افغانستان کو مضبوط کریں
افغانستان کی سرزمین ہمیشہ طالع آزماؤں کی مشق ستم کا شکار رہی ہے۔۔
KARACHI:
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے باقاعدہ انخلا کے باوجود امریکی حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ افغانستان میں وہ اپنے فوجی محدود تعداد میں رکھیں گے۔ اس فیصلے پر افغان طالبان نے اپنے سخت تحفظات کا اظہارکیا ہے کیونکہ یہ فیصلہ افغان طالبان اور اٖفغانستان حکومت کے درمیان امن مذاکرات میں حائل ہو رہا ہے۔
افغان طالبان نے افغان حکومت سے وضاحت مانگی ہے کہ واضح ٹائم فریم کیوں نہیں دیا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے افغانستان میں جنگی پالیسی تبدیل ہوتی جا رہی ہے پاکستان بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی شدت پسندی کی ذمے داری امریکی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی اور امریکی جنگ میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے ہے۔
ابتدائی طور پر پاکستانی حکومت اور سیاسی جماعتیں چاہتی تھیں کہ افغانستان سے فوری طور پر امریکا چلا جائے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی پر ان تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ لیکن افغانستان نے جب طالبان افغانستان کے ساتھ امن معاہدے پر مذاکرات شروع کیے تو پاکستان کے موقف میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بھی تبدیلی رونما ہوئی اور افغانستان کے زمینی حقایق کی بنا پر 2014ء کے بعد یکسر امریکی افواج کے افغانستان کے چھوڑ جانے کے بجائے مرحلہ وار انخلا کی تائید کی گئی۔
اس سلسلے میںامریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے بتایا کہ امریکی فوج کے افغانستان میں رہنے سے دہشت گردوں کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ دراصل پاکستان کی جانب سے یہ موقف شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران افغانستان کے سرحدی علاقوں سے جنگجوؤں کی جانب سے مسلح کارروائیوں کے اضافے کا رجحان دیکھنے کی بنا پر سامنے آیا ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان کو افغان سرحد پر فوجیوں کی تعداد میں ایک لاکھ 45ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 77 ہزارکرنی پڑی۔
امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب اشرف غنی کے ساتھ واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے منصوبے کے تحت 2015ء کے اختتام تک افغانستان میں موجود دس ہزار فوجیوں کا بتدریج انخلا کیا جائے گا اور سال کے آخر تک اس کے فوجیوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار تک رہ جائے گی۔
امریکا اپنے اس فیصلے کو افغانستان کو اب بھی خطرناک ملک قرار دیا جانا قرار دیتا ہے ۔ جب کہ افغان صدر اس انخلا کی تاخیر پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں انخلا کے منصوبے کو سست کرنے سے افغان سیکیورٹی فورسزکی بہتر تربیت ہو سکے۔
انخلا کے منصوبے میں تاخیر کے معاہدے پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب موجودہ صدر اشرف غنی نے امریکا کے ساتھ اس دفاعی پر دستخط کر کے امریکی فوج کے انخلا میں تاخیر کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔
افغانستان نے تسلیم کیا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ نا انصافیاں ہوئی ہیں اور اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے، افغان طالبان نے اس انخلا کے تاخیری منصوبے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مددگار ادارے ، یو این اے پی کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ متحارب گروہوں میں جنگ کے نتیجے میں 3,605 شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
ادارے نے2009ء میں اعداد و شمار اکٹھے کرنے شروع کیے اور اس چھ سال کے دوران افغان جنگ میں 47 ہزار 745 ہلاکتوں جن میں 17774 افغان شہری اور زخمیوں کی تعداد29971 کی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ زمینی کارروائیوں میں54 فیصد شہری ہلاک ہوئے اور یہ زمینی آپریشن افغان بچوں اورخواتین کی اموات کا سبب بنا ہے۔
