پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے لیے
بیوی نے میاں سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں، شوہر نے کہا بس یونہی خواہ مخواہ شور مچا رہے ہیں۔۔۔
بڑی اچھی خبر ہے اور چونکہ اس سے ہمارا تھوڑا بہت ''ذاتی'' تعلق بھی ہے، اس لیے اور بھی اچھی لگی اس لیے پہلے تو ہمیں اس پر تھوڑا سا سر دھننے دیجیے، عش عش کرنے دیجیے اور کچھ مروجہ دعاؤں کو دہرانے دیجیے مثلاً
موذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
اور یہ موذن کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے ممدوح جناب بڑے میاں صاحب میاں نواز شریف ہیں۔ فرمایا ہے کہ پی آئی اے کو منافع بخش بنانا چاہتے ہیں، ملازمین ساتھ دیں۔ جہاں تک منافع بخش ''بنانے'' کا تعلق ہے وہ تو ہمیں یقین ہے کہ اگر محترم وزیراعظم صاحب نے تہیہ کر لیا ہے تو اس ادارے کو منافع بخش بنانے سے اب کوئی نہیں روک سکتا' خود پی آئی اے والے بھی نہیں۔ ہم چونکہ پی آئی اے اور جناب میاں صاحب سے ذاتی مراسم رکھتے ہیں، یکطرفہ ہی سہی لیکن مراسم تو مراسم ہوتے ہیں۔
وہ احمد فراز نے بھی تو کہا ہے کہ ''پہلے سے مراسم'' نہ سہی لیکن پھر کبھی تو ۔۔۔ مطلب یہ کہ ہم تو اپنی طرف سے نبھائیں گے اور ذاتی مراسم کی وجہ سے ان دونوں کی مدد کرنا ہمارا اپنا فرض ہے۔ ہو سکتا ہے کہان سے ہمارے ''مراسم'' پر آپ کو شک ہو' اس لیے تھوڑی سی وضاحت کرنے دیجیے۔
میاں صاحب کے ساتھ ''مراسم'' کی تفصیل تو ہم شاید نہ بتا پائیں کیوں کہ یہ نہایت ہی ذاتی قسم کے مراسم ہیں لیکن پی آئی اے کے ساتھ مراسم کا ذکر کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور جب یہ مراسم قطعی جائز بھی ہوں، لیکن بات کو سمجھنے کے لیے ہم آپ کو ایک تاریخی مکالمہ سنانا چاہیں گے جو تحریک آزادی کے دنوں میں کسی شہر کی کسی سڑک پر پیش آیا تھا۔ سڑک کی صفائی کرنے والے میاں بیوی ایک ہوٹل کے سامنے زمین پر پھسکڑا مار کر بیٹھے چائے سے شغل کر رہے تھے کہ اتنے میں سڑک پر سے ایک جلوس گزرنے لگا۔ جلوس آزادی کی مانگ کر رہا تھا اور انگریزی حکومت کو مردہ باد کر رہا تھا۔
بیوی نے میاں سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں اور کیا کہہ رہے ہیں، شوہر نے کہا بس یونہی خواہ مخواہ شور مچا رہے ہیں، ہندوؤں نے حکومت کی،کسی نے کچھ نہیں کہا، مسلمانوں نے حکومت کی کوئی نہیں بولا لیکن اب ''ہماری حکومت'' آئی ہے تو یہ لوگ جل بھن رہے ہیں، کچھ ایسا ہی تعلق ہمارا بھی پی آئی اے سے ہے چنانچہ جب کبھی اوپر کوئی جہاز ہمارے سر پر سے گزرتا ہے تو ہم نہایت خلوص کے ساتھ خیر نال جا، تے خیر نال آ کی دعا دیتے ہیں ۔
جب کسی کو لینے ائر پورٹ جانا پڑتا ہے تو ہم ایک ایک چیز کو بڑی اپنائیت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اگر کوئی پی آئی اے کی املاک یا کسی بھی پرکار کی ملکیت یا اصولوں کو میلی نظر سے دیکھتا ہے تو ہمارا من اس کی آنکھیں نکال کر گوٹیاں کھیلنے کو کرنے لگتا ہے اور اگر کبھی سفر کرنا پڑے ہمارا مطلب ہے کہ اگر کوئی مہربان ہو جائے جیسا کہ اگلے زمانوں میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کبھی یہ ثواب کمایا کرتے تھے تو ہم ایئر پورٹ میں داخل ہونے سے منزل مقصود پر ایئر پورٹ سے نکلنے تک ایک ایک چیز کا خیال رکھتے ہیں اور دوسروں پر بھی نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی پی آئی اے کی کسی ملکیت کو ٹیڑھی نظر سے دیکھ تو نہیں رہا ہے۔
