دنیا کو خوبصورت بنانے کا خواب
اپنی آس پاس کی دنیا کو خوبصورت بنانے کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے لیکن اسے تعبیر کرنے کی ہمت بہت کم لوگ کر پاتے ہیں
اپنی آس پاس کی دنیا کو خوبصورت بنانے کا خواب ہر انسان دیکھتا ہے لیکن اسے تعبیر کرنے کی ہمت بہت کم لوگ کر پاتے ہیں اور اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو یہ بات اور درست معلوم ہوتی ہے۔
ہم پاکستانی بناء کچھ سوچے سمجھے اپنے ملک کے قیمتی ذخائر معدنیات، آبی وسائل، جنگلا ت کی کٹائی کے ساتھ جنگلی جانوروں کو بے گھر کرنے اور ماحول کو تبا ہ کرنے کے جس مہم پر عمل پیرا ہیں، اس کی نظیر دنیا میں بہت کم ملے گی۔
ایک چینی کہانی ہے کہ ایک بوڑھے آدمی کو پودا لگاتے دیکھ کر لوگوں نے کہا ''بابا جی آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہو جب تک یہ پھل دینے کے قابل ہو گا آپ اس دنیا میں نہیں ہوں گے'' اس پر بوڑھے آدمی نے کہا ''میں جانتا ہوں کہ جب یہ تناور درخت بن جائے گا تو میں اس کا پھل کھانے کے لیے اس دنیا میں نہیں رہوں گا لیکن یہ درخت میں نے اپنے فائدے کے لیے نہیں لگایا، میرے بزرگوں نے جو درخت لگائے تھے اس کے پھلوں کو میں نے استعمال کیا اب یہ درخت میں اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے لگا رہا ہوں۔''
کہنے کو یہ چھوٹی سی معمولی کہانی ہے لیکن اس میں سمجھنے والوں کے لیے بڑی حکمت ہے خاص کر ہم جیسی نا سمجھ قوم کے لیے جو اپنے قیمتی جنگلات بڑی بے دردی سے کاٹتے جا رہے ہیں اس بات کو جانے سمجھے بناء کہ ان جنگلات سے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے۔ بارش سیلاب کی تباہ کاریاں کس طرح یہ روکتے ہیں۔ دین اسلام میں بھی شجرکاری کو عبادت کا حصہ کہا گیا ہے اور ہرے بھرے درخت کو کاٹنا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
پوری دنیا میں ارتھ ڈ ے منایا گیا، اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی زمین اور اس کے ماحول کو بہتر کرنے کے لیے کیا تدابیر سوچتے ہیں اور کس طرح ان پر سختی سے عمل پیرا بھی ہیں، تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو یہ دنیا ایک خوبصورت انداز میں مل سکے، پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور زمینی وسائل کے بے دریغ استعمال نے بے شمار مسائل کھڑے کر دیے ہیں ہمیں بھی اپنے ملک کے ان مسائل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
آلودگی ہماری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی طرح ہمارے ماحول کا جز بنتی جا رہی ہے یہ وہ بیماری ہے جو خاموش قاتل کی طرح ہمارے ماحول کو دیمک کی طرح چاٹتی جا رہی ہے، بدقسمتی سے اس بیماری کے جراثیم ہم انسان نے خود پھیلا ئے ہیں جب کوئی چیز پھیل جائے تو پھر کئی حصوں میں تقسیم بھی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آلودگی کی کئی اقسام مثلا فضائی آلودگی، تیزابی آلودگی، آبی آلودگی اور صوتی آلودگی ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔
1969ء میں سانتا باربرا (کیلی فورنیا ) کے ساحلوں پر سفر کے دوران گیلورڈ نیلسن نے دیکھا کہ اس کے خوبصورت ساحلوں کو تیل نے بری طرح آلودہ کر دیا ہے۔ اس نے اپنے طور پر لوگوں کو صاف ما حول سے آگاہی کے لیے کوششیں شروع کی اور بالاخر 22 اپریل 1970ء کو پوری دنیا میں باضابطہ طور پر ماحول کا عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس پروگرام میں دس لاکھ امریکیوں نے شرکت کی جن میں کالج اور یورنیورسٹیوں کے طلباء سے لے کر عام آدمی تک نے ماحول کی آلودگی پھیلا نے والی فیکٹریوں، آئل، پاور پلانٹس، خام سیوریج، جنگل کا نقصان اور فضائی آلودگی کے خلاف اعلا ن جنگ کیا۔ ان کے اس احساس ذمے داری نے ان ملکوں کو بڑی حد تک ماحولیاتی آلودگی سے چھٹکارہ دلا دیا۔ اس سلسلے میں میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا اور روزانہ کی بنیا د پر ایک گھنٹے کا پروگرام عوام کی آگاہی کے لیے پیش کیا جس کا عنوان تھا۔ ''ارتھ ڈے، ہما ری بقا کا سوال۔''