افغانستان کی سرزمین ہمیشہ طالع آزماؤں کی مشق ستم کا شکار رہی ہے۔ افغانستان مسلسل حالت جنگ میں رہا ہے اور اس کے شہریوں کو امن کے خواب کی تعبیر بہت کم میسر آئی ہے۔
استعماری قوتوں کی جانب سے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں مداخلت اور امریکا نواز خارجہ پالیسی نے بھی افغانستان میں امن کو برباد کیا۔ روس کے ساتھ جہاد کے نام پر ہو یا پھر امریکا کا حامی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے سبب افغانستان میں پائیدار امن نہ جانے کب تک ایک خواب رہے گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسیوں نے جہاں افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی تو دوسری جانب پاکستان میں امن کو آگ لگا دی اور آج تک اس اس آگ کے شعلوں سے پاکستان کے در و دیوار جھلس رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ پاکستانی بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پاکستان آج عجیب دوراہے پر کھڑا ہے کہ اسے افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنے تحفظ کے خدشات لاحق ہیں تو دوسری جانب افغان حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے رجحانات میں اضافے کے تحت موجودہ نظام کو خطرات لاحق ہیں۔
افغانستان میں لویا جرگہ نے امریکا کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے کی منظوری بھی دی دے تھی جس کے تحت امریکا 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں رکھ سکتا ہے۔
افغان حکومت نے بھی امریکی فوج کے انخلا میں تاخیر کی منظوری دے دی ہے تو اس کے بعد پاکستان کے لیے بھی کوئی جواز نہیں رہتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کے انخلا میں تاخیر پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار کرے۔ خاص کر جب پاکستان ، افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوارکرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی سرحدوں پر جنگجوؤں کی جانب سے دراندازیاں کو روکنے کے لیے کسی موثر فریق کا درمیان میں ہونا ضروری بھی ہو۔
2001ء کے بعد سے پاکستان امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنا چکا ہے اور آگ کے شعلوں میں پاکستانی عوام اپنی ماضی کی ناقص خارجہ پالیسی کے سبب جھلس چکے ہیں۔ ان تمام حالات میں کہ امریکا اور نیٹو افواج نے اپنے انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کی افواج کو مضبوط بنانے کے لیے موثرکردار بھی ادا نہیں کیا اور بھاری اسلحہ یا تو اسکریپ کر دیا یا پھر اسے ڈمپ کرنے کو ترجیح دی گئی۔
امریکا اگر اپنے بچ جانے والے جنگی ساز و سامان کو افغان اور پاکستان کو مشترکہ طور پر دے دیتا تو اس سے افغان حکومت بھی مضبوط ہوتی اور پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی بقا و سلامتی کو داؤ پر لگا چکا ہے، اس کمک سے مزید طاقتور بھی ہوتا۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان دنیا کی ایک بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں والی عسکری قوت ہے اور جس طریقے سے ملک کے تین محاذوں کے ساتھ اندرونی گوریلا جنگ سے بھی نبرد آزما ہے وہ یقینی طور پر قابل ستائش اور قابل بھروسہ پر اعتماد فوج قیادت کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
افغانستان کی مضبوطی میں پاکستان کا کردار اہم ہے، افغانستان کو پاکستان کے ساتھ سرحدی اصولوں پر ہی نہیں بلکہ اسلامی تشخص اور برادرانہ بنیادوں پر اپنے تعلقات کو پائیدار بنانے کے لیے دوسروں کی جانب سے پیدا شدہ غلط فہمیوں اور نادان دوستوں کی جانب سے نادانیوں پر ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرانے کا عزم مستحکم بنانا چاہیے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے ایسے اپنا کردار دنیا عالم میں ادا کرنا چاہیے لہذا افغانستان میں پاکستان ان کی حکومت کی مضبوطی کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔کیونکہ یہی دونوں ممالک کے عظیم مفاد میں ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجیوں کے باقاعدہ انخلا کے باوجود امریکی حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ افغانستان میں وہ اپنے فوجی محدود تعداد میں رکھیں گے۔ اس فیصلے پر افغان طالبان نے اپنے سخت تحفظات کا اظہارکیا ہے کیونکہ یہ فیصلہ افغان طالبان اور اٖفغانستان حکومت کے درمیان امن مذاکرات میں حائل ہو رہا ہے۔
