یہ بات لوگوں کو شاید پسند نہ آئے
میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ فہم و ادراک کے کسی زاویے سے ثابت نہیں ہو پا رہا کہ جب سعودی عرب ہماری حمایت کرتا ہے۔
ایک معروف کالمسٹ کے کالم کو پڑھنے کے بعد بعینہ محسوس ہوا کہ دنیائے سیاست یمن میں حوثی بغاوت اور سعودی عرب کا اس میں شامل ہونا سمیت متعدد معاملات میں ان سے زیادہ ماہر نہ کوئی ہے، نہ تھا نہ ہو گا۔
وہ میروں کے میر ہیں، الفاظ کے استعمال سے بخوبی واقف، زبان کی لوچ ان پر ختم یا ان سے شروع۔ لہٰذا انھوں نے دنوں، مہینوں کا فاصلہ اپنی تحریر کردہ سطور میں یہ کہہ کر طے کر لیا کہ ''ہم افسانہ طراز ہیں کہانی لکھتے نہیں گھڑتے ہیں۔
چنانچہ ہم جو سعودی عرب کی مدد کرنے جا رہے ہیں وہ سراسر غلط اس لیے ہے کہ اول حوثی قبائل کسی مخصوص فرقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ دوئم وہ ایسے صلح جو لوگ ہیں جو اپنے ملک میں نافذ نظام کی اصلاح چاہتے ہیں مزید یہ کہ اس ساری لڑائی سے سعودی عرب کی مرضی و منشا اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ یمن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ حوثیوں کو یہ قبول نہیں لہٰذا سعودی حکومت باقی مسلم دنیا کو یہ جتا کر جذباتی کر رہی ہے کہ مقامات مقدسہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ محترمی نے یہ بھی فرمایا کہ سعودی عرب یمن بغاوت میں دراصل جارحیت کر رہا ہے۔
میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ فہم و ادراک کے کسی زاویے سے ثابت نہیں ہو پا رہا کہ جب سعودی عرب ہماری حمایت کرتا ہے۔ سماجی و مالی مدد کرتا ہے۔ تب یہ اہل دانش، مفکر کہاں ہوتے ہیں؟ یہ اس وقت کسی مصلحت کا، انصاف کا ملکی مستقبل کا درس کیوں نہیں دیتے؟ مجھے گلہ صرف یہ ہے کہ جو چنیدہ الفاظ یمن بغاوت اور سعودی حمایت کے خلاف بلا دریغ خرچ کیے جا رہے ہیں، بغیر گنتی کے بولے جا رہے ہیں۔
انھیں اس وقت بھی استعمال میں لانا چاہیے جب ہم سعودی عرب سے مدد لے رہے ہوتے ہیں۔ اسے اپنا دیرینہ، مہربان، مشفق دوست قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ سردست اگر میں صاحب موصوف سے اتفاق کر بھی لوں تو میری رائے یہی رہے گی کہ ہمیں غیر مشروط طور پر سعودی عرب کی مدد کرنی چاہیے۔ نیز ایسے قبائل جو دراصل دین میں فتنے کا سبب بن رہے ہیں یا دینی مراکز کے لیے خطرہ۔ ان سے خبردار رہنا چاہیے۔
افغان وار میں کی گئی غلطیوں کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم فیصلہ کرنا ہی چھوڑ دیں۔ ڈر کے مارے خاموش رہیں۔ یا عالمی افق پر وقوع پذیر ہونیوالے معاملات سے بے بہرہ ہوں۔ ایسا ممکن نہیں ویسے بھی خدا نخواستہ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا اس کا سبب ہم ہوں گے؟ یا کوئی ہم سے پوچھ کر اس جنگ کا آغاز کرے گا؟
ارے بھائی! کوئی بات کہنے یا کرنے سے پہلے اپنا حجم ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ اپنی حیثیت پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم بھلے سے ایٹمی طاقت ہیں اور پوری مسلم دنیا میں واحد سہی لیکن ہمارے باقی معاملات کیا ہیں؟ پورا ملک نسلی تعصب میں گھرا ہوا ہے۔ کوئی خود کو پاکستانی کہنے پر تیار نہیں۔ سب قبائلی یا صوبائی ناموں سے جانے، جانے پر مصر ہیں اور فخر کرتے ہیں۔