آپ سے کیا پردہ ایک مرتبہ تو ہم نے ایک مسافر کو بری طرح ایک ''فضائی میزبانہ'' کو تاڑو نظر سے دیکھا تو اٹھے اور اس مسافر کے یہ تھپڑ لاتیں اور گھونسے لگانا شروع کیے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ یہ سب کچھ ہم دل ہی دل میں کر گئے ورنہ ہم اقدام قتل کے جرم میں کسی حوالات کے اندر ہوتے۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک مسافر کو زبانی طور پر اچھا خاصا لتاڑا ضرور تھا، پتہ نہیں اس نے کبھی اپنے گھر کی خواتین پر بھی کوئی حکم چلایا بلکہ شاید گھر کی محرومی کو وہ جہاز میں دور کرنا چاہتا تھا جو ایک ''فضائی میزبانہ'' کو کبھی ایک بات کے لیے اور دوسری بات کے لیے دوڑائے چلا جارہا تھا حالانکہ وہ میزبانہ اس سے عمر میں کافی بڑی تھی۔
ہم نے پہلے تو اسے نرمی سے سمجھایا کہ اپنی ضرورتیں ایک بار بتا دو، یہ کیا کہ وہ اپنی جگہ پہنچی بھی نہیں کہ تم پھر گھنٹی بجا دیتے ہو، وہ الٹا ہمیں بھی اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتا ہوا بولا ، ٹکٹ میں یہ سب شامل ہے اور یہ لوگ ہم سے اس کا دگنا چوگنا معاوضہ پہلے ہی دھر چکے ہیں، اس لیے تم بھی۔۔۔۔
اے جی او جی لو جی سنو جی
میں جو کروں جی تم بھی کرو جی
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ پی آئی اے کو ہم اپنا سمجھتے ہیں اور اس ''اپنے من'' کے پیچھے صرف قومی جذبہ یہ نہیں بلکہ کچھ کچھ ملکیت کا احساس بھی کار فرما ہے کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں پی آئی اے کے کچھ حصص عوام کو فروخت کرنے کا حکم دیا تھا، جس میں ہم نے بھی ایک ہزار نقد سکہ رائج الوقت کے شیئر خرید لیے تھے۔
اس شیر ہولڈنگ پر ہمیں اپنے ایک رشتے دار بینک منیجر نے آمادہ کیا تھا، خود اس نے بھی اتنے ہی شیئر خرید لیے تھے، اس کے بعد چند سال میں تو ہم پھولے نہیں سما رہے تھے گردن میں آدھ انچ اسٹیل کا سریا فٹ ہو گیا تھا کیونکہ سال میں یہ بڑے بڑے لفافے ان میں یہ بڑے بڑے اعداد و شمار اور بروشر وغیرہ آجاتے تھے جس میں ہمیں ''ڈیئر شیئر ہولڈز'' کے ٹائٹل سے مخاطب کیا گیا ہوتا، ایک دو مرتبہ تو کسی میٹنگ کے دعوت نامے بھی موصول ہوئے تھے لیکن جہاز میں جانے کی ہمیں استطاعت نہ تھی اور ریل میں دیرہونے کا اندیشہ ہوتا تھا اس لیے جا نہیں پائے لیکن دعائیں ضرور بھیج دیتے تھے۔
ابتدائی چند سالوں میں کچھ منافع کے ہندسے بھی موصول ہوئے اس مژدہ جاں فزا کے ساتھ کہ اس منافعے سے ہمارے شیئرز میں اضافہ ہو رہا تھا، اس کے بعد مکمل خاموشی چھا گئی، ہمارا وہ رشتے دار بینک مینجر ریٹائرڈ ہونے کے بعد اوپر پرواز کر گیا لیکن ہم ابھی تک خود کو پکا پکا پی آئی اے کا شراکت دار بلکہ مالک سمجھ رہے ہیں چنانچہ اب جو میاں صاحب نے پی آئی اے کو سدھارنے کی بات کی ہے تو ہمارے سوکھے دھانوں میں چھنٹا پڑ گیا ہے، ایک چھوٹی سی تجویز ایک شیئر ہولڈرز کی حیثیت سے پیش کرنا ہم بھی ضروری سمجھتے ہیں۔
جناب وزیراعظم نے اس ادارے کو منافع بخش بنانے کے لیے ''ملازمین'' کو جو کال دی ہے یہ تجویز اس سلسلے میں ہے، ہمارے خیال میں پی آئی اے کو منافع بخش بنانے کے لیے جو واحد راستہ ہے وہ دعاؤں کا ہے جتنے زیادہ لوگ دعاؤں میں شامل ہوں اتنا ہی اچھا ہے، اس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد کم از کم دگنی کر دی جائے اور اس کام میں وزیروں اور منتخب نمایندگان سے مدد لی جا سکتی ہے اور اگر مشیر وغیرہ بھی اس میں ہاتھ بٹائیں تو چند ہی روز میں ملازمین دگنے ہو سکتے ہیں جن کی اجتماعی دعا یقیناً مستجاب ہو گی۔