افغان طالبان نے افغان حکومت سے وضاحت مانگی ہے کہ واضح ٹائم فریم کیوں نہیں دیا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے افغانستان میں جنگی پالیسی تبدیل ہوتی جا رہی ہے پاکستان بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کر رہا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی شدت پسندی کی ذمے داری امریکی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی اور امریکی جنگ میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے ہے۔
ابتدائی طور پر پاکستانی حکومت اور سیاسی جماعتیں چاہتی تھیں کہ افغانستان سے فوری طور پر امریکا چلا جائے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی پر ان تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ لیکن افغانستان نے جب طالبان افغانستان کے ساتھ امن معاہدے پر مذاکرات شروع کیے تو پاکستان کے موقف میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بھی تبدیلی رونما ہوئی اور افغانستان کے زمینی حقایق کی بنا پر 2014ء کے بعد یکسر امریکی افواج کے افغانستان کے چھوڑ جانے کے بجائے مرحلہ وار انخلا کی تائید کی گئی۔
اس سلسلے میںامریکا میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے بتایا کہ امریکی فوج کے افغانستان میں رہنے سے دہشت گردوں کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ دراصل پاکستان کی جانب سے یہ موقف شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران افغانستان کے سرحدی علاقوں سے جنگجوؤں کی جانب سے مسلح کارروائیوں کے اضافے کا رجحان دیکھنے کی بنا پر سامنے آیا ہے ۔ اسی وجہ سے پاکستان کو افغان سرحد پر فوجیوں کی تعداد میں ایک لاکھ 45ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 77 ہزارکرنی پڑی۔
امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے افغان ہم منصب اشرف غنی کے ساتھ واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں امریکی فوج کے انخلا کے منصوبے میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے منصوبے کے تحت 2015ء کے اختتام تک افغانستان میں موجود دس ہزار فوجیوں کا بتدریج انخلا کیا جائے گا اور سال کے آخر تک اس کے فوجیوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار تک رہ جائے گی۔
امریکا اپنے اس فیصلے کو افغانستان کو اب بھی خطرناک ملک قرار دیا جانا قرار دیتا ہے ۔ جب کہ افغان صدر اس انخلا کی تاخیر پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں انخلا کے منصوبے کو سست کرنے سے افغان سیکیورٹی فورسزکی بہتر تربیت ہو سکے۔
انخلا کے منصوبے میں تاخیر کے معاہدے پر سابق افغان صدر حامد کرزئی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب موجودہ صدر اشرف غنی نے امریکا کے ساتھ اس دفاعی پر دستخط کر کے امریکی فوج کے انخلا میں تاخیر کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔
افغانستان نے تسلیم کیا تھا کہ افغان طالبان کے ساتھ نا انصافیاں ہوئی ہیں اور اس کا ازالہ کیا جانا چاہیے، افغان طالبان نے اس انخلا کے تاخیری منصوبے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے مددگار ادارے ، یو این اے پی کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ متحارب گروہوں میں جنگ کے نتیجے میں 3,605 شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔
ادارے نے2009ء میں اعداد و شمار اکٹھے کرنے شروع کیے اور اس چھ سال کے دوران افغان جنگ میں 47 ہزار 745 ہلاکتوں جن میں 17774 افغان شہری اور زخمیوں کی تعداد29971 کی رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ زمینی کارروائیوں میں54 فیصد شہری ہلاک ہوئے اور یہ زمینی آپریشن افغان بچوں اورخواتین کی اموات کا سبب بنا ہے۔