وطن عزیز پا کستا ن میں انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل کے نام سے 1984ء میں ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی اس کا قیام پا کستان انوائرنمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس 1983ء کے سیکشن 3 کے تحت عمل میں آیا۔ اس آرڈیننس کے تحت صدر پا کستا ن کی سربراہی میں یہ ادارہ ا جلاس بلانے کا پابند ہے لیکن افسوس ناک با ت یہ ہے کہ اپنے قیا م کے نو برس تک اس ادارے کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا گیا۔
مئی 1993ء کو نگراں وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں اس کا پہلا اجلاس ہوا، انھو ں نے شور، موٹر گاڑیو ں کے دھویں، میونسپل، صنعتوں سے گیسوں کے اخراج کو نیشنل کوالٹی اسٹینڈرڈ کی منظوری دی مگر ان پر عمل درآمد نہ ہو سکنے سے ان کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں، اس ادارے کا اجلا س برسراقتدار لیڈروں کی سربراہی میں ہوتا رہا ہے۔
جس میں دریاؤں اور ندیوں کے پانی کا انتہائی مضر صحت ہونا، صنعتی آلودگی، روزانہ ٹنوں کے حساب سے گلیوں اور اسپتالوں کا کچرا اور ناکارہ مواد کو ٹھکانے لگانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونا اور جنگلات میں درختوں کا خطرناک حد تک کم ہونا جیسے اہم مسائل پر غور بھی کیا جاتا رہا ہے مگر اس پر کس قدر عمل ہو سکا یہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جنگلات ختم کر کے نئی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں، جنگلات میں کمی ہونے کے سبب موسم میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ اسے ماہرین ارضیات نے بھیانک خطرے سے تعبیر کیا ہے دنیا کے ممالک نے اس پر توجہ دینی شروع کر دی ہے، کیونکہ اگر جنگلات ختم ہو گئے تو حیوانی زندگی کا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔
ما ہرین کے مطابق بااثر افراد کی لکڑی کی تجارت اور آبادی کے پھیلاؤ کے سبب پوری دنیا میں تقریبا ہر سال پچاس لاکھ ایکڑ جنگلات ضایع ہو رہے ہیں، خود ہمارے ملک میں ہرے بھرے درخت کاٹنے پر پابندی ہے، مگر اس کے باوجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے گرفت سے باہر رہتے ہیں، ایک پودے کو درخت بننے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
اس لیے جہاں درخت لگانا ضروری ہیں وہاں سرکاری سطح پر لوگوں میں درختو ں کی حفاظت کا شعور بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت زمین کو انسا نوں نے بے دریغ استعمال سے آلودہ کر دیا ہے اس آلودگی نے ترقی پذیر ممالک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے سو یہاں بھی ہمارے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں پانی جو زندگی کی اشد ضرورت ہے، ہماری اپنی غلطیوں سے پانی انتہائی آلودہ ہو چکا ہے۔ ہم آئے دن ساحل پر آلودہ پا نی کی وجہ سے ہزاروں مچھلیوں کے مردہ پائے جانے کی خبر اخباروں اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں یہ آلودہ پانی قدرتی توازن کے بگاڑ کا سبب اور فصلیں تباہ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
کیمیکل فیکٹری اور چمڑے کے کارخانوں کا فضلہ گٹر کا پانی، کوڑا سب سمندر میں بہا دیا جاتا ہے جو سمندر کے پانی کو زہریلا کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس میں رہنے والی حیات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ان مسائل سے نبٹنے کے لیے سخت ترین قانون بنانے کی اور اس پر عمل درآمد کرانے کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اسکولوں اور مسجدوں میں چھوٹے چھو ٹے پروگرا م کے ذریعے لوگو ں میں آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے ۔
ہما را ملک قد رتی وسائل سے مالا مال ہے جو معاشی ترقی کے لیے بنیادی جز ہے لیکن بدقسمتی سے وسائل کے بے دریغ استعمال نے ہماری زمین کو خطر ے سے دوچار کر دیا ہے یہ سب راتوں رات ٹھیک ہو نے والا نہیں آبی و فضائی آلودگی، غربت اور آبادی میں بے تحاشا اضافہ وہ اسباب ہیں جو صحت مند ماحول کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں یا پھر دوسرا بہتر طر یقہ اپنائیں اور جوانمردی سے ا ٹھ کر حالات کا مقابلہ کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے صحت مند معاشرے کی تعمیر کریں جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو ۔
