چین اور پاکستاناب ہماری باری ہے
آج وہ وقت آگیا ہے جب چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت اور تجارت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ۔۔
لاہور:
چین کے صدر شی چن پنگ کے دورے نے پاک چین دوستی کی شاندار تاریخ میں نئے باب رقم کیے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان نصف صدی سے انتہائی گرم جوش سیاسی تعلقات قائم تھے جنھیں نئی جہتیں ملی ہیں اور نئے اسٹرٹیجک تعلقات کی بنیاد اب معیشت اور تجارت پر استوارکی جارہی ہے۔
جدید چین کے بانی ڈنگ ژیاؤ پنگ نے 1978 میں اس رمزکو پالیا تھا کہ چین کو اس وقت کے سوویت یونین کی طرح امریکا اور مغرب سے محض سیاسی اور نظریاتی جنگ نہیں لڑنی چاہیے بلکہ عالمی معیشت میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھر کر اپنی حیثیت تسلیم کرانی چاہیے۔
انھیں اپنے ملک کے عوام اور قدرتی وسائل کی طاقت کا مکمل ادراک تھا، لہٰذا انھوں نے چین کی معیشت کے دروازے دنیا کے لیے کھول دیے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ خطرناک جُوا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ امریکا اور یورپ کے سرمائے اور ٹیکنالوجی کا مقابلہ کرنا چین کے بس کی بات نہیں ہوگی اور بہت جلد چین پرجدید نوآبادیاتی نظام کا غلبہ ہوجائے گا۔ وقت نے ان خدشات کو غلط ثابت کیا اور نتائج برعکس سامنے آئے۔
معاشی اصلاحات کے نتیجے میں چین نے ایسی برق رفتار ترقی کی جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ایک دہائی تو ایسی بھی گزری جب چین کی معاشی نموکی سطح 14% سے تجاوز کرچکی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چین نے یورپی ملکوں کو پیچھے چھوڑنا شروع کردیا۔
آج وہ وقت آگیا ہے جب چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معاشی طاقت اور تجارت کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جاپان اور جرمنی جیسے ملک ترقی کی شاہراہ پر اس سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور مستقبل میں عین ممکن ہے کہ چین کی جی ڈی پی امریکا کے برابر پہنچ جائے۔
پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں معاشی مفادات کو اولین ترجیح دینے کے ضمن میں چین کی موجودہ قیادت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف بھی اس حقیقت کو کافی پہلے سے جان چکے تھے کہ آج کی دنیا میں عزت صرف اسی ملک کی ہوتی ہے جو معاشی اعتبار سے اہم ہوتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ معاشی طور پر غریب، پس ماندہ اور بحرانوں میں گرفتار ملکوں کی جغرافیائی اور سیاسی خود مختاری کا کوئی احترام نہیں کرتا۔ حالیہ برسوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ معلوم یہی ہوگا کہ جو ملک معاشی بحران میں گرفتار ہوئے وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور مختلف ملکوں کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے ان ملکوں کو اپنا میدان جنگ بنالیا۔
مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے کئی ملکوں کی مثالیں سامنے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین مثال یمن کی ہے جسے غربت نے یہ دن دکھائے کہ ایک نہیں کئی عسکری گروہوں نے اس بدنصیب ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ جما لیا ہے۔
پاکستان میں جب دہشت گردی کو عروج ہوا اور مختلف ملکوں کی نیابتی لڑائی میں جس طرح ہزاروں بے گناہ پاکستانی قتل ہوئے تو اس کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ پاکستان بھی عنقریب عراق اور شام بننے والا ہے۔ بعض حوالوں سے یہ خدشات اتنے غلط بھی نہیں تھے ۔دہشت گردی کے غیر معمولی پھیلاؤ نے معیشت پر کاری ضرب لگائی تھی اور پاکستان خطرناک بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا ۔
روپے کی قدر میں بدترین گراوٹ آئی اور 2013 میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ایک ڈالر 114 روپے کا ہوگیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر گر کر صرف 7 ارب ڈالر رہ گئے۔ قرضوں کی واپسی کے لیے زرمبادلہ دستیاب نہیں تھا اور ملک عالمی سطح پر نادہندہ ہونے والا تھا۔ افراط زر، مہنگائی عروج پر تھی اور کساد بازاری کا دور دورہ تھا اور مزید وقت ضایع کیے بغیر فوری اور ہنگامی اقدامات کی ضرورت تھی۔
ایسے نازک وقت پر ، یہ جمہوریت کے تسلسل کا نتیجہ تھا کہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد اقتدار اس جماعت کو منتقل ہوا جسے حکومت سازی کے لیے پی پی پی کی طرح اتحادیوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ نئی حکومت نے اقتدار میں آنے کے فوراًبعد ملک کو معاشی بحران سے نکالنے پر بھرپور توجہ مرکوز کی۔ ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کو ایک محفوظ ملک بنائے بغیر بحالی کا عمل شروع نہیں کیا جاسکتا تھا۔ دہشت گردی اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ تھی جسے ختم کرنے لیے مکمل عزم کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ کی ضرورت تھی۔