ایک اور سمت سے اپنا جائزہ لیں تو کم از کم ایٹمی قوت بننے کے بعد ملک میں انرجی بحران حل ہو جانا چاہیے تھا 12 سے 14 گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ملک بھر میں جاری ہے۔ جو بھی حکومت آ۔جا۔ رہی ہے وہ ملکی املاک و ادارے ایسے بیچ رہی ہے جیسے یہ بھی ان کے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی میراث ہوں۔ Merit کے قتل عام کا یہ حال ہے کہ جس کا جہاں داؤ لگا اپنا آدمی رکھوا دیا۔ باقی قوم فائل بغل میں دابے یا تو امید کی قطار میں لگی ہے یا مایوس کھڑی دھرتی آزاد کروانے میں مصروف۔ میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم اب تک Organise نہیں۔
لہٰذا کسی دوست کے مدد مانگنے پر میرا مشورہ پہلے بھی یہی تھا آج بھی سوچنے سمجھنے کے بعد یہی ہے کہ ہمیں موقع گنوائے بغیر سعودی عرب کی مدد کرنی چاہیے قبل اس کے کہ معاملات بہتری کی جانب لوٹ آئیں۔ جو کہ لوٹنے ہی ہیں کیونکہ اس کے ساتھ امریکا بہادر ہے۔ جو سالانہ سعودی عرب سے حفاظت کرنے کی مد میں اربوں ڈالر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ یورپ کے بڑے ممالک ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1947ء میں آزادی ہم ہندوستان میں انگریزوں سے لے رہے تھے۔ نعرہ ''پاکستان کا مطلب کیا! لاالہ اللہ'' کا لگا رہے تھے۔ جس سے ایک Momentum بنا۔ تحریک آزادی میں جیسے اس نعرے نے روح پھونک دی۔ اور انڈیا کے ان علاقوں میں بھی تحریک کے لیے جانیں قربان کی گئیں جو متوقع پاکستان میں شامل ہی نہیں تھے۔
آپ دین میں مرکز کو کیا سمجھتے ہیں؟ جیسے قرآن کریم میں اللہ پاک نے فرمایا ''وہ اس گھر کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔'' مسلم امہ ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ کسی طور ہم سے ایک کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ خواہ وہ فریقین کے درمیان مصالحت کروانے کا ہی کیوں نہ ہو۔ اور ہم ہیں کہ خاموش رہنا چاہتے ہیں۔
حالانکہ جب خاموش رہنا تھا تو کود پڑے افغان وار میں۔ کیونکہ امریکا یعنی ''آقا'' کا حکم تھا۔ خوب پیسے لیے اور افغانوں کو تربیت دی۔ بلکہ اپنی فوج وہاں بھیج کر جنگ لڑی۔ جس میں (Russia) ٹوٹ گیا۔ لہٰذا دنیا آج تک اکیلے امریکا کو بھگت رہی ہے۔ پھر حکم آیا 9/11 کہ یا تو ہماری جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر لڑو۔ ورنہ غاروں اور پتھروں کے دور میں بھیج دیں گے۔
ہم پھر آمنا صدقنا کا نعرہ لگا کر کود پڑے۔ پیسے پھر مل گئے۔ لیکن اس مرتبہ طالبان بھی تحفے میں ملے اور نہیں ملی تو آج تک آقا کے یہاں عزت۔ خیر اب تو خوشی کی بات یہ ہے کہ یمن بغاوت میں ہم اور آقا On Page ہیں۔ یورپ بھی ہم قدم ہے۔ تو پھر اتنا غور و فکر کیوں، اتنا تردد کیوں؟ اور ہمارا تو ویسے بھی غور و فکر سے کبھی کوئی تعلق رہا تو بس رسمی سا۔ ورنہ ہم نے سنا اور دوڑ پڑے۔ اب تک کی تاریخ تو یہی ہے۔ خیر میرا مشورہ ختم ہوا۔
جس کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں۔ لیکن میں نے بحیثیت ایک پاکستانی اسے دینا اپنا فرض سمجھا۔ادھر امارات کے وزیر کا بیان بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اس حقیقت کے ساتھ کہ امارات میں سرمایہ کاری کرنیوالا India تیسرا بڑا ملک ہے۔ اور ماشا اللہ اپنے سلاطین امارات بھاگ بھاگ کر وہاں دورے کرتے ہیں۔ اور انڈیا کے کلچر کی، سیکولرازم کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ ایسے میں ذرا یادداشت کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ پنّے الٹیں پلٹیں گے تو ہمیں شاہ فیصل شہید، شاہ عبداللہ، شاہ خالد سمیت ایسے سعودی حکمران جا بہ جا نظر آئیں گے۔ جنھوں نے ہمیشہ پاکستان کی دل کھول کر مدد کی اور مدد کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچا کہ باقی دنیا کیا کہے گی؟ انڈیا کیا سوچے گا؟ تو پھر کہہ دیں ہم بھی ''لبیک الھم لبیک۔''