ہم پاکستانی بناء کچھ سوچے سمجھے اپنے ملک کے قیمتی ذخائر معدنیات، آبی وسائل، جنگلا ت کی کٹائی کے ساتھ جنگلی جانوروں کو بے گھر کرنے اور ماحول کو تبا ہ کرنے کے جس مہم پر عمل پیرا ہیں، اس کی نظیر دنیا میں بہت کم ملے گی۔
ایک چینی کہانی ہے کہ ایک بوڑھے آدمی کو پودا لگاتے دیکھ کر لوگوں نے کہا ''بابا جی آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہو جب تک یہ پھل دینے کے قابل ہو گا آپ اس دنیا میں نہیں ہوں گے'' اس پر بوڑھے آدمی نے کہا ''میں جانتا ہوں کہ جب یہ تناور درخت بن جائے گا تو میں اس کا پھل کھانے کے لیے اس دنیا میں نہیں رہوں گا لیکن یہ درخت میں نے اپنے فائدے کے لیے نہیں لگایا، میرے بزرگوں نے جو درخت لگائے تھے اس کے پھلوں کو میں نے استعمال کیا اب یہ درخت میں اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کے لیے لگا رہا ہوں۔''
کہنے کو یہ چھوٹی سی معمولی کہانی ہے لیکن اس میں سمجھنے والوں کے لیے بڑی حکمت ہے خاص کر ہم جیسی نا سمجھ قوم کے لیے جو اپنے قیمتی جنگلات بڑی بے دردی سے کاٹتے جا رہے ہیں اس بات کو جانے سمجھے بناء کہ ان جنگلات سے ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے۔ بارش سیلاب کی تباہ کاریاں کس طرح یہ روکتے ہیں۔ دین اسلام میں بھی شجرکاری کو عبادت کا حصہ کہا گیا ہے اور ہرے بھرے درخت کو کاٹنا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
پوری دنیا میں ارتھ ڈ ے منایا گیا، اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی زمین اور اس کے ماحول کو بہتر کرنے کے لیے کیا تدابیر سوچتے ہیں اور کس طرح ان پر سختی سے عمل پیرا بھی ہیں، تا کہ ہماری آنے والی نسلوں کو یہ دنیا ایک خوبصورت انداز میں مل سکے، پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی اور زمینی وسائل کے بے دریغ استعمال نے بے شمار مسائل کھڑے کر دیے ہیں ہمیں بھی اپنے ملک کے ان مسائل پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
آلودگی ہماری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی طرح ہمارے ماحول کا جز بنتی جا رہی ہے یہ وہ بیماری ہے جو خاموش قاتل کی طرح ہمارے ماحول کو دیمک کی طرح چاٹتی جا رہی ہے، بدقسمتی سے اس بیماری کے جراثیم ہم انسان نے خود پھیلا ئے ہیں جب کوئی چیز پھیل جائے تو پھر کئی حصوں میں تقسیم بھی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آلودگی کی کئی اقسام مثلا فضائی آلودگی، تیزابی آلودگی، آبی آلودگی اور صوتی آلودگی ہمارے ماحول کا حصہ ہیں۔
1969ء میں سانتا باربرا (کیلی فورنیا ) کے ساحلوں پر سفر کے دوران گیلورڈ نیلسن نے دیکھا کہ اس کے خوبصورت ساحلوں کو تیل نے بری طرح آلودہ کر دیا ہے۔ اس نے اپنے طور پر لوگوں کو صاف ما حول سے آگاہی کے لیے کوششیں شروع کی اور بالاخر 22 اپریل 1970ء کو پوری دنیا میں باضابطہ طور پر ماحول کا عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا گیا۔
اس پروگرام میں دس لاکھ امریکیوں نے شرکت کی جن میں کالج اور یورنیورسٹیوں کے طلباء سے لے کر عام آدمی تک نے ماحول کی آلودگی پھیلا نے والی فیکٹریوں، آئل، پاور پلانٹس، خام سیوریج، جنگل کا نقصان اور فضائی آلودگی کے خلاف اعلا ن جنگ کیا۔ ان کے اس احساس ذمے داری نے ان ملکوں کو بڑی حد تک ماحولیاتی آلودگی سے چھٹکارہ دلا دیا۔ اس سلسلے میں میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا اور روزانہ کی بنیا د پر ایک گھنٹے کا پروگرام عوام کی آگاہی کے لیے پیش کیا جس کا عنوان تھا۔ ''ارتھ ڈے، ہما ری بقا کا سوال۔''
