چین سے چند ملاقاتیں

عوام کی خدمت کے لیے اور بھی بہت کچھ ہوگا جو میں دیکھ نہیں سکا۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

لاہور:
اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر ہمارا عزیز ترین دوست دو دن تک ہمارا مہمان رہا۔ وہ پہلے تشریف لانا چاہتے تھے لیکن ہمارے شوقین سیاستدانوں نے قوم کو دھرنوں میں اس قدر مصروف کر دیا کہ ہمارا دارالحکومت ان کے ہنگاموں کا مرکز بن گیا۔

ایسے ماحول میں کسی مہمان کو ہم زحمت نہیں دے سکتے تھے اور پھر چین جیسے مہمان کو جس کے ساتھ ہماری بے مثل دوستی کا اب تک کوئی موزوں نام نہیں دیا جا سکا اور ابھی موزوں الفاظ کی تلاش ہے لیکن لغت نے اب تک دوستی کے جتنے الفاظ وضع کیے ہیں وہ ہماری اس دوستی کے تعارف کے حقیقی معیار پر پورے نہیں اترتے اس لیے ہم ہمالہ کی بلندی اور سمندروں کی گہرائی تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں مگر یہ دوستی دو قوموں کے دلوں کی دوستی ہے اور کبھی کوئی صاحب دل ہی اس کا تعارف کرائے گا۔

میں دو تین مرتبہ عوامی جمہوریہ چین گیا ہوں اور مجھے یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ کوئی ملک اور قوم کیا اور کیسا انداز زندگی اختیار کر کے بڑی قوم بن سکتی ہے۔ چین کا انقلاب ہمارے ملک کے قیام کے سال بھر بعد کامیاب ہوا اور جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھا اس کا آپ اپنی اور چین کی حالت دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں،ایک یہ کہ چین میں جو پروگرام طے کیا گیا اسے حرز جاں بنا دیا گیا، دوسرے اس پر عملدرآمد میں کوئی قربانی بچا کر نہیں رکھی گئی۔

کرپشن تو بہت ہی دور کی بات ہے اس انقلاب کے لیڈروں نے اپنی زندگی بالکل وہی غریبانہ رکھی جو انقلاب سے پہلے تھی یعنی ایک عام چینی کی زندگی بلکہ اس سے بھی کم۔ ماؤزے تنگ ان کے انقلاب کا باپ تھا۔ ایک ایسا باپ جو خود بھوکا رہ کر بچوں کو کھلایا کرتا تھا۔ چین کے ذکر میں ہمارے لیڈروں کا ذکر کرنا ایک گناہ عظیم اور بڑی گستاخی ہے۔ چینی خدا کو نہیں مانتے لیکن وہ خدا کے بندوں کو اپنی ذات سے زیادہ مانتے ہیں۔ پہلی بار میں چین گیا تو سڑکیں سائیکل سواروں سے بھری ہوئی تھیں اس کے چند برس بعد گیا تو سائیکل سواروں کے لیے بڑی سڑک کے ایک طرف چھوٹی سڑک بنی ہوئی تھی اس ٹریک پر سائیکل سوار چل رہے تھے اور بڑی سڑک پر موٹر کاریں چل رہی تھیں۔ تعجب ہوا کہ سائیکل اتنی تیز بھی چل سکتی ہے کہ چند برس بعد موٹر کاروں میں ڈھل جائے۔

دنیا کا عجوبہ دیوار چین دیکھنے جا رہے تھے تو راستے میں دونوں طرف درخت تھے۔ یہ سب ایک جیسی اونچائی اور ایک جیسے پھیلاؤ اور گھیرے والے درخت جیسے کسی سانچے سے نکال کر سڑک پر لگا دیے گئے ہیں۔ بازار میں گئے تو دکانیں گاہکوں سے بھری ہوئی۔ وہی تل نہ دھرنے والی بات۔ کھوج لگانے پر معلوم ہوا کہ چونکہ کوئی چینی ذاتی ملکیت نہیں بنا سکتا اس لیے تمام تر تنخواہ اشیائے ضرورت اور شوق کی خرید و فروخت کی نذر ہو جاتی ہے۔