وہ میروں کے میر ہیں، الفاظ کے استعمال سے بخوبی واقف، زبان کی لوچ ان پر ختم یا ان سے شروع۔ لہٰذا انھوں نے دنوں، مہینوں کا فاصلہ اپنی تحریر کردہ سطور میں یہ کہہ کر طے کر لیا کہ ''ہم افسانہ طراز ہیں کہانی لکھتے نہیں گھڑتے ہیں۔
چنانچہ ہم جو سعودی عرب کی مدد کرنے جا رہے ہیں وہ سراسر غلط اس لیے ہے کہ اول حوثی قبائل کسی مخصوص فرقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ دوئم وہ ایسے صلح جو لوگ ہیں جو اپنے ملک میں نافذ نظام کی اصلاح چاہتے ہیں مزید یہ کہ اس ساری لڑائی سے سعودی عرب کی مرضی و منشا اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ یمن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ حوثیوں کو یہ قبول نہیں لہٰذا سعودی حکومت باقی مسلم دنیا کو یہ جتا کر جذباتی کر رہی ہے کہ مقامات مقدسہ کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ محترمی نے یہ بھی فرمایا کہ سعودی عرب یمن بغاوت میں دراصل جارحیت کر رہا ہے۔
میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ فہم و ادراک کے کسی زاویے سے ثابت نہیں ہو پا رہا کہ جب سعودی عرب ہماری حمایت کرتا ہے۔ سماجی و مالی مدد کرتا ہے۔ تب یہ اہل دانش، مفکر کہاں ہوتے ہیں؟ یہ اس وقت کسی مصلحت کا، انصاف کا ملکی مستقبل کا درس کیوں نہیں دیتے؟ مجھے گلہ صرف یہ ہے کہ جو چنیدہ الفاظ یمن بغاوت اور سعودی حمایت کے خلاف بلا دریغ خرچ کیے جا رہے ہیں، بغیر گنتی کے بولے جا رہے ہیں۔
انھیں اس وقت بھی استعمال میں لانا چاہیے جب ہم سعودی عرب سے مدد لے رہے ہوتے ہیں۔ اسے اپنا دیرینہ، مہربان، مشفق دوست قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ سردست اگر میں صاحب موصوف سے اتفاق کر بھی لوں تو میری رائے یہی رہے گی کہ ہمیں غیر مشروط طور پر سعودی عرب کی مدد کرنی چاہیے۔ نیز ایسے قبائل جو دراصل دین میں فتنے کا سبب بن رہے ہیں یا دینی مراکز کے لیے خطرہ۔ ان سے خبردار رہنا چاہیے۔
افغان وار میں کی گئی غلطیوں کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم فیصلہ کرنا ہی چھوڑ دیں۔ ڈر کے مارے خاموش رہیں۔ یا عالمی افق پر وقوع پذیر ہونیوالے معاملات سے بے بہرہ ہوں۔ ایسا ممکن نہیں ویسے بھی خدا نخواستہ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا اس کا سبب ہم ہوں گے؟ یا کوئی ہم سے پوچھ کر اس جنگ کا آغاز کرے گا؟
ارے بھائی! کوئی بات کہنے یا کرنے سے پہلے اپنا حجم ضرور دیکھ لینا چاہیے۔ اپنی حیثیت پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم بھلے سے ایٹمی طاقت ہیں اور پوری مسلم دنیا میں واحد سہی لیکن ہمارے باقی معاملات کیا ہیں؟ پورا ملک نسلی تعصب میں گھرا ہوا ہے۔ کوئی خود کو پاکستانی کہنے پر تیار نہیں۔ سب قبائلی یا صوبائی ناموں سے جانے، جانے پر مصر ہیں اور فخر کرتے ہیں۔
ایک اور سمت سے اپنا جائزہ لیں تو کم از کم ایٹمی قوت بننے کے بعد ملک میں انرجی بحران حل ہو جانا چاہیے تھا 12 سے 14 گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ملک بھر میں جاری ہے۔ جو بھی حکومت آ۔جا۔ رہی ہے وہ ملکی املاک و ادارے ایسے بیچ رہی ہے جیسے یہ بھی ان کے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی میراث ہوں۔ Merit کے قتل عام کا یہ حال ہے کہ جس کا جہاں داؤ لگا اپنا آدمی رکھوا دیا۔ باقی قوم فائل بغل میں دابے یا تو امید کی قطار میں لگی ہے یا مایوس کھڑی دھرتی آزاد کروانے میں مصروف۔ میں یہ سب اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہم اب تک Organise نہیں۔