وطن عزیز پا کستا ن میں انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل کے نام سے 1984ء میں ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی اس کا قیام پا کستان انوائرنمینٹل پروٹیکشن آرڈیننس 1983ء کے سیکشن 3 کے تحت عمل میں آیا۔ اس آرڈیننس کے تحت صدر پا کستا ن کی سربراہی میں یہ ادارہ ا جلاس بلانے کا پابند ہے لیکن افسوس ناک با ت یہ ہے کہ اپنے قیا م کے نو برس تک اس ادارے کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا گیا۔
مئی 1993ء کو نگراں وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں اس کا پہلا اجلاس ہوا، انھو ں نے شور، موٹر گاڑیو ں کے دھویں، میونسپل، صنعتوں سے گیسوں کے اخراج کو نیشنل کوالٹی اسٹینڈرڈ کی منظوری دی مگر ان پر عمل درآمد نہ ہو سکنے سے ان کی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں، اس ادارے کا اجلا س برسراقتدار لیڈروں کی سربراہی میں ہوتا رہا ہے۔
جس میں دریاؤں اور ندیوں کے پانی کا انتہائی مضر صحت ہونا، صنعتی آلودگی، روزانہ ٹنوں کے حساب سے گلیوں اور اسپتالوں کا کچرا اور ناکارہ مواد کو ٹھکانے لگانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہونا اور جنگلات میں درختوں کا خطرناک حد تک کم ہونا جیسے اہم مسائل پر غور بھی کیا جاتا رہا ہے مگر اس پر کس قدر عمل ہو سکا یہ ہم سب کے سامنے ہے ۔
آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے جنگلات ختم کر کے نئی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں، جنگلات میں کمی ہونے کے سبب موسم میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ اسے ماہرین ارضیات نے بھیانک خطرے سے تعبیر کیا ہے دنیا کے ممالک نے اس پر توجہ دینی شروع کر دی ہے، کیونکہ اگر جنگلات ختم ہو گئے تو حیوانی زندگی کا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔
ما ہرین کے مطابق بااثر افراد کی لکڑی کی تجارت اور آبادی کے پھیلاؤ کے سبب پوری دنیا میں تقریبا ہر سال پچاس لاکھ ایکڑ جنگلات ضایع ہو رہے ہیں، خود ہمارے ملک میں ہرے بھرے درخت کاٹنے پر پابندی ہے، مگر اس کے باوجود قانون کی خلاف ورزی کرنے والے گرفت سے باہر رہتے ہیں، ایک پودے کو درخت بننے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
اس لیے جہاں درخت لگانا ضروری ہیں وہاں سرکاری سطح پر لوگوں میں درختو ں کی حفاظت کا شعور بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت زمین کو انسا نوں نے بے دریغ استعمال سے آلودہ کر دیا ہے اس آلودگی نے ترقی پذیر ممالک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے سو یہاں بھی ہمارے عوام کو بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں پانی جو زندگی کی اشد ضرورت ہے، ہماری اپنی غلطیوں سے پانی انتہائی آلودہ ہو چکا ہے۔ ہم آئے دن ساحل پر آلودہ پا نی کی وجہ سے ہزاروں مچھلیوں کے مردہ پائے جانے کی خبر اخباروں اور ٹی وی پر دیکھتے ہیں یہ آلودہ پانی قدرتی توازن کے بگاڑ کا سبب اور فصلیں تباہ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔
کیمیکل فیکٹری اور چمڑے کے کارخانوں کا فضلہ گٹر کا پانی، کوڑا سب سمندر میں بہا دیا جاتا ہے جو سمندر کے پانی کو زہریلا کرنے کا سبب بنتا ہے اور اس میں رہنے والی حیات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ان مسائل سے نبٹنے کے لیے سخت ترین قانون بنانے کی اور اس پر عمل درآمد کرانے کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اسکولوں اور مسجدوں میں چھوٹے چھو ٹے پروگرا م کے ذریعے لوگو ں میں آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے ۔
ہما را ملک قد رتی وسائل سے مالا مال ہے جو معاشی ترقی کے لیے بنیادی جز ہے لیکن بدقسمتی سے وسائل کے بے دریغ استعمال نے ہماری زمین کو خطر ے سے دوچار کر دیا ہے یہ سب راتوں رات ٹھیک ہو نے والا نہیں آبی و فضائی آلودگی، غربت اور آبادی میں بے تحاشا اضافہ وہ اسباب ہیں جو صحت مند ماحول کے لیے کسی طور بھی سود مند نہیں، اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں یا پھر دوسرا بہتر طر یقہ اپنائیں اور جوانمردی سے ا ٹھ کر حالات کا مقابلہ کریں اور آنے والی نسلوں کے لیے صحت مند معاشرے کی تعمیر کریں جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو ۔