جمہوری حکومت اور نئی عسکری قیادت نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کر کے اپنا آئینی اور قومی فریضہ پورا کیا۔ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اس نکتے پر اتفاق رائے پیدا ہوا کہ پاکستان کو اصل خطرہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی طور پر درپیش ہے جس کا مقابلہ متحد ہوئے بغیرکرنا ممکن نہیں۔ اس اتفاق رائے کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی تعلقات، معاشی اسٹرٹیجک تعلقات میں تبدیل ہونا شروع ہوئے۔
یہ ایک خوش گوار اتفاق تھا کہ شی چن پنگ 14 مارچ 2013 میں چین کے صدر بنے اور نواز شریف نے 5 جون 2013میں وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ یہی وہ وقت تھا جب چین کی صنعتی ترقی کا دائرہ مغربی چین تک وسیع ہو رہا تھا۔ چونکہ چین کی معیشت برآمدات پر زیادہ انحصار کرتی ہے، لہٰذا یہ ضروری تھا کہ مغربی چین سے کی جانے والی برآمدات کے لیے کوئی مختصر ترین راہداری اور بندرگاہ تلاش کی جائے تاکہ عالمی منڈی میں مصنوعات کی برآمدی لاگت مسابقتی رہے۔
اس حوالے سے چین کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بہت اہم ہوگئی، پاک چین معاشی راہداری کا عظیم اور غیر معمولی منصوبہ جس کا ایک مظہر ہے۔دوسری جانب 2013میں پاکستان بھی معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے سرگرداں تھا۔ گوادر کی بندرگاہ تک چین کو راہ داری کی ضرورت پاکستان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھی۔ وزیراعظم نوازشریف کو داد دینی چاہیے کہ انھوں نے اس سنہری ''موقع''کو حاصل کرنے میں کوئی وقت ضایع نہیں کیا۔
حلف اٹھانے کے فوراً بعد انھوں نے عام روایت سے ہٹ کر سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرنے کے بجائے چین جانے کو ترجیح دی، جہاں پہنچ کر انھوں نے چینی قیادت سے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ چین کا دورہ کیا اور بہت کم وقت میں توانائی، پاک چین معاشی راہداری اور انفرااسٹرکچر کے بہت سے منصوبوں کی نشان دہی کی اور مالی اور تکنیکی تیاری کے کام کو مکمل کیا جس کے عملی اور سود مند نتائج، چین کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدوں کی شکل میں آج ہمارے سامنے ہیں۔
پاکستان عرصہ دراز سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بے چین رہا تھا۔ ہم نے ایسے حالات خود پیدا کردیے تھے جن کے بعد غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے ملک میں سرمایہ لگانے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ پاکستانی سرمایہ کار تک اپنا کاروبار اور صنعتیں پاکستان سے باہر منتقل کر رہے تھے۔
اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے چین نے اس حوالے سے ماضی کے ''خسارے'' کو پورا کردیا ہے۔ ہم اپنے پیروں پر اگر کلہاڑی خود نہ ماریں (جس کی ہمیں عادت ہے) تو پاکستان کے اندرآیندہ برسوں میں 60 سے 70 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا امکان یقینی ہے۔
چین کے صدرکے دورے کے بعد چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ توانائی، صنعتوں، پاک چین معاشی راہداری اور دیگر شعبوں میں اتنی بھاری سرمایہ کاری سے پاکستان میں ملازمت کے لاکھوں ذرایع پیدا ہوں گے، شرح نمو تیزی سے بڑھے گی اور پاکستان بھیانک معاشی بحران سے نکل کر ایک مستحکم معاشی ملک کی طرف سفر کرے گا۔
چین کے صدرکے تاریخی دورے کے بعد پاکستان کے لیے ترقی کے جو نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی خاطر ہمیں اپنے اندر چند تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ سب سے پہلے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو فیصلہ کن شکست دینی ہوگی۔ بعض سیاستدانوں اور مہم جوئی پر آمادہ ان کے حامیوں کو ملک کی معاشی سلامتی کی قیمت پر جلد سے جلد اقتدار میں آنے کی خواہش پر قابو پانا ہوگا تاکہ جمہوری تسلسل کا عمل جاری رہے کیوں کہ پائیدار سیاسی استحکام، ترقی کے ان نئے امکانات کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی لازمی پیشگی شرط ہے۔ہماری بیورو کریسی کو اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔
انھیں افسرکے بجائے سہولت کار کا کردار اپنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مزید تاخیر نہ کرے اور سول انتظامیہ اور بیوروکریسی کے پرانے نظام کو تبدیل کرنے کے لیے انقلابی اصلاحات عمل میں لائے۔ سرخ فیتے کی لعنت ختم کرکے فوری فیصلے کرے اور شفافیت کے ذریعے بدعنوانی کا خاتمہ کرے۔
چین نے دوطرفہ باہمی مفاد کے تحت اپنے حصے کا کام کردیا ہے۔ اب ہماری باری ہے۔ دیکھنا ہے کہ اپنے مفاد میں ہم اس امتحان میں پورا اترتے ہیں یا پھر کسی داخلی یا بیرونی مہم جوئی میں ملوث ہوکر اور اصلاحاتی اقدامات میں تاخیر کرکے ان قیمتی اور نادر مواقعے کو ضایع کردیتے ہیں،قومیں جن کی آرزو کرتی ہیں۔