بجلی مفت ہے گیس مفت ہے علاج معالجہ مفت ہے بس پسند کے کپڑے اور کھانا پینا رہ جاتا ہے جس کے لیے تنخواہ بہت ہے۔ ویسے کھانا بھی سرکاری مل سکتا ہے۔ چینی خوشحال ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ خوشحالی اور خوش خوراکی سے ان کے چہرے کی زردی اب سرخی میں بدل رہی ہے۔ ڈسپلن فوج یا پولیس میں ہی نہیں پوری زندگی میں ہے اور یہی ڈسپلن قومی ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔ میں گھومتے پھرتے ایک مختصر سے سبزہ زار کے سامنے سے گزرا تو وہاں تمام بزرگ بیٹھے گپ لڑا رہے تھے۔

معلوم ہوا کہ پورے شہر میں مناسب اور موزوں جگہوں پر ایسے سبزہ زار بنا دیے گئے ہیں تا کہ بزرگ یہاں گھر کے قریب ہی تفریح کر سکیں اور کوئی مخل نہ ہو۔ عوام کی خدمت کے لیے اور بھی بہت کچھ ہو گا جو میں دیکھ نہیں سکا لیکن میں نے جس ڈسپلن کا ذکر کیا ہے وہ عام زندگی میں بھی کارفرما ہے اور کوئی بھی بے لگام نہیں ہے۔

کمیونزم کا نظام ہے جس میں ضرورت کے مطابق ترمیم ہوتی رہتی ہے، اب کچھ ذاتی جائیداد کی بھی اجازت دی جا رہی ہے لیکن میں نے اس کا پوری طرح جائزہ نہیں لیا اس لیے کچھ کہہ نہیں سکتا لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ ہزاروں سال کی پرانی تہذیب و تمدن کی مالک یہ قوم کسی کمیونزم میں بھی اپنی روایات کو فراموش نہیں کرتی، ایک چینی مجھ سے کہنے لگا کہ ہم تو جس کنوئیں سے کبھی زندگی میں ایک بار پانی بھی پی لیں تو اسے فراموش نہیں کرتے پاکستان سے تو ہم نے باہر نکلنے اور بیرونی دنیا کے راستے حاصل کیے ہیں۔

دونوں ملکوں کے باہمی روابط اس قدر بڑھتے جا رہے ہیں کہ چینی پاکستان سے دور نہیں ہو سکتے۔ جدید دور میں اتار چڑھاؤ تو ہوتا ہی رہتا ہے پھر دونوں ملکوں اور قوموں کے عقائد بھی مختلف ہیں جن میں ہلکا پھلکا تصادم بھی ہو سکتا ہے لیکن ہماری دونوں ملکوں کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ بیچ کا راستہ تلاش کرتی رہے۔

چینی اب بہت پھیل چکے ہیں اور پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ دنیا کی ایک ایسی طاقت بن گئے ہیں کہ اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ اس بھری دنیا میں اونچ نیچ اپنی جگہ لیکن سب کو اپنی ہمت سے زندہ رہنا ہے، چینی کہتے ہیں ہمارے پاکستانی دوست ایک جاندار قوم سے تعلق رکھتے ہیں ہم انھیں ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ کیا نئے نئے دوست بنانا کوئی آسان کام ہے۔

میں اس چینی کا تعارف اس لیے نہیں کراتا کہ اس نے کرایا ہی نہیں تھا، میں نے جب بھی اس سے متعارف ہونا چاہا اس نے ٹال دیا بہر کیف اس کی لمبی باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ اگر ہم میں چین سے تعلق رکھنے کی خواہش رہی تو ہم مایوس نہیں ہوں گے اور اب تک ایسا ہوا بھی ہے۔ جنگ ہو یا امن ہم دوست رہے ہیں اور پھر ہمارا دشمن بھی مشترک ہے۔
Load Next Story