لہٰذا کسی دوست کے مدد مانگنے پر میرا مشورہ پہلے بھی یہی تھا آج بھی سوچنے سمجھنے کے بعد یہی ہے کہ ہمیں موقع گنوائے بغیر سعودی عرب کی مدد کرنی چاہیے قبل اس کے کہ معاملات بہتری کی جانب لوٹ آئیں۔ جو کہ لوٹنے ہی ہیں کیونکہ اس کے ساتھ امریکا بہادر ہے۔ جو سالانہ سعودی عرب سے حفاظت کرنے کی مد میں اربوں ڈالر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ یورپ کے بڑے ممالک ہیں۔ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہیں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1947ء میں آزادی ہم ہندوستان میں انگریزوں سے لے رہے تھے۔ نعرہ ''پاکستان کا مطلب کیا! لاالہ اللہ'' کا لگا رہے تھے۔ جس سے ایک Momentum بنا۔ تحریک آزادی میں جیسے اس نعرے نے روح پھونک دی۔ اور انڈیا کے ان علاقوں میں بھی تحریک کے لیے جانیں قربان کی گئیں جو متوقع پاکستان میں شامل ہی نہیں تھے۔
آپ دین میں مرکز کو کیا سمجھتے ہیں؟ جیسے قرآن کریم میں اللہ پاک نے فرمایا ''وہ اس گھر کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔'' مسلم امہ ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ کسی طور ہم سے ایک کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ خواہ وہ فریقین کے درمیان مصالحت کروانے کا ہی کیوں نہ ہو۔ اور ہم ہیں کہ خاموش رہنا چاہتے ہیں۔
حالانکہ جب خاموش رہنا تھا تو کود پڑے افغان وار میں۔ کیونکہ امریکا یعنی ''آقا'' کا حکم تھا۔ خوب پیسے لیے اور افغانوں کو تربیت دی۔ بلکہ اپنی فوج وہاں بھیج کر جنگ لڑی۔ جس میں (Russia) ٹوٹ گیا۔ لہٰذا دنیا آج تک اکیلے امریکا کو بھگت رہی ہے۔ پھر حکم آیا 9/11 کہ یا تو ہماری جنگ کو اپنی جنگ کہہ کر لڑو۔ ورنہ غاروں اور پتھروں کے دور میں بھیج دیں گے۔
ہم پھر آمنا صدقنا کا نعرہ لگا کر کود پڑے۔ پیسے پھر مل گئے۔ لیکن اس مرتبہ طالبان بھی تحفے میں ملے اور نہیں ملی تو آج تک آقا کے یہاں عزت۔ خیر اب تو خوشی کی بات یہ ہے کہ یمن بغاوت میں ہم اور آقا On Page ہیں۔ یورپ بھی ہم قدم ہے۔ تو پھر اتنا غور و فکر کیوں، اتنا تردد کیوں؟ اور ہمارا تو ویسے بھی غور و فکر سے کبھی کوئی تعلق رہا تو بس رسمی سا۔ ورنہ ہم نے سنا اور دوڑ پڑے۔ اب تک کی تاریخ تو یہی ہے۔ خیر میرا مشورہ ختم ہوا۔
جس کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں۔ لیکن میں نے بحیثیت ایک پاکستانی اسے دینا اپنا فرض سمجھا۔ادھر امارات کے وزیر کا بیان بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اس حقیقت کے ساتھ کہ امارات میں سرمایہ کاری کرنیوالا India تیسرا بڑا ملک ہے۔ اور ماشا اللہ اپنے سلاطین امارات بھاگ بھاگ کر وہاں دورے کرتے ہیں۔ اور انڈیا کے کلچر کی، سیکولرازم کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ ایسے میں ذرا یادداشت کھنگالنے کی ضرورت ہے۔ پنّے الٹیں پلٹیں گے تو ہمیں شاہ فیصل شہید، شاہ عبداللہ، شاہ خالد سمیت ایسے سعودی حکمران جا بہ جا نظر آئیں گے۔ جنھوں نے ہمیشہ پاکستان کی دل کھول کر مدد کی اور مدد کرتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچا کہ باقی دنیا کیا کہے گی؟ انڈیا کیا سوچے گا؟ تو پھر کہہ دیں ہم بھی ''لبیک الھم لبیک۔''