افغانستان کی سرزمین ہمیشہ طالع آزماؤں کی مشق ستم کا شکار رہی ہے۔ افغانستان مسلسل حالت جنگ میں رہا ہے اور اس کے شہریوں کو امن کے خواب کی تعبیر بہت کم میسر آئی ہے۔
استعماری قوتوں کی جانب سے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں مداخلت اور امریکا نواز خارجہ پالیسی نے بھی افغانستان میں امن کو برباد کیا۔ روس کے ساتھ جہاد کے نام پر ہو یا پھر امریکا کا حامی فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے سبب افغانستان میں پائیدار امن نہ جانے کب تک ایک خواب رہے گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسیوں نے جہاں افغانستان کے معاملات میں مداخلت کی تو دوسری جانب پاکستان میں امن کو آگ لگا دی اور آج تک اس اس آگ کے شعلوں سے پاکستان کے در و دیوار جھلس رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ پاکستانی بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پاکستان آج عجیب دوراہے پر کھڑا ہے کہ اسے افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنے تحفظ کے خدشات لاحق ہیں تو دوسری جانب افغان حکومت اور افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے رجحانات میں اضافے کے تحت موجودہ نظام کو خطرات لاحق ہیں۔
افغانستان میں لویا جرگہ نے امریکا کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے کی منظوری بھی دی دے تھی جس کے تحت امریکا 2014ء کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں رکھ سکتا ہے۔
افغان حکومت نے بھی امریکی فوج کے انخلا میں تاخیر کی منظوری دے دی ہے تو اس کے بعد پاکستان کے لیے بھی کوئی جواز نہیں رہتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کے انخلا میں تاخیر پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار کرے۔ خاص کر جب پاکستان ، افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات استوارکرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی سرحدوں پر جنگجوؤں کی جانب سے دراندازیاں کو روکنے کے لیے کسی موثر فریق کا درمیان میں ہونا ضروری بھی ہو۔
2001ء کے بعد سے پاکستان امریکی جنگ کو اپنی جنگ بنا چکا ہے اور آگ کے شعلوں میں پاکستانی عوام اپنی ماضی کی ناقص خارجہ پالیسی کے سبب جھلس چکے ہیں۔ ان تمام حالات میں کہ امریکا اور نیٹو افواج نے اپنے انخلا کے بعد افغانستان اور پاکستان کی افواج کو مضبوط بنانے کے لیے موثرکردار بھی ادا نہیں کیا اور بھاری اسلحہ یا تو اسکریپ کر دیا یا پھر اسے ڈمپ کرنے کو ترجیح دی گئی۔
امریکا اگر اپنے بچ جانے والے جنگی ساز و سامان کو افغان اور پاکستان کو مشترکہ طور پر دے دیتا تو اس سے افغان حکومت بھی مضبوط ہوتی اور پاکستان جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی بقا و سلامتی کو داؤ پر لگا چکا ہے، اس کمک سے مزید طاقتور بھی ہوتا۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان دنیا کی ایک بہترین پیشہ وارانہ صلاحیتوں والی عسکری قوت ہے اور جس طریقے سے ملک کے تین محاذوں کے ساتھ اندرونی گوریلا جنگ سے بھی نبرد آزما ہے وہ یقینی طور پر قابل ستائش اور قابل بھروسہ پر اعتماد فوج قیادت کی قائدانہ صلاحیتوں کا مظہر ہے۔
افغانستان کی مضبوطی میں پاکستان کا کردار اہم ہے، افغانستان کو پاکستان کے ساتھ سرحدی اصولوں پر ہی نہیں بلکہ اسلامی تشخص اور برادرانہ بنیادوں پر اپنے تعلقات کو پائیدار بنانے کے لیے دوسروں کی جانب سے پیدا شدہ غلط فہمیوں اور نادان دوستوں کی جانب سے نادانیوں پر ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرانے کا عزم مستحکم بنانا چاہیے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے ایسے اپنا کردار دنیا عالم میں ادا کرنا چاہیے لہذا افغانستان میں پاکستان ان کی حکومت کی مضبوطی کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔کیونکہ یہی دونوں ممالک کے عظیم مفاد میں ہے۔