیتی فرقوں کے ساتھ ناروا سلوک جاری رہا۔ HRCP کی اس رپورٹ میں پولیس مقابلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سرکاری ایجنسیوں کی حراست میں قتل ہونے والے افراد کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ حراست میں قتل ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں پولیس مقابلوں کی ریت بہت پرانی ہے۔
پولیس حکام اور بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ خطرناک ملزمان انتہائی بااثر ہوتے ہیں۔ انھیں نہ جیلوں میں بند رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی عدالتوں کے ذریعے سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ معاشرے کو ان ملزمان سے نجات دلانے کے لیے ان کا ماورائے عدالت قتل ہی مسئلے کا حل ہے۔ بھارتی فلموں میں یہ طریقہ کار خاصا مشہور ہے ، اگر قتل کے فیصلے کا اختیار چند پولیس والوں کو دے دیا جائے تو اس بات کی کون ضمانت دے سکتا ہے کہ صرف مجرموں کو ہی سزائیں دی جارہی ہیں اور کوئی مظلوم ماورائے عدالت قتل کا شکار نہیں ہوا؟ پاکستان کی پولیس کے نظام کی بنیاد بدعنوانی اور سفارش پر ہے۔
عمومی طور پر وہ افراد ہی سزا پاتے ہیں جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا بروقت سفارش کا بندوبست نہیں کرپاتے۔ کراچی میں امن و امان کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شکیل سلاوٹ کہتے ہیں کہ پولیس اور دیگر ایجنسیوں میں ملزمان کی خرید و فروخت کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ ماورائے عدالت قتل انصاف کو قتل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
سرکاری ایجنسیوں کی تحویل میں ہلاکتوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کی اموات ریاست کے ماتھے پر کلنک کے ٹیکے کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
یہ رپورٹ گزشتہ برس دسمبر میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد نیشنل ایکشن پلان سے پہلے کی ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ اس سال انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوگی۔ مگر عاصمہ جہانگیر کی یہ بات ہی سب سے زیادہ اہم ہے کہ جب ریاستی ادارے اپنے فرائض انجام نہیں دیں گے تو دیگر ادارے ان کی جگہ لے لیں گے اور نئے تضادات ابھریں گے۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے ریاستی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ضروری ہے۔ اس رپورٹ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